رمضان اور ہم
کچھ لوگوں کو رمضان کے شروع ہونے پر بڑی الجھن ہوتی ہے۔ وہ اس لیئے کہ روزے دار انتہائی بدمزاج ہو جاتے ہیں اور پاکستان میں ہر کام کو انتہائی مشکل تصور کیا جانے لگتا ہے۔ دفاتر جلدی بند ہو جاتے ہیں، سب کے چہرے اترے ہوئے ہوتے ہیں اور کوئی اپنی ذممہ داریاں بھی پوری کرے تو وہ آپ پر اس کا احسان جتاتا ہے۔
دل چاہتا ہے کہ ایسے افراد سے پلٹ کر کہا جائے کہ’ آپ نے روزہ رکھا ہے، کسی پر احسان نہیں کیا، برداشت کیجیے اور برداشت کی صلاحیت نہیں ہے تو روزہ نہ رکھیں۔
‘اسی قسم کے رویے کی وجہ سے روزہ رکھنے والوں اور روزہ نہ رکھنے والوں میں ایک خلیج بنتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں ایک عجیب سا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ روزے کے دوران نہ کھانے اور نہ مشروبات کی شکل دکھائی دے سکے۔ کئی مقامات پر یہ ایک خفیہ طریقہ سے شامیانے یا پردے کے پیچھے فراہم کیے جاتے ہیں چھپ کر۔ گرمی کے موسم میں کسی چھوٹے بچے کو بھی پانی پیتے ہوئے دیکھا جائے تو لوگ بڑے ناراض لگتے ہیں۔۔۔ لوگ بھی خوف کی حالت میں رہتے ہیں کہ ’ہائے لوگ روزے سے ہیں، ہم کچھ کھا پی لیں تو انہیں برا لگ سکتا ہے۔‘
ہم سب مسلمانوں کو اور کے فرائص کا علم ہے۔ ہر شخص اپنی صلاحیتوں اور صحت کے لحاظ سے روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ آپ روزہ رکھیں تو اپنے اور اللہ کے لیئے، دکھانے کے لئیے نہیں اور نہ ہی یہ ظاہر کرنے کے لیئے کہ آپ کتنے نیک و نورانی شخصیت ہیں۔
میرا خیال ہے کہ ہمیں اس مبارک مہینے میں صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے یہ نہیں کہ روزہ رکھ کر یہ محسوس کریں کہ ہم کسی دوسرے سے زیادہ ’اچھے‘ مسلمان ہیں۔ رمضان کا مہینہ ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنے نفس سے بالاتر ہو کراپنی زندگی اور اعمال پر غور کر سکیں۔ دنیاوی عادتوں اور سحاروں کو پہچانیں اور ان کے بارے میں سوچیں، عبادت کریں لیکن وہ بھی ثواب کی لالچ میں نہیں بلکہ اس کوشش میں کہ ہم اچھے مسلمان اور بہتر انسان بن سکیں۔
ماہ رمضان صبر و کا موقع ہے۔ دکھاوے کے لیئے تو نہیں، بلکہ غور و فکر اور ’سیلف اِمروؤمنٹ‘ کا موقع ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترمہ عنبر خيری صاحبہ ، آداب اور رمضان المبارک کی آمد آپ کو مبارک ہو ۔۔۔ آپ کی باتيں کافي حد تک درست ہيں ۔
بصد احترام عرض ہے کہ کيا لفظ ثوم صحيح ہے يا يہ صوم ہے ؟ شکريہ
