بجٹ یا دیگ؟
بجٹ پیش ہونے والا ہے۔ حسبِ معمول غریبوں کے لیے آٹا، دال، مٹی کا تیل اور چینی سستی ہونے کی خبر سنائی جائے گی اور انشااللہ ایک ماہ بعد نہ تو بجٹ کسی کو یاد رہے گا اور نہ ہی قیمتوں میں کمی بیشی پر کسی کا دھیان ہوگا۔
مجھے کوئی ایسا بجٹ یاد نہیں جس میں وسائل کی تقسیم کو منصفانہ بنانے کے ٹھوس اقدامات کیے گئے ہوں۔ بس اتنا ہوتا ہے کہ کسی برس صنعت کاروں، تاجروں اور زمینداروں کو دی جانے والی رعائیتیں بیس ہو جاتی ہیں تو کسی برس انیس۔
عام آدمی کے لیے بجٹ زندگی پلٹ دستاویز نہیں ہوتی بلکہ مزار پر بٹنے والی وہ دیگ ہوتی ہے جسے حکمران سال میں ایک دفعہ گناہوں کے کفارے کے لیے دان دیتے ہیں۔ دیگ کے چاول ختم تو رش بھی ختم۔ بس عوام کو بجٹ میں دی جانے والی رعایتوں سے اتنا ہی فائدہ پہنچتا ہے۔
میں نے کوئی ایسا بجٹ نہیں دیکھا جس سے عوام کے سب طبقات مطمئن ہو سکیں۔ ایسا ممکن ہو سکتا ہے اگر بجٹ سنگدل ٹیکنو کریٹس اور بیورو کریٹس کی بجائے گھر کا خرچہ چلانے والی کسی ماں سے بنوایا جائے۔
ماں کو چاہے آپ پانچ ہزار روپے ماہانہ دے دیں یا پچاس ہزار۔ وہ ایسا بجٹ بناتی ہے کہ گھر کا کوئی فرد ناخوش نہیں ہوتا۔ یہ گھریلو عورت جو نہ تو اخبار پڑھتی ہے اور نہ ہی اس نے کبھی سٹینفورڈ یا ہارورڈ کا نام سنا ہوتا ہے اور نہ ہی یہ ایم بی اے کا مطلب بتا سکتی ہے۔ آخر کیسے سال میں بارہ بجٹ بنا لیتی ہے اور شادی غمی کے لیےکچھ نہ کچھ بچا بھی لیتی ہے۔
وجہ صرف ایک ہے، ماں کی نیئت میں فتور نہیں ہوتا۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترم وسعت اللہ خان صاحب، آداب۔ ’وجہ صرف ایک ہے، ماں کی نيت میں فتور نہیں ہوتا۔‘ بہت ہی فکر انگيز اور اپنے اندر ہزار معنی لیے ہوئے يہ جملہ حاصلِ تحرير ہے
يہ کاميابياں، عزت يہ نام تم سے ہے
خدا نے جو بھی ديا ہے مقام تم سے ہے
تمہارے دم سے ہيں ميرے لہو ميں کھلتے گلاب
ميرے وجود کا سارا نظام تم سے ہے
کہاں بساطِ جہاں اور ميں کمسن اور ناداں
يہ ميری جيت کا سب اہتمام تم سے ہيں
جہاں جہاں ہے ميری دشمنی سبب ميں ہوں
جہاں جہاں ہے ميرا احترام تم سے ہے
خدا سب کے سروں پر ان کی ماؤں کا سايہ قائم رکھے ۔
وسعت اللہ صاحب!!
دل کو چھو گئی آپ کی بات۔
آپ تو ’جین یس‘ نکلے وسعت بھائی!
