اڑھائی گھنٹے بریفنگ لیکن نوٹ بک خالی
ایبٹ آباد کے واقعے کی مکمل تفصیلات جانے کی کوشش ہر صحافی گزشتہ کئی دنوں سے کر رہا ہے۔ ہر کوئی اس مصدقہ معلومات سے عاری دشت میں اپنے اپنے گھوڑے دوڑا رہا ہے۔ کوئی فوجی تو کوئی سفارتی ذرائع کو نچوڑنے کی اپنی سی کوشش میں جتا ہے۔
ہر کوئی اُس رات کیا ہوا، کیسے ہوا اور کیوں ہوا کے جواب تلاش کرنے میں مصروف ہے۔ جس کو جیسی تیسی کچی پکی خبر مل رہی ہے اسے پیچھے رہ جانے کے خوف سے شائع/نشر کر رہا ہے۔ جس سے کچھ بن نہیں پا رہا وہ 'سازشی تھیوری' کی نوک پلک سنوار کر خبر کی صورت مارکیٹ کرنے کی جستجو میں ہے۔ جس سے جو بن پا رہا ہے وہ کرنے پر تلا ہے۔
آخر خبر چاہیے لوگوں کو، وہ جاننا چاہتے ہیں کہ اسامہ کیسے پانچ سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ پاکستانی حکام کی ناک نیچے محفوظ رہا۔ اس رات کون آیا، کیوں آیا کیسے آیا، کتنوں کو مارا، کتنوں کو ساتھ لے گیا اور کتنوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ پیچھے رہ جانے والے کیا بتا رہے ہیں حملے کے وقت کیا ہوا؟ دنیا کے انتہائی مطلوب شخص کے آخری لمحات کی داستان کوئی چھوٹی خبر نہیں یقینا اس میں ہر کسی کی دلچسپی فطری ہے۔
ایسے سوالات کا جواب حاصل کرنے کا نادر موقع گزشتہ دنوں ہاتھ آیا لیکن افسوس نکل گیا۔ غلطی شاید میری نہیں کسی اور کی تھی۔ غلطی شاید اس بریفنگ کے منتظمین کی تھی جنہوں نے مجھے اس بھیڑ کا حصہ سمجھا جو اس قوم کے مسائل کے حل کی کوشش، سیاستدانوں کے کپڑے اتارنے اور اپنی عقل کُل کا مظاہرہ ہر رات ٹی وی چینلوں پر گھنٹے گھنٹے کے بحث مباحثے منعقد کر کے کرتے ہیں۔ تقریبا اڑھائی گھنٹے کی اس بریفنگ کے دوران اس مجمع کو ان سوالات کے جواب نہیں بلکہ یہ معلوم کرنا تھا کہ غلطی کس کی تھی۔ وہ ایسے سادہ سوالات ذہن میں لے کر آئے تھے جو شاید دیگر ممالک میں تو ہوتا ہو پاکستان میں اس کی روایت نہیں ہے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ کون مستعفی ہوگا اور امریکہ کے خلاف قومی اتفاق رائے فوج کیسے حاصل کر پائے گی۔ ایک ایسا کام جو فوج کا سرے سے ہے ہی نہیں۔ ایسے سوال جوکہ شاید سیاسی حکومت سے پوچھے جانے چاہیں نہ کہ فوج سے۔ ان سوالات کے جواب فوجی اہلکاروں نے اپنی ابتدائی تقریر میں کافی تفصیل سے دے دیئے تھے۔ اپنی کمزوریاں انہوں نے کھلے دل سے تسلیم کر لی تھیں۔ لیکن جسے سوال کا موقع دیا جاتا وہ تقریر شروع کر دیتا۔ وہ سب پاکستان فوج جیسے 'سمجھدار' ادارے کو سمجھانے یا پھر اپنے دل کا درد ہلکا کرنے آئے تھے۔ وہ صحافت کی موڈ میں شاید نہیں تھے۔
میرے جیسے ایک دو صحافی اپنے سوالات اپنی خالی نوٹ بک میں واپس لے آئے۔
تبصرےتبصرہ کریں
‘کچھ اور بھی دے گیا لُطف
انداز تمہاری گفتگو کا‘
