| بلاگز | اگلا بلاگ >>

میں پہاڑوں میں کھوگئی

نعیمہ احمد مہجور | 2006-10-04 ،17:08

سونہ مرگ کی تقریبا نو ہزار فٹ کی بلندیوں پر چلنے والے ہمالیائئ بکروال نہ صرف سخت جاں ہیں بلکہ کڑ مذہبی بھی۔
blo_nayeema_girl203.jpg

یہ میری بنجارن زندگی کا وہ پڑاؤ تھا جب میں بکروال کہنے والے ایک قافلے میں شامل ہوکر گریز کی جانب پیش قدمی کررہی تھی۔

بکروال برادری محال ہی کسی اورکو اپنی زندگی میں شامل کرتے ہیں۔ میں نے ان کا لباس پہن کر ان کی خشنودی حاصل کی مگر ان کے پہرے دار کتوں نے مجھے دیکھتے ہیں اتنا ہنگامہ شروع کردیا کہ پہاڑوں پر تعینات بھارتی فوجی مجھے مشکوک نظروں سے دیکھنے لگے۔

میری لاکھ کوششوں کے باوجود وہ چپ نہیں ہوئے، بھونک بھونک کر جب خود ہی نڈھال ہو گئے تو شرمسار ہوکر میرے پیچھے پیچھے چپ چاپ چلنے لگے۔ کھایوں وادیوں گہرایوں اور چوٹیوں سے ہوتے ہوئے ہم ایک گلیشیئر کے سامنے رک گئے جہاں پہنچتے ہی میں گلوبل وارمنگ کے ثبوت تلاش کرنے لگی۔ یہ مقام آرکٹک سے شاید زیادہ ٹھنڈا ہوگا۔

میں یہاں سے آگے جانے کی فکر میں تھی کہ قافلے کے بزرگ امیر نے آگ جلاکر بچوں کو گھوڑے سے اتار کر کمبلوں میں لپیٹ دیا اور گلیشیئر کے سامنے کھانہ کھانے کا اعلان کردیا۔ میلے کچیلے کپڑوں میں رکھی مکئی کی سخت روٹیاں اور سبزی کے چند ٹکڑے قافلے میں بٹ گئے جن میں پیر صاحب کی بیگم بھی شامل تھی جس نے سفر کے دوران تیسرے بیٹے کو جنم دیا تھا۔ ابھی کھانہ تناول ہی ہورہا تھا کہ تیز آندھی کے ساتھ بارش شروع ہوگئی۔امیر قافلہ نے اپنے ہم جنسوں کو خیمے نصب کرنے کی ہدایت کی۔ میں عجیب خوف میں مبتلا ہوگئی اور سوچ رہی تھی کہ آندھی کی لہر ہمیں کہیں دور نہ پھینکے۔ ایسی آندھی میں خیمے نصب کرنا کافی دشوار لگ رہا تھا۔ میں بکروال بچوں یا عورتوں پر خوف کے آثار تلاش کرنے لگی مگر وہ جس سکون اور خاموشی سے پہاڑوں اور ان پر لگے بڑے بڑے درختوں کو ہلتے دیکھ رہے تھے۔ مجھے ان کے سخت جاں ہونے اور ایمان کا یقین ہو رہا تھا۔ میں سوچنے لگی کہ ان پہاڑوں میں مجھے کھونے کی سزا دی گئی ہے یا واقعی میں زیادہ ایڈونچرس بن گئی ہوں۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 19:05 2006-10-04 ,Anees :

    واہ نعيمہ جي -- - - - - -
    مزہ آگيا جيسا کہ ھم بھی آپکے ہمسفر تھے شکريہ شُير کرنے کا ـ
    ويسے کبھی کبھی جی چاہتا ہے اس نفسا نفسی کے اور خود غرضی کے دور ميں ميں کسی ايسی جگہ چلا جاوں ۔آپکے بلاگ سے مجھے براوو چارلی ڈرامہ ياد آگياـ

  • 2. 19:17 2006-10-04 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    سرحديں ملتی ہيں ۔۔۔
    يوں بھی ہوتا ہے
    خواب ميں آکر
    نقش دھندلے سے چھوڑ جاتے ہيں
    راستے ، جن سے ہم نہيں گزرے
    چہرے ، جن کو کبھی نہيں ديکھا

    چلتے چلتے مگر کئ منظر
    آتے جاتے ہوۓ بہت سے لوگ
    ديکھے بھالے سے ہم کو لگتے ہيں
    سلسلے خواب کے کہيں نہ کہيں
    پچھلی يادوں سے جاکر ملتے ہيں

˿ iD

˿ navigation

˿ © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