اُف! تمہارے یہ اصول
انتخابی نتائج نے ہندوستان کا سیاسی منظرنامہ کچھ ایسا تبدیل کیا ہے کہ جو لوگ الیکشن سے پہلے کانگریس کے خون کے پیاسے تھے، اب بغیر مانگے ہی اسے بلاشرط حمایت دینے کے لیے پریشان گھوم رہے ہیں۔
اتر پردیش میں بہوجن سماج پارٹی اور سماجوادی پارٹی کے درمیان ریس اس بات کی تھی کہ حمایت کا خط صدر جمہوریہ تک پہلے کون پہنچائے۔ ادھر لالو پرساد یادو کہہ رہے ہیں کہ کانگریسی رہنما ان کی توہین کر رہے ہیں لیکن وہ پھر بھی یو پی اے کا ساتھ دیں گے۔
اور یہ سب سیکولر قوتوں کومضبوط کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔
اُف! تمہارے یہ اصول، یہ آدرش! فرقہ پرست طاقتوں سے یہ نفرت، اور کانگریس سے بے لوث محبت!
دل چاہتا ہے کہ صدر جمہوریہ کو حمایت کا ایک خط میں بھی دے آؤں۔ پھر خیال آتا ہے کہ میرے خلاف تو سی بی آئی بدعنوانی کے کسی معاملے کی تفتیش نہیں کر رہی، تو پھر ضرورت کیا ہے؟
تبصرےتبصرہ کریں
دراصل ان سياسی پارٹيوں کے رہنماؤں نے اپنا اميج اس طرح کا بناليا ہے کہ ان کے اچھے قدم کو بھی شک سے دیکھا جاتا ہے اور اس کا سہرا اليکٹرانک میڈيا کے سر بندھتا ہے۔ ويسے اس حقيقت سے انکار نہيں کيا جاسکتا کہ ان تينوں پارٹيوں (بی ايس پی) (ايس پی ) اور (آر جے ڈي) کے ليڈروں کو اس بات کا احساس ہوگيا ہے کہ ان کے گڑھ ميں مسلمان رائے دہنگان نے اہم رول ادا کيا ہے جوکہ ان کی شکست کا سبب بنا ہے۔ اور مستقبل ميں وہ خود کو فرقہ پرستوں کے خلاف بتا کر انہيں خوش کرنا چاہتے ہيں۔ ديکھیں اس مقصد ميں انہيں کتنی کاميابی حاصل ہوتی ہے۔
سہيل صاحب، ہمارے ہاں مثل مشہور ہے کہ سياستدان وقت پڑنے پر گدھے کو بھی باپ بنا ليتا ہے۔
سہيل صاحب! اسی کو تو کہتے ہيں چڑھتے ہوئے سورج کی پوجا!!
جاوید جمال الدین صاحب، ويسے اس حقيقت سے بھی انکار نہيں کيا جاسکتا کہ تمام سیاسی پارٹیوں کے ليڈروں کو اس بات کا خوب احساس ہے کہ ان کے گڑھ ميں مسلمان رائے دہندگان بلا سوچے سمجھے کسی کو بھی جتانے یا ہرانے کا اہم رول ادا کرتے ہیں۔ 1947 سے مسلمان بنا سیاسی فائدہ اٹھائے اپنے اس اہم رول پر نہ صرف مطمئن ہیں بلکہ یہ رول ان کے لیے باعث فخر ہے۔
آپ کے خیال میں ہندوستان میں اقلیتوں کو ان کے حقوق مل پائیں گے؟ مجھے تو نہیں لگتا، کیوں کہ ان کے کھانے کے دانت اور ہیں اور دکھانے کے اور۔