'سترہ کروڑ گواچے لوگ'
ہیومن رائٹس واچ نے صوبہ سرحد کی سوات وادی سمیت دیگر علاقوں میں طالبان اور فوج کی جنگ میں کچلے جانے والے لاکھوں لوگوں کی دربدر ہونے کو پاکستان کی تاریخ میں سنہ سینتالیس میں لوگوں کی دربدری کے بعد سنگین ترین انسانی صورتحال قرار دیا ہے۔
نیویارک میں دنیا کی مشہور ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کی چونتیسویں منزل پر واقع ہیومن رائٹس واچ کو بارہ ہزار میل دور پاکستان میں بارہ لاکھ لوگوں کی اپنے وطن میں بے وطن بے خانماں بربادی نظر آگئی لیکن نیویارک شہر میں ہڈسن ندی کی لہروں پر 'اسکائی لائین' کروزنگ جہاز کے عرشے پر جام لنڈھاتے پاکستان کے وزیروں اور لمبی لمبی لیموزین میں چڑہ کر عوامی لیکن خانگی سیاسی فنکشنوں میں آنے والے پاکستانی حکمرانوں کو نظر کیوں نہیں آئی۔
اس لیے تو راجہ بازار راولپنڈی میں بھیک مانگتے ہوئے ایک نابینہ شخص نے کہا تھا 'اکھاں والیوں تسی بڑے۔۔۔۔۔۔'
صدر آصف زرداری اپنے امریکی دورے کی بے وقتی راگنیاں چھیڑ کر لندن پدھارگئے۔ جب وہ اقوام متحدہ میں سیکرٹری جنرل بانکی مون سے ملنے آئے تو ان کے ایک طرف قمر زمان کائرہ تھے تو دوسری طرف سلمان فاروقی۔
صدر آصف زرداری کا دورہ امریکہ اس قدر کامیاب رہا کہ اس پر ریپبلیکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کے دو سینٹروں نے جل کر کہہ دیا کہ ان کو امریکہ کی پاکستان کو بھاری امداد میں جلدی کرنے پر تشویش ہے کیونکہ پاکستان میں کچھ لیڈر ایسے بھی اعلیٰ منصب نشیں ہیں جن کو 'مسٹر ٹین پرسینٹ' کہا جاتا رہا ہے۔ سینیٹ کی خارجہ کمیٹی میں ان دو سینٹروں نے اتنا بھی کہا کہ 'ہم نہیں چاہتے کہ پاکستان کو دی جانے والی امداد کا بڑا حصہ سوئٹزر لینڈ کے اکاؤنٹوں میں جاکر جمع ہو جائے'۔ اپنی مزدوری سے امریکہ میں ایک ٹیکس بھرنے والے کی حیثیت سے مجھے بھی اس پر تشویش ضرور ہے۔
یہ جو صدر زرداری کے وفد میں پانچ لاکھ ڈالر کا خرچہ ہوا ہے کون ادا کرے گا؟ میں نے ایک پاکستانی عملدار سے پوچھا 'پاکستانی ٹیکس دہندگان اور کون؟'
سترہ کروڑ لوگوں پر کتنے مسٹر ٹین پرسنیٹ ہیں؟ بارہ لاکھ لوگ دربدر بے گھر اور متاثر ہوئے ہیں۔ مجھے لگتا ہے لوگ سینتالیس سے ہی دربدر ہو رہے ہیں۔
'ست گواچـے لوک' فخر زمان کا ناول یاد ہے؟
ایک مس فٹ قسم کے پاکستانی سفارتکار کو میرے دوست نے کہا
'ہاں یار، اب تو لگتا ہے سترہ کروڑ گواچے لوگ ہیں'۔
تبصرےتبصرہ کریں
