پرندہ تھا اڑتا تھا
وہ ایک وکھرے ٹائیپ کا فائر مین تھا۔
تعصب اور نفرت کی اگ بجھانے والا میرا دوست اے جی چانڈیو مرگیا۔ ایک صحافی لیکن انقلابی۔
اے جی سندھی اسٹریٹ تھیٹر کا بانی تھا اور اس نے انڈس ویلی تھیٹر گروپ کے نام سے اپنی ایک ناٹک منڈلی قائم کی تھی۔ میرا دوست طارق عالم اسے سندھ کی مدیحہ گوہر کہتا لیکن میں اسے ’فائر مین‘ کہوں گا۔
مجھے اسکا یوں چلے جانا امرجلیل کے افسانے کیطرح لگتا ہے لیکن یہ حققیت ہے۔ کہتے ہیں زندگی وہ سچ ہے جسے موت جھوٹ ثابت کردیتا ہے۔
اے جی چانڈیو حیدرآباد پریس کلب میں ہی اس رات کی صبح سے ذرا پہلے مرگیا جس شام وہاں سندھی زبان کے بہت بڑے افسانہ نگار امرجلیل کو تاحیات رکن بنانے کی تقریب تھی۔
اے جی نے اس شام پریس کلب میں سندھی موسیقی پر جھومر اور رقص کیے، رات کو دوستوں سے ’تر مجالس‘ کرتے صبح پانچ بجے کے قریب وہ آخر شب کے چراغوں کیطرح بجھ گيا۔
اے جی کو بغیر درد کے دل کا دورہ پڑا اور اسکے سنگی ساتھی اسے ہسپتال لے جانے لگے لیکن پریس کلب کی سیڑھیوں پر اسکی سانس تھی کہ پردیسی پرندہ تھا، اڑتا تھا وطن کی جانب۔
وہ بیالیس سال کی عمر میں ایسے مرا جیسے خوبصورت جوان فنکار مرا کرتے ہیں۔ محبت اور جدائی کے اوور ڈوز سے۔
جب پورے شہر میں لسانی (سندھی، مہاجر) فسادات کی زبردست آگ لگی ہوئی تھی تو اے جی اس آگ کیخلاف جان جوکھوں میں ڈال کر حیدرآباد پریس کلب کے سامنے کھلے روڈ پر بھوک ہڑتالیں منظم کررہا تھا۔ اے جی اور اسکے دوست خواجہ اسلم، مومن خان، ایڈوکیٹ ظفر راجپوت، مصور حسین صمدانی، منیرسرور اور اسکی (اے جی کی) شاعرہ سابقہ بیوی ثمینہ راجپوت غزہ کی پٹی بنے ہوئے اس شہر میں نفرت اور تعصب کی آگ بجھانے والے فائرمین اور فائر ویمن تھے۔
پاکستان میں وکلاء کی حالیہ تحریک اے جی کا نیا رومانس تھا۔ کہاوت ہے ڈھول بجیں اور دوست محمد نہ ناچے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
چيف جسٹس افتخار محمد کی صرف ایک ’نہ‘ نے جہاں کتنوں ہی کے کب کے مرے ہوئے خوابوں کے گڑے مردے جگا دیئے ہیں ایسے موسم میں اس گُل کو نہیں جانا چاہیے تھا۔
ذاتی طور، اے دوست! تیرے بغیر کئی دنوں تک بہت کچھ فروزن اسکرین کیطرح لگتا رہے گا۔
تبصرےتبصرہ کریں
بھائی حسن مجتبٰيی! جيتے جی تو بہت سوں کی تعريف ہوتے اور کرتے ديکھي۔ جانے کيا ہو گيا ہے کہ اچھے بندے تيزی سے جاتے جا رہے ہيں۔ رات دن زير زمين لوگ چلے جاتے ہيں
نہيں معلوم تہہ ِ خاک تماشہ کيا ہے
شايد يہ لوگ انسانوں پر ہوتے ظلم نہيں ديکھ سکتے اور اپنی اصل منزل جہاں سے نکالے گئے تھے واپس جا رہے ہيں۔ شايد خدا کو انکا جہنم ميں مزيد قيام منظور نہيں طاہر مرزا اور اب اے جی چانڈيو خدا مغفرت کرے اور آپکو صبر دے۔
بس ايک موتی سی چھب دکھا کر بس ايک ميٹھی سی دھن سنا کر
ستارہ شام بن کے آيا برنگ خواب سحر گيا وہ
حسن صاحب اس طرح کے لوگوں کا پتا ہميں ان کے مرنے بعد ھی کيوں چلتا ھے؟ کيا ہمارے يہاں جيتے جی کسی کی تعريف کرنے کا رواج نہيں۔
حسن صاحب ہميشہ آپ کا بلاگ ايک الگ انداز لیے ہُوئے ہوتا ہے ليکن آج ايک دوست کی ناگہانی وفات کی خبر کا دُکھ لیے ہُوئے آپ کا يہ بلاگ زندگی کی اس سچائی کو ظاہر کرتا ہے کہ ہم موت کی سچی حقيقت کو جُھٹلا نہيں سکتے۔ اللہ تعاليٰ سے دُعا گو ہُوں کہ وہ آپ کو اور آپ کے دوست کے جُملہ لواحقين کو صبر جميل عطا کرے اور اُن کے درجات بُلند کرے، آمين۔