’ماں کی نیت میں فتور نہیں ہوتا۔‘
اس کے بعد تو کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہيں رہی۔ ويسے ماں تو بہت بڑی ہستی ہے۔ ارے يہ اگر بڑے بھائی ہی بن کر بجٹ بنا ديں تو کافی ہے۔ عوام کا فائدہ ہو جائے۔ ليکن ايسا ہوگا نہيں۔
بے شک جناب وہ ماں ہو يا بيوی يا سوتيلی ہو يا پھر سگی بجٹ ہميشہ متوازن بلکہ مناسب بچت بھی نکال لے گی۔ِ کبھی کبھار تو اندھوں کے ہاتھ سے بھی ريو ڑی گرنے کی اميد رکھی جا سکتی ہے مگر يہ بجٹ اس کی تو وہی مثل کہ چيل کے گھونسلے ميں ماس کہاں اور بجٹ کے ڈھکوسلے ميں عام کے لیے کوئی آس کہاں۔۔۔
جناب وسعت صاحب
آداب۔ سہي کہا بات صرف نيت اور اپنا سمجھنے کی ہے۔ کہاں ماں کہاں يہ ’بجٹي‘ بندر ۔
جناب وسعت صاحب
آداب! سہي کہا بات صرف نيت اور اپنا سمجھنے کی ہے۔ کہا ں ماں کہاں يہ ’بجٹي‘ بندر۔
آپ نے آخر سطر ميں مسئلے کا حل دے ديا۔ نيک نيتی۔۔۔
آپ نے آخر سطر ميں مسئلے کا حل دے ديا۔ نيک نيتی۔
حاکموں کو عوام سے کيا واسطہ۔ انہيں تو بس وردی کی خير چاہيے۔
اسلام عليکم
آپ نے بالکل صيح فرمايا۔ بات صرف اور صرف نيت کی ہے۔ اگر دل ميں واقعی ايمان ہو اور دوسروں کے لیے وہ ہی جذبات ہوں جو اپنی ذات کے لیے ہوتے ہيں تو انسان صحيح فيصلے کر سکتا ہے وگرنہ بجٹ بنتے رہيں گے عام آدمی پستا رہے گا۔
وسعت اللہ بھائي! مولا خوش رکھے۔ کيا سچی بات کہی ہے۔ ليکن يہ نہيں بتايا آپ نے آج کے پاکستان ميں ماں جيسا کردار کہاں ملے گا کہ جس کي نيت ميں فتور نہ ہو۔
ماں بننے کے لیے نو ماہ بچہ پيٹ ميں اٹھانے اور اسے جنم دينے کی تکليف اٹھانی پڑتی ہے۔ پھر جاکر يہ خلوص اور نيک نيتی پيدا ہوتی ہے۔ ليکن حکمرانوں کو تو پلے پلائے لوگ اور کيلے نما ملک مل گيا ہے جس سے انہيں کوئی ہمدردی يا محبت نہيں ہے۔ لہذا ان سے نيک نيتی کی اميد نہيں کی جاسکتی۔
وسعت بھائی! کیس خوب کہا!
يہ کيا کر رہے ہيں آپ، لوٹيروں کو ماں سےموازنہ کر رہے ہيں؟ جائيے اس گستاخی پر آپ کی معافی نہيں!
