اک گھر بنائیں گے تیرے گھر کے سامنے
بیگم جلدی کرو گاڑی نکلتی جا رہی ہے۔ اگر آج گاڑی مس ہو گئی تو پھر ایک مہینہ انتظار کرنا پڑے گا۔ یہ ٹرانسپورٹ والے بھی نہ، بس کچھ بھی نہیں کرتے۔
اکیسویں صدی آ گئی ہے اور گھر جانے کے لیے ایک ایک مہینہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ پتہ نہیں کب ترقی کریں گے یہ نکمے لوگ۔
ایک مہینہ پہلے ہی گھر میں کلی کروائی اور تب ہی سے بیگم نے رٹ لگا رکھی تھی کہ یہ کلی کی بو میرے ناک کو چڑھتی ہے، چند دنوں کے لیے یہاں سے نکلتے ہیں۔ پرانے گھر میں بھی کچھ وقت گزارنا چاہیئے، آؤٹنگ بھی ہو جائے گی اور شاپنگ بھی۔ اس نئی جگہ کی بس ایک مصیبت ہے کہ یہاں ابھی کوئی اچھا شاپنگ مال نہیں بنا۔ بچوں کے لیے دودھ بھی پتہ نہیں کہاں کہاں سے گاڑی لے کر آتی ہے۔ یہی حال سبزیوں کا بھی ہوتا اگر یہ باورچی خانے میں خود ہی نہ اگائی جاتیں۔ جی ہاں ہم اپنی ساری سبزیاں خود اگاتے ہیں، ذائقہ ذرا مختلف ہے مگر کھائی جا سکتی ہیں ۔
سب سے اچھی بات اس جگہ کی یہ ہے کہ یہ کھلی ہے۔ دور دور تک کی زمین اپنی ہے۔ میں نے یہاں آ کر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ایک کارنر پلاٹ لیا اور اس پہ گھر بنایا کھلا اور روشن۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹا سا مسئلہ بھی ہے۔ پلاٹ تو میں نے کارنر کا لے لیا لیکن دوسرا کارنر تو کیا یہاں تو دور دور تک میرا کوئی ہمسایہ نہیں ہے۔ ہمارے جو دوست سب سے قریب رہتے وہ ہیں راجہ صاحب اور وہ بھی یہاں سے کوئی ہزار میل دور جا بسے ہیں۔ ماشااللہ گھر ان کا بھی بہت بڑا ہے۔
پرانے دوست کہتے ہیں کہ ہم نے اب اپنا معیارِ زندگی بہت بلند کر لیا ہے اور ہم بقول ان کے ’اونچے‘ ہو گئے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں ان کی سوچ غلط ہے ہم ان سے ذرا دور ضرور ہو گئے ہیں پر اونچے نہیں۔ اصل میں یہ ان کے دیکھنے اور سوچنے میں کی بات ہے۔ وہ ہمیں اپنے سے ’نیچے‘ بھی سمجھ سکتے تھے۔ حقیقت میں ہم سب اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ جیسے میں کسی جنگل میں گھر بنا لیتا تب بھی تو ان سے اتنا ہی دور ہوتا۔ بس میں نے یہاں گھر بنا لیا۔ کچھ عرصہ بعد انہیں عادت ہو جائے گی اور شاید وہ میرے یہاں آنا جانا بھی شروع کر دیں۔ ارے یہ تو اچھا آئیڈیا ہے، کیوں نہ میں انہیں دعوت نامہ بھیجوں کہ میرے ساتھ کچھ چھٹیاں گزارو۔ آرام کرو، پڑے رہو، خوب مزے کریں گے۔