محترم ہارون رشید صاحب، آپ نے پاکستانی صحافی کی مجموعی، بنیادی اور روزمرہ کی نفسیات کو ایک پیراگراف میں خوبصورت اندازِ تحریر میں خوب سمویا ہے۔ ان صحافیوں کا بڑبولا پن اور اختصاریت کی بجائے تقریرانہ و مبلغانہ و عالمانہ و فاضلانہ رویہ و عادات دراصل نام نہاد “آزادیء صحافت“ کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے صحافیوں کی “بریگیڈ“ میں ‘اور کانفیڈینس' پیدا ہو گیا ہے اور اس حالت میں بندہ سُننے، جاننے، معلومات لینے نہیں آتا بلکہ سنانے، مشورے دینے اور اپنی دانشوری دکھانے آتا ہے۔
قصور آپ کا نہیں بلکہ ہماری صحافی برادری کا ہے جو کہ بطور صحافی سوال نہیں اٹھاتے بلکہ اپنے آپ کو ملک کا صدر سمجھتے ہوے نصیحت آموز سوال کرتے ہیں۔ صحافی ایسا سوال کرنا چاہتا ہے جس سے کہ اس کے ہاتھ ایسی بات لگے جس کا سہرا صرف اسی کے سر بندھے اور باقی برادری و منتظمین ان کے سوال کے رعب میں آ جائیں۔
مستقبل میں اب خیال رکھیئے گا کہ آپ کو ہمیشہ باقی بھیڑوں کے ریوڑ کے طور پر ہی درجہ دیا جائے گا، اور آپ کے سوال پر باقی صحافی شاید ہنسیں کہ یہ کیا بچگانہ سوال کیا ہے، اس کی کیا ضرورت تھی یہ تو بچہ بچہ جانتا ہے۔
ہارون رشيد صاحب!درست لکھا آپ نے اس لا حاصل بريفينگ ميں اگر آپ کی نوٹ بک خالی رہی ہے تو آپ کے قارئين و سامعين بھی ’اصلی تے وڈی’ خبر کے بغير محو حيرت ہيں کہ يہ کيا ماجرا ہوگيا۔ سوالات کا ناختم ہونے والا سلسلہ ہے اور جواب ندارد۔ کب کيا اور کيسے کو چھوڑ کر کيا ذمہ داران کا تعين ہوگا؟ کيا کوئی قومی سلامتی و غيرت و حميت کے نام پر مستعفی ہوگا؟
يہ درست ہے کہ کسی ملک کو دوسرے ملک ميں جا کر اس طرح کی کارروائی کرنے کا کوئی حق نہيں۔ ليکن دہشت گردوں کو پناہ دينا، ان کے تربیتی کيمپ بننے دينا اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ نہ کرنے کا مطلب يہی ہے کہ يا تو آپ دہشت گردوں سے خوفزدہ ہيں يا ان سے ملے ہوئے ہيں۔ دونوں صورتوں ميں، يہ دہشت گرد جن مالک ميں جا کر کارروائياں کرتے ہيں، ان کا حق ہی نہيں، بلکہ فرض ہے کہ وہ انھيں سرحدوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تباہ و برباد کرديں۔ پاکستاني، امريکی کارروائی پر ماتم کرنے کے علاوہ ان دہشت گردوں کو بھی سمجھائيں، کہ بھائی ہميں معاف کرو۔ مہمان تو تم تھے طالبان کے، ليکن رہ رہے ہو ہمارے گھر ميں۔ پاکستانيوں کو اب آخری فيصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے باقی دنيا کے ساتھ چلنا ہے يا ان دہشت گردوں کو گلے لگائے رکھنا ہے۔
ارے بھائی صحافی آسمان سے تو نہیں آئے۔ وہ بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں۔ چند جاہل حکمران بھیڑ بکریوں کے ریوڑ پر حکومت کر رہے ہیں۔