’جلادو، جلادو، جلادو يہ دنيا
ميرے سامنے سے ہٹادو يہ دنيا
تمہاری ہے تم ہی سمبھالو يہ دنيا‘
وجہ صرف يہ ہے کہ وہ پاؤں چادر ديکھ کر پھيلاتی ہے، اور يہ اپنے پاؤں چھپانے کے لیے دوسروں کی چادريں بھی۔۔۔
واہ واہ وسعت! لکھتے رہيے اور خوب اسی طرح لکھتے رہيے۔
تسلیمات، کمال ہے، آپ نے بہت اچھا، سچا اور خوبصورت لکھا، ماں کی نیت میں فتور نہیں ہو تا۔ مجھے یاد ہے کہ ایبٹ آباد کے گو رنمنٹ پرائمری اسکول جھنگی میں چنار کے درخت کے نیچے دوسری کلاس میں ہمارے استاد ہمیں نو شیروان عادل کا قصہ پڑھا رہے تھے۔ کتاب میں لکھا تھا کہ نوشیروان کا گزر ایک دفعہ اناروں کے باغ سے ہوا، باغ سے گزرتے ہو ئے بادشاہ کا جی چاہا کہ وہ انار کا جام پیے۔ وہ باغ میں گیا تو باغ کے مالک نے اسے انار کا جوس پیش کیا ،ایک انار کے جوس سے گلاس بھر گیا، بادشاہ نے پیا تو سوچا کہ ایک انار سے ایک گلاس بھر سکتا ہے تو کیوں نہ اس باغ پر ٹیکس لگایا جائے۔ اس نے سوچتے ہو ئے باغ کے مالک سے دوسرے گلاس کی فرمائش کی، باغ کا مالک نے قریبی درخت سے پہلے سے قدرے موٹا انار توڑا اور اس کا جوس بنانا شروع کیا۔ لیکن اس مرتبہ گلاس آدھا ہی بن سکا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ ایک انار سے گلا س بھر گیا جبکہ دوسرے سے گلاس نا بھر سکا۔ باغ کے مالک نے کہا کہ
حضور، لگتا ہے کہ بادشاہ سلامت کہ نیت میں فتور آچکا ہو گا۔
واقعی ماں کی نيت ميں فتور نہيں ہوتا۔
بجٹ سے متعلق میرا تبصرہ یہ ہے کہ سارا سال کھاو، پیو مزے اڑاو اور جون میں تمام حساب برابر کر کے اگلے سال پھر کھانا شروع کر دو۔
غریب عوام تو پہلے ہی منگائی کے ہاتھوں پس رہے ہیں اور پستے رہیں گے۔ امیر امیر ہوگا اور غریب غریب تر ہوگا۔
وُسعت بھائی، آپ کا آج کا بلاگ دل کے اُس خالی کونے کو بھرنے کا سبب بن گيا ہے جس ميں ماں بستي ہے، بجٹ يا مزار پر بٹنے والی ديگ ميں جو فرق ہے وہ کُچھ ايسا دل کو بھايا ہے کہ بےچاری آٹے دال کے چکروں ميں پڑي ہماري عام عوام بھي اگر اس بلاگ کو پڑ ھ لے تو آپ کي جہاں ديدگي کی قائل ہو جائے گی اور ماں کي عظمت کو ضرور سلام کرے گی۔ جس طرح آپ نے واضح کيا ہے اس بات کو کہ ماں کی نيّت ميں کوئی فتور نہيں ہوتا سو جب نيّت نيک ہو تو کسی بھی طرح کی تعليم کی ضرورت نہيں ہوتی۔ پھر بقول آپ کے ماں کو آپ چاہے پانچ ہزار ديں يا پچاس ہزار وہ اُس ميں گھر کے ہر فرد کو نا صرف خوش رکھتی ہے بلکہ خوشی غمی کے لۓ کُچھ نا کُچھ بچا بھی ليتی ہے۔ بالکُل بجا ليکن آج کل کی چکا چوند سے بھری دُنيا کی باسی آج کی مائيں ايسا کرنے ميں ناکام کيوں ہو رہی ہيں يہ کون بتائے گا؟ کيا وہ بھی حکُومتی کارندوں جيسی ہو گئی ہيں؟ کُچھ نا بچانے والی خوشی غمی کے مواقع پر دُوسروں کی طرف ديکھنے والی؟
بجٹ تو فقط حکومتی دل لگی کا نام ہے۔ عوام بيچارے تو سارا سال مھنگائی کے کھونٹے سے بندھے کولھو کے بيل کی طرح زندگی گزارتے ھيں۔ کون کس شرح سے مرتا ہے، وہ عوام ھيں، کون کس اوسط سے جيتا ھے، وہ حکمران ہيں۔
وُسعت بھائ آپ کے بلاگ پر سبوخ سيّد کا تبصرہ کُچھ اتنا جاندار ہے کہ دوبارہ لکھ کر داد دينے اور صحيح کو صحيح طرح سمجھنے پر مُبارکباد دينے کو دل چاہ گيا۔ کاش کہ نيّتوں کا يہ فتُور ہم درُست طريقے سے سمجھ سکيں جو آج کے شاہوں کی نہيں پُرانی روايت ہے تو شکوہ کيسا؟ہاں سبُوخ صاحب بچپن ميں پڑھی کہانی کا اقتباس مزہ دے گيا۔ شکريہ!
