نیاز کی خود سوزی
نہ جانے اسلام آباد کے پولیس اور پریس والوں نے سپریم کورٹ کی عمارت کے آگے بیروزگاری کے مارے ہوئے خود سوزی کرنے والے سانگھڑ کے شخص نیاز حسین کے نام کے ساتھ اس کے سندھی ہونے پر زور کیوں دیا؟
لیکن یہی وقوعہ و منظر ہی فوجی حمکران جنرل مشرف کی کتاب کا اصل سر ورق ہے ’پاکستان: ان دی لائين آف فائر‘۔ بیروزگاری، نااانصافی اور دہشت گردی کی آگ میں ملائوں، ملٹری، وڈیروں اور چودھریوں، سرداروں کے جھونکے ہوئے پاکستان کے نادار لوگ۔
اب دیکھیں! لوگوں نے پاکستانی پارلیمان اور وزیر اعظم سیکٹریٹ یا ایوان صدر عرف کیمپ آفس روالپنڈی کے آگے انصاف مانگنے کی امید اور ارادہ ہی زیادہ تر منسوخ کر دیا ہے، اور اب تھوڑا بہت پاکستان میں انصاف اس فرد واحد سے متوقع کیا جا رہا ہے جس کا نام چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ہے۔
یہ اور بات ہے کہ ڈومیسائیل بلوچستان کا رکھنے والے چیف جسٹس کو اب تک ملک میں خفیہ ایجینسیوں کے ہاتھوں سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کی گمشدگیوں پر کی جانے والی اپیلوں کی شنوائي نہیں ہوتی! شاید ان کی شنوائی نہیں بھی ہو سکے! یہ وہ مقامات ہیں جہاں سے آگے جانے پر شاید فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں! اب فرشتے نہیں انسان انصاف کے حصول کیلیے جل رہے ہیں۔ مائی جندو سے لے کر نیاز حسین تک، اور وہ شخص بھی آپ کو یاد ہوگا جس نے لاہور کے عدالتی کمرے میں پولیس تشدد کے خلاف خود کو آگ لگا دی تھی۔
پاکستان میں انصاف اب اس ’تحریک‘ کا نام ہے جس کے سربراہ عمران خان ہیں جنکا، میرے دوست عدنان عادل کی ایک رپورٹ کے مطابق، اسلام آباد میں دو سو کنال پر پھیلا ہوا فارم ہاؤس ہے۔ دوسرے فارم ہاؤسز عبدالقدیر خان، ناہید خان اور جنرل پرویز مشرف کے ہیں۔ ایک ہی تھالی پر یہ سارے چٹھے اور وٹو!
شاید اسی شہر کے لیے ہی عارف شفیق نے کہا تھا:
’غریب شہر تو فاقوں سے مرگیا عارف
امیر شہر نے ہیرے سے خود کشی کر لی‘
تبصرےتبصرہ کریں
جب ہمارے مشرف صاحب لوگوں کو پاکستان ميں آئی ’خوشحالي‘ کے بارے سمجھانے کی کوشش کرتے ہيں تو حيرانگی ہوتی ہے کہ يہ کيسی خوشحالی ہے جو نياز حسين جيسے عام لوگوں کی سمجھ ميں نہيں آ رہي۔ مشرف کو امريکی ٹی وی کے پروگراموں ميں قہقہے لگاتے ديکھ کر ساحر لدھيانوی کے يہ شعر ياد آتے ہيں جو شايد اسی موقع کے ليے کہے تھے۔
کہ جب ميں ديکھتا ہوں بھوک کے مارے کسانوں کو
سسکتی نازنينوں کو تڑپتے نوجوانوں کو
کسی کے چيتھڑوں کو اور شہنشاہی خزانوں کو
تو دل تاب نشاط بزم عشرت لا نہيں سکتا
ميں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہيں سکتا
جن سے انصاف کے امکانات ہيں ان کے ان امکانات کا بہت احطياط سےجائزہ ليا جا چکا ہے۔ جن سے انصاف کي بداحتياطی کا امکان ہو انہيں بصد احترام محکمہ موسميات ميں سترہ گريڈ ميں ريٹائرمنٹ تک احتياط سے رکھا جاتا ہے۔
خود کو آگ لگانا آسان کام نہيں۔ صرف حکومت کو بدنام کرنے کے لئے کوئی خود کو اس اذيت ميں نہيں ڈال سکتا۔ ان واقعات کو حکومت کو سنجیدگی سے لينا چاہيے۔ کہيں ايسا نہ ہو کہ يہ مٹی کا تيل لوگ خود پر ڈالنے کے بجائے دوسروں پر ڈالنے لگيں۔ اگر ايسا ہوا تواس آگ ميں وہی جليں گے جو آج اس بھوک، بےروزگاری، ذلت کے ذمہ دار ہيں۔ اب ميرا خيال ہے کہ ہميں اس خبر کا انتظار کرنا چاہيے کہ نياز حسين کب مٹی کا تيل ہاتھ ميں لے کر نکلتا ہے۔
پاکستان ميں انصاف اس چڑيا کا نام ہے جو غريب کے کبھی ہاتھ نہيں آتی۔ اس سلسلے ميں باتيں مختلف ہيں اور کردار سب ايک ہيں چاہے وہ مشرف ہو نواز شريف ہو بے نظير ہو يا مولويوں کا کوئی گروپ ہو۔ ناانصافی، جھوٹ، منافقت، ذاتی مفاد ہی پاکستان ميں سب کی پہچان ہے۔ اللہ اس ملک کے لوگوں کو خصوصا غريبوں کو ان تمام کے ظلم سے بچائے۔
جناب اب تو خیر باش کہتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ یقین جانیے جس طوفان اور سیلاب کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ اپنی حدت اور جدت میں کئی گنا شدید ہو گیا ہے۔ اب اگر یہ بہہ نکلا تو شاید طاقتور اور کمزور کے معنی ہی بدل جائیں۔ بس اب تو انتظار ہی ہے۔ پر سمجھ نہیں آتی کس چیز کا۔
آپ نے بہت ہی بہترين بلاگ لکھا ہےاور حقيقت ميں ارباب اختيار کی آنکھيں کھو لنے ميں اپنا کردار ادا کيا ہے۔اس ميں کوئی شک نہيں کہ ہما رے ملک پر سب سے بڑا بوجھ فوج اور يہ وڈيرے اور سردار سياست دان ہی ہيں۔ ان ميں سے ہر شخص مختلف روپ ميں ہما رے پيارے وطن کو لوٹ رہا ہے۔ ان لوگوں کی تقارير اور انٹرويو سنو تو ايسا محسوس ہوتا ہے جيسے ان سے زيادہ تو شايد کوئی محب وطن اور مخلص انسان اور کوئی ہے ہی نہيں مگر ان کا اصلی چہرہ وہی ہے جو کہ آپ نے دکھايا ہے۔ ان سياست دانوں نے ہی تو نوجوان نسل کو مينار پاکستان سے خود کشی کرنے پر مجبور کيا۔
سچ لکھا ہے حسن بھائی آپ نے۔ مجھے خوشي ہے کہ آپ پاکستان سے باہر ہيں نہيں تو ان خفيہ ايجينسیوں کے خفيہ ايجينٹوں کے ہاتھوں کب کے اٹھا ليے گئے ہوتے۔
اللہ رحم کرے ہم سب پر!