اسے مرنا ہی تھا اور مر گيا۔
اے جی کے سا تھ گذارے ہوئے چند دن مجھے آج بھی ياد ہيں! ايک بہت اچھا انسان دوست چل بسا جوانی ميں
میرا تعلق خیرپور میرس سندھ سے ہے مجھے اچھی طرح یاد ہے
کہ سندہ میں جب بھی کسی طرح کابحران آتا تھا تو اےجی چانڈیو صاحب ہر اول دستے کاکردار ادا کرتے تھے
محترم حسن مجتبی صاحب، آداب! آپ کی تحرير پڑھی جو کہ ڈائريکٹ دل کو لگی اور نہ جانے کيوں مجھے آپ سے ہمدردی محسوس ہوئي، شايد اسکی وجہ يہ کہ بعض دفعہ الفاظ بولتے بھی ہيں ليکن انکی آواز صرف وہی لوگ سُن سکتے ہيں جن کے اپنے دل نرم و گداز ہوں اور دلوں کو نرم و گداز بنانے کے لیے زندگی ميں کوئی نہ کوئی ٹريجڈی سے ملنا لازمی ہوتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ راقم السطور بھی کسی ناقابل توقع ٹريجڈی سے گزر چکا ہو يا گزر رہا ہو۔ يہی وجہ ہے کہ اس سے پہلے کہ يہی غم آپکی شخصيت ميں عود کرکے مسکراہٹ ميں کمی کرے، بندہ بصد خلوص کہنا چاہتا ہے کہ بقول کشور کمار:
زندگی اک سفر ہے سہانا
يہاں کل کيا ہو کس نے جانا
موت تو آنی ہے آئے گی اک دن
جان جانی ہے جائے گی اک دن
ايسی باتوں سے کيا گھبرانا
يہاں کل کيا ہو کس نے جانا
محترم حسن مجتبٰی صاحب، نفرت اور تعصب کے خلاف سرگرم ايک مخلص ہستي کي جواں سال موت ايک بڑا نقصان ہے۔ خداوند کريم مرحوم کو ان کي نيک خدمات کا اجر عطا فرمائے اور ان کے تمام چاہنے والوں کو صبر جميل کے ساتھ کسي خوش نصيب کو يہ خلا پر کرنے کي توفيق عطا فرمائے۔ دعاگو
حسن بھائی اپنے دوست کی جدائی کا حال جس انداز سے آپ نے بيان کيا ہے، اس سے بےاختيار آنکھيں بھر آئیں۔ اللہ آپ کو صبر اور چانڈيو صاحب کو اپنی رحمت کا سايہ نصيب فرمائے۔ آمين۔۔۔
ہمیں جس سے واقعی پیار ہوتا ہے، وہ ہم کبھی نہیں کھوتے۔ صرف موت یا جدائی کے بعد ہی ہمیں اس تعلق کی کہرائی کا احساس ہوتا ہے جو انہیں ہمارا ہمیشہ کے لیے ایسا حصہ بنادیتا ہے جو زندگی میں ممکن نہیں ہوتا۔
میں اے جی کے انتقال پر بہت افسردہ ہوں۔
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
موت وہ حقیقت ہے جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ کسی اپنے کے مرنے پر افسوس تو ہوتا ہے مگر جس کے لئے یہ دنیا بنی انہیں بھی تو ایک دن جانا پڑا۔ اس لئے صبر کرناچاہئے۔
حسن بھائی،
قدر ِ زر زرگر شناسد، قدر جوہر جوہری
قدر ِ گل بُلبُل شناسد قدر ِ دلُدُل شاہ علی
بہت بڑے انسان اپنے ميں سے چلے جانے والوں کو يوں خراج تحسين پيش کرتے ہيں کہ میں نے ملنے پڑھنے اور نہ ديکھنے والوں کو بھی قيمتی اثاثہ گم ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ خدا کو اسے جنت ميں ليجانا مقصود تھا يہاں اور جيتے تو دکھی ہی رہتے۔
وہ ایک ایسا انسان تھا جو دوسروں کے غم کو بھی اپنا غم سمجھتا تھا
حسن بھائی، غزہ کی پٹی بنے ہوئے سندھ کے فائر مين اور فائر ويمن کو ميرا سلام! خدا مرحوم و مغفور کو جوار رحمت میں جگہ دے اور پاکستان کو سکون عطا فرمائے، آمين ثم آمين!