’وہ صدائیں پیچھا کرتی ہیں‘
’آدمی جو کہتا ہے آدمی جو سنتا ہے
زندگي بھر وہ صدائیں پیچھا کرتی ہیں‘
کشور کمار کا گایا ہوا یہ گیت پتہ نہیں کیوں اس وقت میرے کانوں میں یاد کی صورت میں پلٹ آیا جب میں نیو یارک میں اپنے محلے کی لائبریری کے بین الاقوامی زبانوں کے فلور پر چینی اور ہسپانوی کتابوں اور وڈیو آڈیو کے مواد کے انباروں میں سے جگہ بناتے ہندی کتابوں اور وڈیوز کی ان چند ریکوں تک جا پہنچا جہاں اردو کی کتابیں، ویڈیو اور ڈی وی ڈی بھی پڑی تھیں۔ وہ کتابیں بھی جو میں اور آپ نے کئي دفعہ پڑھی ہونگی لیکن انہیں پھر پڑھنے کی خواہش کسی دیرینہ محبوب سے ملنے کے لیے ہمیشہ انسان کے اندر میں رہتی ہیں۔
ابو الکلام آزاد کی کتاب ’غبار خاطر‘ بھی پڑی تھی۔ غبار خاطر اردو نثر کی بائیبل کہیں۔ مولانا نے اس کا دیباچہ کراچی اور جودھپور کے درمیاں نیشنل ائير لائين میں سفر کے دوران فروری انیس سو چھیالیس میں لکھا تھا۔ کس نے جانا تھا اس سے ایک سال سے بھی کم عرصے میں جودھپور اور کراچی کیا ہوئے۔
’جودھپور تیرا وطن
سندھ تجھے کیسا لگا‘ میرے شاعر دوست حسن درس نے اپنی دادی کے لیے لکھا تھا۔
’چھین لے مجھ سے حافظہ میرا‘۔
یہ کیا! قرت العین حیدر کا ناول ’گردش رنگ چمن‘ بھی پڑا ہے۔ کاش وہ چاندنی بیگم کی طرح ایک ناول لکھتیں ’بینظیر بھٹو‘۔'
کل رات قرآن کے قاری بھی بینظیر بھٹو کے جلسے میں جو آیات تلاوت کر رہے تھے ان کا ترجمہ کچھ یوں بتاتے تھے: ’ڈیل یا نو ڈیل‘۔
میری بیوی کہتی ہیں یہ دنیا لینے دینے کا سالن ہے۔ میں اب مذاکرات کو مذاقرات لکھوں گا۔
’آدمی جو دیتا ہے آدمی جو لیتا ہے
وہ دعائیں زندگي بھر پیچھا کرتی ہيں۔۔‘
کشور کمار پھر آکر لائـریری کی سیڑھی پر کھڑے ملے، اور راہی معصوم رضا کا ہندی ناول ’آدھا گاؤں‘ جس میں لکھا تھا: ’غازی پور کے قلعے میں ایک اسکول ہے جہاں گنگا کی لہروں کی آواز تو آتی ہے لیکن تاریخ کے گنگنانے یا ٹھنڈی سانسیں لینے کی آوازیں نہیں آتیں۔‘ کیا!
تبصرےتبصرہ کریں
جناب حسن صاحب، آداب
يہ بازگشت کا صحرا ہے، چپ رہو ورنہ
وہ بار بار سنو گے جو ايک بار کہو
وہ آفتاب بہاراں، طلوع ہو جب تک
ہميں چراغِ شبستانِ انتظار کہو
کہاں نصيب ہوئی ہيں مسرتيں صہبا
سرِ بہار بھی ہم کو خزاں گذار کہو
دعا گو
سيد رضا
آپ کو غصہ زيادہ محترمہ بينظير بھٹو پر ہے يا تقسيم ہند پر؟ راز کی ايک بات تو بتائيں کہ آپ کو دنيا ميں کوئی چيز اچھی بھی لگتی ہے يا کوئی ايسی چيز جس سے آپ متفق ہوں؟ پليز ايک بلاگ اپنے آپ پر بھی لکھيں۔ آج تک آپ نے کبھی کسی ايسی جگہ، شخص يا نظریے کی تعريف بھی کی ہے جس کی باقی لوگ بھی کرتے ہوں؟ منفرد تو آپ ہيں ليکن کچھ زيادہ ہي۔
ويسے تو ہميشہ ہی اپنی کم علمی کا احساس رہتا ہے مگر آپ کی تحريريں پڑھنے کے بعد تو يہ اور بڑھ جاتا ہے۔ اب جب تک آپ کے حوالہ جات والے مضامين ، مسودے يا کتاب پڑھ نہ لی جائیں وہ مزا کيسے آ سکتا ہے جو آپ لوٹ چکتے ہيں۔ ہاں يہ اتفاق ہے کہ آپ کا بلاگ اور جنرل مشرف کے مجوزہ ميّڈيا کے ذريعے عوام سے مزاکرات شروع ہونے کی خبر بھی ہے۔ ميں کيسے مان جاؤں کہ يہ شعر اس مناسبت سے موزوں نہيں
آدمی جو کہتا ہے آدمی جو سنتا ہے
زندگی بھر وہ صدائیں پيچھا کرتی ہيں
ايمرجنسی نہ سہی يہ سہی
حسن صاحب