بالکل ماہِ رمضان رحمتوں اور برکتوں والا محترم مہينہ ہے جس ميں روزوں کے ثواب کے ساتھ ہر عبادت کا ثواب کئ گنا ذيادہ ہے ۔۔ يہ تو تربيت کا مہينہ ہے ، تزکيۂ نفس کرنے کا مہينہ ہے اور خدا سے قريب تر ہونے کا مہينہ ہے ۔۔ مگر ہم اس تربيت کے مہينے سے بھرپور فائدہ نہيں اٹھا پاتے اور ہم ميں سے بہت سے لوگ صرف فاقہ کرکے دن گذار ديتے ہيں مگر روزے کی اصل لذتوں اور برکتوں سے محروم رہ جاتے ہيں ۔۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم باعمل روزہ دار بنيں اور اگلے گيارہ مہينوں کے لۓ خود کو ايسا تيار کريں جيسا کہ خدا چاہتا ہے ۔۔
دعا ہے کہ خدا ہمارے روزوں اور رمضان کي شب بيداريوں کو قبول فرماۓ ۔
دعا گو
سيد رضا
برطانيہ
عنبر جی رمضان پر لکھے گۓ آپ کے بلاگ نے اس وجہ سے دل خوش کيا کہ ہميشہ ہی رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ہم ايسی ہی باتيں بچپن سے سنتے اور پڑھتے آ رہے ہيں اور اگر کبھی کسی سال ايسے فرمودات نا مليں تو کچھ بہت عجيب سی فيلنگ ہوتی ہيں ماشاءاللہ مسلمان فيملی سے تعلق ہے اور آنکھ کھلنے کے ساتھ ہی يہ سب کچھ اپنے ارد گرد ديکھا ہے سو کبھی بھی روزہ گراں نہيں گزرا بلکہ گھر کہ وہ چھوٹے بچے جو روزے کی عمر کو نہيں پہنچے ہوتے وہ بھی روزہ رکھنے کی ضد کرتے ہيں اور مجبوراْاُن کو چڑی روزہ رکھوانا پڑتا ہے بات گھريلو ماحول کی ہوتی ہے اور جن باتوں کا آپ نے ذکر کيا ہے اس کو ہم خود اپنے پر طاری کرتے ہيں سارا سال گيارہ مہينے کا کھانا پينا بھول جاتے ہيں اور صرف اُنتيس يا تيس دن کا ايک وقت کا نا کھانا اس قدر کھلتا ہے کہ اچھی خاصی شکلوں پر بارہ بجے ہوتے ہيں حالانکہ مزہبی فريضہ بھی باقی ارکان اسلام کی طرح پوری خوبصورتی سے ادا کيا جاۓ تو جو خوشی حاصل ہوتی ہے يقيناْاُس کا کوئ بدل نہيں ہو سکتا کيونکہ اس اسلامی رکن کو ادا کر کے ہم خد اکی خوشنودی حاصل کرتے ہيں کہ روزہ يا صوم اس کا اجر خود خدا ديتا ہے تو اتنے بڑے اجر سے منکر ہونا کون چاہے گا جبکہ وعدہ کرنے والی ذات اللہ کے ہے دعا کريں کہ قبول کرنے والی ذات سب کی دعاؤں اور عبادتوں کو قبوليت کا شرف بخشے اور ہم سب اپنی عبادتوں ميں خشوع و خضوع لا سکيں اُميد ہے ميرے سب بہن بھائ نا صرف اپنے لۓ بلکہ پوری دنيا کے سکون اور امن و امان کے لۓ دعا گو ہوں گے سب بہن بھائيوں کو رمضان المبارک کا با برکت مہينہ اور اس کی برکتيں مبارک ہوں اور اللہ نصيب کرے يہ رحمتيں
کُل عام و انتم بخير
دعا گو
شاہدہ اکرم
mughe to samagh me nahi ata k aj k parhe lekhe log islam ki aham bato ko bhi naie dunaya ki tarah banana chahte he ab anmber kheri ki is bat ko lele k rozadar k samne khana peena acha he yani rozedar ko bura nahi lagna chahye ab amber kheri ko kon samjhaie ku k unohne islam k liye to koie qurbani nahi di peda hwee to musalman ager wo bhi belal habshi ki tarah islam k liye sakhtya bardasht karti to shayed is tarah ka blog nahi likhti bas ye to merne k baad hi pata chalega k konsa bilog acha tha ya bura our akher ye k logo ko rozedar k khof se nahi bal k islamic governament se khof hota he