بھئی آخر یہ کوئی دوسری دنیا نہیں چاند ہی تو ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
شاعر نے کيا خوب کہا ہے
شہراں وچ آبادی ودھی
بندہ ہور وی کلاً ہويا
(شہروں کی آبادی ميں اضافہ نے انسان کی تنہائی ميں بھی اضافہ کيا ہے)
زمين سے اگر چاند اوپر نظر آتا ہے تو چاند سے آپ کو زمين اوپر نظر آئے گي- اس ليے بات اوپر نيچے کی تو ہے ہی نہيں بات تو ہے فاصلوں کي- اس ليے آپ کے پاس آکر وہ آپکو نيچے سمجھ ہی نہيں سکتے بلکہ ديکھ بھی سکتے ہيں
محترم عارف شميم صاحب ، آداب اور صبح بخير
بالکل پہيلی کے انداز ميں آپ نے سويرے سويرے چاند کی سير کرا دی ۔ اچھا آئيڈيا ہے ۔ آپ کے بلاگ ميں ديے گئے کچھ لنکز پڑھ کر چند خوفوں نے آگھيرا ۔۔۔
ديکھيں ، غير امريکی تو چاند پر پھول اگانے کی بات کررہے ہيں اور امريکی اپنا مرکز بنانے کے سہانے سپنے ديکھ رہيں کہيں يا گوانتانامو سے بڑھ کر مرکز نہ ہو کہ نہ کوئی خبر آئے اور نہ کوئی خبر ليک ہو اور انسانی حقوق والے بھی نہ کچھ کرسکيں ۔ صدر بش چاند سے مريخ پر جانے کی باتيں کر رہے ہيں جيسے ايک ملک پر قبضہ کر کے دوسرے پر چڑھائی کی جائے ۔ پھر جہاں بش ہوں وہاں اسامہ نہ ہو يہ کيسے ممکن ہے اور پھر بش اسامہ اتحاد اس چاند کو بھی مہرِ دو نيم نہ بنا دے ۔ پھر چاند پر شاعرانہ باتيں ، اس کی ٹھنڈک و حسن کی باتيں اور مثاليں کہاں سے لائيں گے ۔۔!؟
ميں سمجھتا ہوں کہ خواب و خيال کی باتيں خواب و خيال ہی رہيں تو اچھا ہے کيونکہ ’ ہے ديکھنا يہی کہ نہ ديکھا کرے کوئی‘ ۔۔
اپنا بہت خيال رکھيۓ گا ، ارے ايک بات تو پوچھنا ہی بھول گيا کہ کيا آپ نے چاند پر کارنر پلاٹ کی بکنگ کرا لی ہے؟
شميم صاحب ما شاء اللہ آپ نے چاند پر گھر بناليا۔ ارے بھئی جب شہر ميں بسوں کے انتطار کے لیے گھنٹوں دھکے کھا سکتے ہيں تو وہاں ايک مہينہ انتظار نہيں کرسکتے؟ نئی صدی ہے بھئی انتظار اب گھنٹوں ميں نہيں بلکہ مہينوں کے حساب سے ہوگا۔ ويسے صنف مخالف کی نزاکتوں سے ابھی ميں نابلد ہوں شايد اگلے مہينے يعنی نئے سال ميں ہوجاؤں۔ خير بات ہو رہی تھی تيرے گھر کے سامنے گھر بنانے کي، تو ہم يہ جان کر بھی حيرت زدہ رہ گئيے کہ وہاں بھی ہميں نکمے لوگوں سے سر ماری کرنی پڑے گی ۔ يا پھر دودھ يا اخبار والے سے ہر دن لڑنا پڑےگا کہ اس نے دودھ ميں اتنا پانی کيوں ملايا يا اخبار تڑکے کيوں نہيں ڈالا آغاز تو يہيں سے ہوتا ہے نا۔ ويسے فکر نہ کريں آج دور دور تک لق و دق سحرا ہے کل گھر بنانے کے لیے زمين نہيں ملے گياور پھر تيرے گھر کے سامنے گھر بنانے کا خواب خواب ہی نہ رہ جائے۔ ويسے آپ نے يہ نہيں بتايا کہ عيد کے لیے چاند ديکھنے کے ذوق و شوق اور جوش کا کيا ہوگا اور پھر اس شعر کا کيا ہوگا کہ