شاندار کالم لکھنے پر مبارک باد قبول کيجیے۔ آج ہی بی بی سی پر کلديپ ناير صاحب کي ياداشتيں پڑھتے ہوئے راھی معصوم رضا کا ناول آدھا گاؤں ياد آيا تھا جو مجھے لکھنؤ ميں رہنے والے ايک دوست نے تحفے ميں ديا تھا۔ بس بات آپ ہی کے ايک مصرع والی ہے کہ وہ کيا کيا چھوڑ آئے تھے بس اک سپنے کی خاطر۔ ميرے خيال ميں بر صغير کی تقسيم ايک ايسا ناسور ہے جس سے ابھی مزيد عرصہ پيپ ٹپکے گا ليکن ايک خوش آئند بات يہ ہے کہ لوگوں نے اب ہوش کے ناخنوں سے اسے ديکھنا شروع کيا ہے۔
حسن صاحب پہلی دفعہ آپ کا بلاگ پڑھ کر احساس ہُوا ہے کہ آپ کے اندر وہ چھوٹا سا بچہ ابھی تک کسمسا رہا ہے جسے پُرانے کھلونے اپیل کرتے ہيں اور پُرانی باتيں اتنی کہ ارد گرد کا ہوش نہيں رہتا يعنی انسان کتنے بھی غلافوں ميں خُود کو چُھپا لے اندر کا بچہ ظاہر ہو کر رہتا ہے۔ بہت سی پياری بُھولی بسری باتوں کی ياد دلانے کے لیے شُکريہ۔ بچوں کی دُنيا، پُھول، تعليم و تربيت کے بعد زيبُ النساء اور نسيم حجازي، قُرۃُ العين حيدر، رضيہ بٹ اور خديجہ مستُور وغيرہ کے ناول جو يقينی امّی سے چوری پڑھے جاتے تھے آج بھی يہ ناول کہيں دکھتے ہيں تو پُرانی رکھی گُڑيوں کی طرح خريد لاتی ہُوں۔ ابُو کے ہاتھ کے لکھے ہُوئے قُرآن پاک پر لکھی تشريح بمع جُزدان کے اس دفعہ پاکستان جانے پر اُٹھا لائی تھي۔ کيا کچھ نہيں ياد دلايا آپ نے کہ آنکھوں پر اختيار رہا نا ہاتھوں پر۔ شُکريہ۔ اللہ خُوش رکھے۔
مجتبٰی صاحب ايک بار پھر آپ نے چاروں خانے چت کر ديئے۔ ميرا مطلب ہے لکھنے والوں کو۔ کتابوں کی باتيں اچھی لگتی ہيں۔ کمپيوٹر سيٹلائٹ چينلوں، آئی ٹی انقلاب، ان تمام کے باوجود کتاب ہی وہ واحد ذريعہ ہے جو انسان کو نہ صرف پختہ معلومات فراہم کرتا ہے بلکہ سکون بھی عطا کرتا ہے۔ آپ نے جن کتابوں کے نام لیے ہيں وہ ايسی کتابيں ہيں جن ميں دوران مطالعہ ڈوب تو جائے گا ساتھ ہی علم و اخلاق کا ايک خزانے کا بھی مالک بن جائے گا۔ ويسے آج کے دور کے حساب سے آپ کی اہليہ محترمہ کے ريمارک ايک تلخ حقيقت ہی کہلائیں گے۔ بہر حال ايک اور بلاگ کے کے لیے مبارکباد۔ ارے ہاں پاکستانی عوام کو يوم آزادی کی پر خلوص مبار کباد بھی پيش کرتا ہوں۔ دعاوں ميں ياد رکھيئےگا۔
آداب عرض! بڑی دانائی کی بات کہی آپ نے۔ يہ ايسی بات ہے جو انسان کی زندگی کا رخ بدل سکتی ہے۔ انسان جو کہے سنے اور کرے اسے کبھی بھولتا نہيں۔ گويا جو برا سنے يا کہے وہ برا کرتا ہے اور جو اچھا وہ اچھائی کرے گا۔ اب يہ دوسری بات ہے کہ لوگ برائی کو جسٹيفائی بھی کرتے ہيں۔ اس کا مطلب يہ ہوا کہ انہوں نے زندگی ميں صرف برائی ہی سنی ہے۔ بات يہ نکلی کہ ہميشہ نيک صحبت اختيار کرو تاکہ ہميشہ نيکی کرو اور مرتے وقت نيکی ہی ياد آئے۔ سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ جو لوگ مذہب کے نام پر انسانوں کو ہلاک کرتے ہيں ان کو کيا ياد آئے گا؟ ميرا خيال ہے کہ انسان کو اپنے من ميں ہميشہ دوسروں کے لیے پيار رکھنا چاہیے۔ ظاہر ہے انسان يہی کہے اور سنے گا۔
آپ کی علميت کا قائل ہوں، ہر مرتبہ نيا عنوان چننا اور ايسے لکھنا کہ تشنگی رہے کہ اگلا بلاگ کب پڑھنے کو ملے گا، آپ کی پوری ٹيم خاص تور پر آپ کا خاصہ ہے۔
قرات العين حيدر تو لکھتيں جو ان کے اپنے مشاہدے اور خيال ميں آتا۔ قاری صاحب تو ترجمہ ’ڈيل يا نو ڈيل‘ بتا رہے تھے۔ حاضرين کيا مطلب لے رہے تھے، بينظير کيا سمجھتی ہيں اور بيچارے عوام تک کيا پہنچتا ہے؟
بڑے خوش قسمت ہیں حسن صاحب، اک آپ ہیں کے نیویارک میں بھی آپ کو بھانت بھانت کی کتابین میسر ہیں۔ اپنے ہاں تو کتابیں پڑنے کا سلسہ ختم ہونے کے قریب ہے۔