خير انديش
شاہدہ اکرم
وسعت اللہ بھائی اس غم میں بھی آپ کا برابر کا شریک ہوں کہ
عام آدمی کے لیے بجٹ زندگی پلٹ دستاویز نہیں ہوتی بلکہ مزار پر بٹنے والی وہ دیگ ہوتی ہے جسے حکمران سال میں ایک دفعہ گناہوں کے کفارے کے لیے دان دیتے ہیں۔ دیگ کے چاول ختم تو رش بھی ختم۔ بس عوام کو بجٹ میں دی جانے والی رعایتوں سے اتنا ہی فائدہ پہنچتا ہے۔
بجٹ ایک آس ہوتی ہے اور اس مرتبہ لوگوں کو یہ آس ہے کہ انہیں الیکشن کے تناظر میں کچھ نہ کچھ ریلیف مل جائے گا ورنہ شوکت عزیز جیسے بینکر کسی کی جیب میں پیسے کیوں دیکھ سکیں گے؟ شوکت عزیز کو عوام سے دلچسپی ہے اور نہ ہی پاکستان سے۔ وہ ایک نوکری کر رہے ہیں اور پاکستان کو بیچ کر اس میں ہونے والے منافعے میں سے اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں۔
ماں کے بجٹ کی خاص بات طبقاتی تقسیم کا نہ ہونا ہے۔ ماں کے لیے گھر کے سب ممبر برابر ہوتے ہیں۔ جبکہ حکومتی بجٹوں میں امیروں سے کیے گئے سودوں کی بو آتی ہے۔ حکومت حیثیت دیکھ کر مراعات دیتی ہے۔ ماں کی نیت میں سب کے لیے بھلا ہوتا ہے۔ جبکہ حکمران کے بارے میں احمد فراز کا شعر عرض ہے
’دریدہ پیراہنوں کا خیال کیا آتا
امیر شہر کی اپنی ضرورتیں تھی بہت‘
سلام و مسنون
جب تلک غريب اس مملکت خداداد میں موجود ہے جس کا پورا بندوبست سالہا سال سے کيا جاتا رہتا ہے، ايسے بجٹ بنتے رہيں گے تاکہ الیکشن کے دوران کوئی نعرہ تو ان امراء کے پاس ہو جس کا سہارا ليتے ہوئے پھر سے ان غريب عوام کا استحصال کيا جا سکے۔
وسعت اللہ صاحب! آپ کے تبصرے پر تبصرے کےليے الفاظ نہيں مل رہے۔ درحقيقت آپ کے تبصرے دل کي گہرائيوں کو چھو ليتے ہيں۔ آخری سطر پڑھ کر دل ہی بھر آيا۔ کاش آپ کے الفاظ ان افراد کي آنکھوں کے سامنے سے بھی گزريں جو عنقريب عوام کے جذبات کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے لگے ہيں۔ ’شايد کہ تيرے دل ميں اتر جائے ميری بات‘۔ اپنا خيال رکھيےگا۔
ماں ماں ہوتی ہے۔۔۔
ديگ پکی ختم ہو گئی اور ماں کو پتا ہی نہيں چلا۔
واہ وسعت بھائی، کیا کمال لکھا ہے، سارا بلاگ آخری جملے میں سمٹ آیا ’ماں کی نیت میں فتور نہیں ہوتا‘۔ کیا کہنے ہیں۔۔۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔
وسعت بھائی اسلام عليکم!
وردی والوں نے مادر ملت کو ہی اليکشن ميں دھاندلی سے ہرا ديا کہ مثالی بجٹ جو سب کو قبول ہوتا نہ بن سکتا اور ہر ايک کو اس کے حق کا ملتا صرف بندوق برداروں کو نہيں۔
آصف محمود
امريکہ
وسعت صاحب، آپ ھميشہ ھر بات بالکل صحيح موڑ پر ختم کرتے ھیں۔