ہمارے ہاں ہر کوئی وہی کام کرتا ہے جو اس کا نہیں ہوتا۔ ایک صحافی کا نام لیکر باقیوں کو بری الزمہ تو مت کریں۔ فوج اور آئی ایس آئی دفاع کے علاوہ ہر کام کرتی ہے۔ مثال کے طور پر سیاست میں جوڑ توڑ، اپنے لوگوں کو اٹھا کر غیب کرنا، منتخب لیکن 'نااہل' حکومتوں کا تختہ الٹنا۔ سیاستدانوں کو دیکھ لیں، سیاست کے علاوہ ہر کام کرنا۔ ملاؤں اور مذہبی جماعتوں کو دیکھ لیں، دہشت گردی پھیلانا، اسامہ کو ہیرو بنا کر پیش کرنا۔ پولیس کو دیکھ لیں، چوروں اور ڈاکوں کے ساتھ مل کر معصوم شہریوں کو لوٹنا۔ اس ملک کے لوگوں کو دیکھ لیں، انتخابات کے وقت نااہل لوگوں کو ووٹ دینا، ووٹ بیچنا اور پھر بعد میں اپنے ہی منتخب رہنماؤں کو برا بھلا کہنا۔ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
دراصل منتظمين بھی تصوير کا وہ رخ دکھانے پر بضد ہوتے ہيں جس کاقصد لے کر وہ آتے ہيں۔ ليکن کچھ لوگ تمام تفصيلات ايک ہی نشست ميں حاصل کرنے پر بضد ہوتے ہيں جس سے تضاد اور بدمزگی پیدا ہوتی ہے۔ ہر شخص کا ذہنی معيار اس کے اپنی سوچ کے مطابق ہوتا ہے۔ وہ عوام کی تشنہ سوچ کا ترجمان ہوتا ہے جن کے جوابات دينے کو منتظمين شايد ضروری نہيں سمجھتے يا انہيں اس کی اجازت نہيں ہوتي۔ عوام اصل حقائق جاننا چاہتے ہيں جس پر مصالحت کا دبيز پردہ پڑا ہوتا ہے۔ اس موقع پر ايسی صورت حال پيدا ہوتی ہے۔ جہاں تک مصدقہ رپورٹ کا تعلق ہے وہ تو خود رپورٹ جاری کرنے والے بھی کتنی تضاد بيانی پر کمربستہ ہيں شايد ان کو اسے ثابت کرنا بھی مشکل ہے۔
ارے بھائی صحافی آسمان سے تو نہیں آئے۔ وہ بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں۔ چند جاہل حکمران بھیڑ بکریوں کے ریوڑ پر حکومت کر رہے ہیں۔
کچھ دنوں تک جب افواج پاکستان اسامہ کی بیواؤں کو ميڈيا کے سامنے لائيں گے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ سب سوالوں کے جواب مل جائيں گے۔ جو يقين نہيں کرتے ان کو بھی يقين کرنا پڑے گا۔ پروپيگنڈا پسند ميڈيا پرانی خبروں کو ويسے ہی فراموش کرديتا ہے کہ تاريخ کی باتيں ہوگئيں۔ ليکن ياد رکھيں امريکہ يا ان کے اتحادی کچا کام نہيں کرتے جبکہ ہماری بے اعتباری کی وجہ يہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے بےشتر کام دھوکا دہی سے ہی چلتے ہيں۔
میں محمد احمد خان کی بات سے متفق ہوں کہ جس مقصد کے لیے پاکستان بنا تھا وہ وہیں کا وہیں رہ گیا ہے۔ آپ سیاستدانوں کی بات کرتے ہیں یہاں عوام کو نہیں معلوم کہ کیا کرنا ہے۔ اٹھارہ سو ستاون سے ہم نعروں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ جس کا نعرہ پسند آگیا اس کے پیچھے بھاگ پڑے۔ ہارون صاحب یہ آپ کا المیہ نہیں ہے بلکہ ہر پڑھے لکھے انسان کا المیہ ہے۔
ماشااللہ