ڈیئر حسن مجتبیٰ صاحب، مان لیا کہ سیاست میں مسٹر ٹین پرسنٹ ہیں، ذرا اپنے بی بی سی کے اندر بھی تو دیکھیں کہ اس میں کتنے ’ٹین پرسنٹ‘ صحافی ہیں جو ‘مسٹر ٹین پرسنٹ‘ بننے کے لیے سرحد میں طالبانوں کی حکومت کو بطور خاص ’نقشوں‘ میں پیش کر کے ’ڈالر‘ کما رہے ہیں۔ آپ ہی اپنی اداؤں پہ غور کرو بی بی سی، ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔
آئنہ انکو(سائکو) جو دکھايا تو برا مان گئے
اس بدنصيب ملک ميں سال ہا سال سے نفرتوں کے جو پودے بوئے جا رہے ہيں، اب وہ تناور درخت بن چکے ہيں- پھر ظلم يہ ہے کہ سب اسلام کے نام پر کيا جا رہا ہے۔
حسن بھائي! ان سب عياشيوں بلکہ رنگ رليوں پر محصولات ادا کرنے والے ہی جلتے کڑھتے ہيں۔ يہ شروع سے ہماری بد نصيبی اور حکمرانوں کا چال چلن رہا ہے مگر ان کو پوچھے کون؟ چند ايک سر پھرے و دل جلے محب وطن لوگ اور صحافی جن پر لفافے لينے کا الزام لگايا جاتا ہے۔ ٹيکس دينے والے کيوں نہ کوسنے ديں؟ بے بسی ہے کہ ہم کريں بھی کيا؟ حالت يہ ہے کہ تنخواہ دار طبقے سے تو نچوڑ کر ٹيکس ليا جا رہا ہے جبکہ حکومتی سرپرستی ميں سرمايہ کاری کرنے والے ايک ٹکا بھی ٹيکس کی مد ميں ادا نہيں کرتے مثلاً اسٹاک بروکرز۔ اس ليے عوام اپنے غم وغصے کا اظہار تو کرتے ہیں مگر اس کے ليے کسی مناسب وقت کی تاک میں رہتے ہوئے انتظار کرتے ہیں۔ ہمارے صدر اندرون ملک ہو يا بيرون ملک دورے پر ہم ٹيکس دہہندگان کو مہنگے ہی پڑتے ہیں۔ سوال يہ ہے کہ اب جب کہ ملک جل رہا ہے تو صدر صاحب ملکی دورے پر کب آئيں گے؟
محترم جناب حسن مجتبی صاحب ان دو سينيٹرزکو پاکستان کی امداد پر تشويش ہے اور آپ کو بھی اپنے ٹيکس کی مد کے پيسوں کا خيال ہے تو محترم جناب آپ کو اور آپ کے سينٹرز کو عراق اور افغان لاحاصل جنگ ميں جو کروڑوں کھربوں ڈالرز کا ضياع ہو رہا ہے وہ نظر نہيں آتا؟
نجيب صاب آپ کو بلوچستان دکھائی نہيں دیتا۔۔۔
ڈیئر حسن مجتبیٰ صاحب، آپکی تمام تر باتیں حقیقت پر مبنی ہیں۔
حضور ہم تو کب سے کہہ رہے ہیں، جناب آپ ہمیں کوئی فرشتہ دکھا دیں ہم پی پی پی کو ووٹ دینا بند کر دیں گے۔ ورنہ اسے ایک طرح کا جبر سمجھ لیں۔۔۔
افسوس يہ لاکھوں انسانوں کا سمندر آج حکومت اور طالبان کے ہاتھوں تہی دامن ہو چکا ہيں۔ ان کا قصور فقط يہ کہ ہمارے حکمران گونگے بہرے اور اندھے ہو چکے ہيں جنہيں عوام کے مسائل دکھائے نہيں دکھتے۔ ان کے نقصان کا ازالہ کون کرے گا؟ حکومت يا آنے والا وقت؟؟
ٹين پرسینٹ والی بات پرانی ہے۔ اب تو مہنگائی بڑھ گئی ہے۔
طالبان، امداد، ٹین پرسنٹ، ایٹمی ہتھیار، غریب عوام، دہشت گردی، جنگ، امن۔۔۔۔
سب بکواس
یہ جنگ ہے ’haves and have nots‘
کی۔۔۔ جو ازل سے چل رہی ہے اور ابد تک چلے گی۔۔۔
کِتنے ہی سخت مقام آئے مگر جانِ فراز
نہ تِرا درد ہی ٹھہرا، نہ مرا دِل ہی ٹھہرا