عيد کا چاند ہوگئے ہو تم / اب آ بھی جاؤ کہ عيد آئی ہے۔ ويسے شميم بھائی گزشتہ دنوں کے تلخ و تند مباحث کے بعد آج کا يہ تازہ بلاگ ہمارے لیی باد صبا سے کچھ کم نہيں ہے۔ دعاؤں ميں ياد رکھيے گا۔ سجادالحسنين ۔ حيدرآباد دکن۔ انڈيا
محترم سجادالحسنين صاحب، ميری طرف سے آپ کو صنفِ نازک کی نزاکتوں سے آگاہی کی طرف پيش قدمی بہت مبارک ہو۔ ميری نيک تمنائيں آپ کے ساتھ ہيں ۔ مجھے يقين ہے نئے سال سے آپ کی زندگی کا سفر مزيد خوشگوار ہو جاۓ گا ۔
اپنا اور اُن کا بہت خيال رکھيۓ گا اور اس ناچيز کو دعاؤں ميں۔
عارف بھائی بہت عمدہ بلاگ ليکن يہاں زمين پر غريب کو دوگز زمين ملنا مشکل ہے اور آپ چاند پر کارنر کے پلاٹ کی بات کررہے ہيں۔ خير آپ نے وہاں کی پلاٹ کی قيمتوں کا تذکرہ نہيں کيا يہاں اسلام آباد ميں تو قيمتيں کروڑوں ميں پہنچ گئی ہيں۔ جویریہ صدیقی
سوال يہ ہے کيا آپکا چاند وہی ہے جو ہم سب کا ہے جس کی چاندنی جب ہمارے آنگن اترتی ہے تو دل مچل مچل جاتا ہے۔ وہاں آپ بہت مزے ميں ہوں گے، نہ سامنے والی کھڑکی ہوگی نہ گھڑی گھڑی چھت پر جانا پڑتا ہوگا۔
محترمی و مکرمی عارف شميم صاحب
اسلام عليکم ! آپ جب بھی لکھتے ہيں خوب لکھتے ہيں - اس مرتبہ آپ کا بلاگ پڑھ کر مجھے بھی احساس ہوا جيسے ہمارے ليے اب شايد زمين کی فضا ميں رہنا ممکن نہی رہا ، اب چاند پر ہی جانا چاہيے - مگر سوچنے والی بات يہ ہے کہ چاند پر اگر رکشے ميں بيٹھ کر جايا جاتا تو پھر تو ٹھيک تھا ليکن اگر اس کے ليے ہمارے جيسے لوگوں کيلئے سوچنا بھی مشکل ہے - چونکہ چاند پر بھی امريکہ بہادر جيسے لوگوں کی اجارہ داری ہے - ہمارے ليے زمين ہی ٹھيک ہے جوکہ ہم جيسوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی برداشت کر رہی ہے - آؤ بچوں چاند کی سير کريں ، پڑھ کر بہت مزہ آتا ہے۔ جاويد اقبال ملک
تيرے گھر کے سامنے گھر بسانےکا دور تو لد بھی چکا اب اک بت بناؤنگا تيرا اور بوچا کرونگا۔
اسلام و عليکم بھائی عارف شميم صاحب لگتا ہے مرزا نے آپ کے لکھنے بارے ہی کہا تھاکہ ’ آتے ہيں غيب سے يہ مضاميں خيال ميں‘۔ آپ بال بچوں سميت چاند پر جا پہنچے ہم ابھی تک جوتا ڈھونڈ رہے ہيں۔ لگتا ہے اللہ نے تو آدم کو ارض پر بھيج ديا اور ہميں دوبارہ سزا واسطے اپنے پاکستان کہ اسي کے نام پر بنا تھا اور ان کے اوپر انتظام واسطے فوج کو بٹھا ديا۔