سامہ بن لادن امریکی سی آئی اے کا ایجنٹ تھا اور اس کے قتل سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف امریکہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اسامہ جہاں کہیں بھی تھا وہ امریکی سی آئی اے کے حصار میں تھا اورامریکہ بن لادن کی زندگی اور موت دونوں سے اسلام و مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کررہا ہے۔ اگر اسلامی ممالک میں عوامی تحریک شروع نہ ہوتی تو امریکہ اسامہ کو ابھی ہلاک نہ کرتا۔ اسامہ کی زندگی اور موت امریکی ڈرامہ ہے اور اسلامی ممالک میں دہشت گرد کارروائیوں میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے اہلکار ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسامہ کی ہلاکت میں ابھی کئی سوالات اور شبہات باقی ہیں اور جس طرح امریکہ 11 ستمبر کے واقعہ کی اصل حقیقت بیان کرنے سے گریز کررہا ہے اسی طرح وہ اس موت کے شواہد فراہم کرنے سے بھی گریزاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ڈرامہ صرف اسلامی ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے کیا گیا تھا۔ 11 ستمبر کے واقعہ میں مسلمان نہیں بلکہ یہودی اور سعودی ملوث ہیں جن کے بارے میں امریکہ غیر جانبدارانہ تحقیق کرانے سے گریزاں ہے۔
جرنيلوں کی مہربانيوں نے اس ملک کا بيڑا غرق کرکے رکھ ديا ہے۔ پس پردہ اصل اداکار ہوتے ہوۓ يہ ملبہ سياست دانوں پر ڈال کر بچ نکلتے رہے ہيں۔ بقول نجم سيٹھي اس رات بھی جنرل کيانی تنہا تمام فيصلے کۓ چلے گۓ۔ صدر کو صبح سات بجے بتايا ہے۔ وزيراعظم کا ذکر ہی نہيں۔ استعفے صدر اور وزيراعظم کے مانگے جا رہے ہيں۔ آرمی اور آئی ايس آئی چيف کا ذکر تک نہيں آ رہا ہے۔ ليکن اب کہ يہ بہت برے پھنسے ہيں۔ ہميں تو ٹرخا ليں گے۔ دنيا سے جان چھڑانا مشکل نظر آتا ہے۔
اسامہ کی ہلاکت، کارروائی اور امریکی بیانات میں تضاد تو شروع سے ہی دیکھنے میں آ رہا تھا لیکن اب پینٹاگون کی طرف سے جاری کی گئی اسامہ ویڈیوز کو سرسری دیکھنے سے ایبٹ آباد آپریشن کے دو نمبر ہونے پر یقین سا ہوتا جا رہا ہے۔ ویڈیو میں نہ آواز ہے، نہ ہی مبینہ اسامہ کا چہرہ دکھایا گیا ہے اور سب سے بڑھ کر جب نائن الیون کی خبر ٹی وی پر آتی ہے تو کیمرہ تیزی سے ٹی وی سکرین کے قریب ترین چلا جاتا ہے جو کہ بہت ہی ‘معنی خیز‘ ہے۔ نیز اسامہ کا ایبٹ آباد میں واقع مبینہ کمپاؤنڈ باہر سے اتنا خوبصورت، مہنگا، اور پختہ جبکہ اندر سے خالی، بے ڈھنگا، اور بے ترتیب۔یہ سارے مشاہدات و احساسات بتاتے ہیں کہ صرف دال ہی میں کالا نہیں ہے بلکہ ہانڈی میں موجود ساری کی ساری دال ہی کالی ہے۔
اسامہ کي ہلاکت کے روز بی بی سی ورلڈ سروس پر يک سابق سی آئی اے افسر سے پوچھا گيا کہ اس کام ميں دس سال کيوں لگے؟ وہ بولا، ”اس کا جواب نائن اليون انکوائری کميشن کي رپورٹ ميں پڑھ ليجيۓ۔ ہم دو بار اس شخص تک پہنچ چکے تھے۔ ايک بار بل کلنٹن اور دوسری مرتبہ جارج بش کے دور ميں ليکن کارروائی کي اجازت نہ ملي۔ ہميں روک ديا گيا۔” خدا جانے کيا کھيل کھيل رہے ہيں يہ لوگ۔ اُسے زندہ پکڑ کر عدالت ميں لاتے۔ اس کی بھی سننے ديتے کہ وہ کيا کہتا ہے۔ اگر يہ سچے ہيں تو انہيں کس بات کا ڈر تھا۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جاتا۔ کيا يہ سوالات اٹھنا بند ہو جائيں گے۔ چي گوارا کے قتل کي تفصيلات اور تاريخ ويتنام کی طرح خود ان کی آنے والی نسليں حقائق کھوليں گی اور سچ سامنے آجاۓ گا۔
جس طرح نیلامی کی کسی دکان میں دکاندارنے کرائے کے کچھ جھوٹے خریدار بٹھا رکھے ہوتے ہیں جو کسی گاہک کی بولی لگانے پر زیادہ سے زیادہ بولی لگا کر مال کی قیمت بڑھا دیتے، اور بیچارہ گاہک مجبورًا وہ مال مہنگے داموں خرید لیتا ہے۔ اس نجیب صاحب کا بھی کچھ ایسا ہی کردار معلوم ہوتا ہے۔ شاید بی بی سی نے ان کو اس فورم اسی لیے بٹھا رکھا ہے۔
ایبٹ آباد آپریشن ایک نمبر تھا یا دو نمبرِ؟ ریڈار جام ہوئے تھے یا نہیں؟ حکومت اور خفیہ اداروں کو کارروائی کی پیشگی اطلاع تھی یا نہیں؟ اسامہ اس آپریشن میں ہلاک ہوئے ہیں یا وہ پہلے ہی سے بیماری کی وجہ سے انتقال فرما چکے تھے جیسا کہ ایران کا دعویٰ ہے؟ اسامہ ہلاک ہوئے بھی ہیں یا ان کو گرفتار کیا گیا ہے؟ فوری طور پر اسامہ کو تہہ آب دفنانے کا کیا ٹھوس جواز و وجوہات تھیں؟ ہیلی کاپٹر تتکنیکی خرابی کی وجہ سے گِرا یا ڈرامہ میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے جان بوجھ کر گرایا گیا؟ پاکستان نے اسامہ کو پناہ دی تھی یا پاکستانی حکومت اور خفیہ ادارے اسامہ کی موجودگی سے لاعلم تھے؟ بن لادن نے خود ایبٹ آباد میں ملٹری اکیڈیمی کے علاقے کا انتخاب کیا یا “کوئی“ انہیں خود یہاں چھوڑ گیا تاکہ پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی فوج کو بھی دھرا جا سکے؟ بن لادن کی ویڈیو ایک نمبر تھی یا اسے ایڈٹ کر کے ایک نمبر بنانے کی سر توڑ کوشش کی گئی؟ ویڈیو میں اسامہ بولنے کی بجائے صرف ہونٹ ہلا رہے ہیں یا آواز بند کی گئی ہے؟ اگر آواز بند کی گئی ہے تو کیوں؟ ایبٹ آباد کے تناظر میں وزیراعظم کا خطاب قوم کی آواز کی ترجمانی کرتا ہے یا نہیں؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کے جوابات کے حصول کے لیے بچہ، بوڑھا، ملکی، غیرملکی، مہاجر، حکومتی و غیر حکومتی اہلکار، کالم نگار، صحافی، اینکر پرسن اور رپورٹر حضرات بے چین مارے مارے پھر رہے ہیں لیکن جواب ندارد۔ بہرحال، امریکہ چونکہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا باضابطہ اعلان کر چکا ہے لہذا اب یہ سوالات بے وزن اور اہمیت سے خالی ہو چکے ہیں لہذا ان سوالات کو ماضی کا قصہ بنا دینا کھجل خراب ہونے سے بدرجہا بہتر ہے۔ اصل غور و فکر کے قابل صورتحال یہ ہے کہ بھارتی فوج کی پاکستانی سرحد کے قریب جنگی مشقیں کیا معنی رکھتی ہیں اور ان مشقوں کے ساتھ ہی منموہن سنگھ کی طرف سے امریکی صدر اوبامہ کو فون کال کس جانب اشارہ دیتی ہے؟ لہذا حالات کی نزاکت و حساسیت کو سمجھتے ہوئے اس جانب توجہ کرنا ضروری ہے اور فوری ردعمل دینے کے لیے حکومت اور عوام کو تیار رہنا چاہیے۔
آخر میں محترم یاسر صاحب سے گذارش ہے کہ ازرائے مہربانی بلاگ کے عنوان اور نفسِ مضمون کو مدِ نظر رکھ کر اپنی رائے کا اظہار کیا کریں اور اِدھر اُدھر کی لائیاں بجھائیاں کہیں اور کیا کریں۔
اس فورم کا نہيں پورے پاکستان کا مسئلہ ہے کہ کچھ لوگوں کی جنرل نالج ميں تو اضافہ ہوتا ہے مگر وہ اس نالج کو تاش کے پتوں کی طرح گيم کھيلتے ہيں اور حقيقت کو جھٹلانے کا فن استعمال کرکے محظوظ ہوتے ہيں۔ اگر کسی بات پہ ٹھہر گئے تو بعد ميں آنے والا وقت بے شک اس کو غلط ثابت کردے مگر وہ کسی نہ کسی طرح دو جمع دو پانچ بنا ديتے ہيں۔اب اسامہ کا واقعہ حقيقت ميں درست ہے مگر يہ لوگ اب بے شک نہ مانيں مگر کل جب پتہ چلے گا کہ کسی گھر کا بھيدی نے (اسامہ کی بيوی بھی ہوسکتی ہے) يہ لنکا ڈھائی ہے تو ان کو دال ميں کالا لگنا بند ہو جائے گا اور کہيں گے يہ تو کالی مرچ تھي۔
کچھ دنوں تک جب اسامہ کی بيوياں بول ديں گي کہ سب کچھ ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا تو يقين کرنے کی لذت سے محروم لوگ کو تسليم کرنا پڑے گا کہ جو کچھ ہوا سچ تھا اور پاکستانی اينکرز بھي کھسيانی باتيں کريں گے جو کہ آج کل اپنے چينلز کو منافع ميں لے جا رہے ہيں۔ ان کو افواجِ پاکستان کا شکر گزار ہونا چاہيے جنہوں نے اسامہ کی بیواؤں کو فوراً ميڈيا کے سامنے نہیں لایا تاکہ لوگوں کو يقين کراتے کراتے ميڈيا کی بھی چاندی ہوجائے۔ مذہبی تنگ نظری ہر مذہب ميں موجود ہے مگر باوجود اس کے کہ ميں مسلمان ہوں ليکن سمجھتا ہوں کہ صرف عيسائيت ايک ايسا مذہب ہے کے جو کہ انسان چاہے کسی بھی نظريہ يا مذہب کا پيروکار ہو، ساتھ امتيازی سلوک نہيں کرتا اور حقوق انسانی کی پاسداری ميں نمبر ايک ہے۔ يہ ہی وجہ ہے کہ ان کی تعداد بھی سب سے زيادہ ہے۔ انسان کی زندگی ميں قدرت کی طرف سے بہترين تحفہ امن ہے جو کہ اس وقت عیسائی ممالک ميں سب سے زيادہ ہے۔ میں عیسائیت سے بہت متاثر ہوا ہوں اور کچھ فیصلہ کرنے کے قریب ہوں۔
تمام معلومات اور گیارہ ستمبر کی جھوٹی داستان کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکان سی آئی اے کے زیر استعمال تھا اور یہاں یمنی باشندے مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے رکھے گئے تھے۔ حکومت پاکستان سی آئی اے کی کسی عمارت کو چیک نہیں کرتی ہے۔ مشرف کا معاہدہ بھی سچا لگتا ہے۔
ہم پاکستانی صدر کی سیاسی سرگرمیوں اور نواز شریف کے بیانات میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس سے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی بہت سی معلومات دینا بھی نہیں چاہتیں۔