آپ سے مجھے پورا اتفاق ہے مجھے تو خيرت ہوتی ھے کےاللہ تعالی کی دی ہوئ چھوٹ جو بيماروں اور ضعيفوں کےلے ھے لوگ وہ بھی نھيں لينے ديتے افسوس کے دين اسلام جو عين فطرت کےمطابق ھے اس کو غلط رنگ ميں پيش کيا جاتا ہے پليزاسلام کی روح کو سمجھيں بہت پيرا اور آسان مذہب ہے
محترمہ عنبر خيری
اسلام عليکم! آپ کی اور ميری سوچ ميں اس قدر مماثلت ہو سکتی ہے ميں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا ، ميں نے بھی حال ہی ميں ايک کالم ”رمضان ا لمبارک کی آمد آمد اور ہماری ذمہ دارياں” لکھا ہے - اور تقريبا ايسے ہی جزبات وخيالات کا ظہار کيا ہے - ہم لوگ رمضان المبارک ميں حالت روزہ ميں بہت زيادہ چڑچڑے اور جزباتی ہو جا تے ہيں - حالانکہ عبادت ميں تو انسان بہت زيادہ عاجزوانکسار ہو جا تا ہے - مگر ہم ہيں کہ ہر کسی کو مارنے پر تلے ہوئے ہوتے ہيں-ابھی دو دن قبل ميں دفتر سے نکلا تو دو آدمی آپس ميں اجھل رہے تھے ، ميں نے دريافت کيا تو کہنے لگے اس نے گزرتے ہوئے مجھے کاندھا مارا ہے - ميں نے کہا ابھی اس چھوٹی سی بات پر بات لمبی ہو جائے گی - اور آپ لوگ زخمی ہو کر تھانے پہنچ جائيں گے ، وہاں پو ليس اہلکاروں کی شکل ميں موجود ”سرجن ” موجود - وہ پھر آپ کا خوب علاج کريں گے - ان کو ميرا اشارہ سمجھ آگيا- اور اپنی غلطی کا احساس ہو گيا - تو ميں نے کہا کہ فورا ايک دوسرے کو گلے لگاو - بس بات اتنی ہے ، مگر ہم لوگ سمجھتے نہيں ہيں-
janab ,app ki batain tou achi hain per zara yeh sochain kay aik tou choti si job,salary kam,aur aik hazaar probelms ho tou yehi hoga ,opper say sakht garmi ,aur traffic jo office aanay janay main 2 say 3 ghantay lay lay
,abb yeh sari mushkilain ho tou banday kay kia ho ,yeh tou ham logon ki bardash t hay werna goray log tou aik dosray ko maar khaeen ,aur bhi bijli jati rahay
ہمارے ایک آفیسر صاحب فرماتے تھے کہ اللہ میاں نے دو ہاتھ دیے ہیں۔ ایک سے کام کیا کروں اور دوسرے سے ڈھول پیٹا کرو کہ تم نے یہ کام کیا ہے۔ شاید ہم لوگ جوش اطاعت میں بھول ہی جاتے ہیں۔ کہ عبادات کا تعلق بندے اور اللہ میاں کے درمیان ہے۔
مگر جناب سچ جانیے یہ میڈیا کا دور ہے۔ ہمیں تو آفیسر کی بات ہی بھلی لگتی ہے۔
يہ بات سراسر غلط ہے بلکہ لبرل حضرات کا پروپيگنڈہ ہے کہ لوگ رمضانوں ميں کسی بيمار کو يا چھوٹے سے بچے کو بھی کھاتا پيتا ديکھ کر خفا ہونے لگتے ہيں - عام طور پر لوگ صرف اس وقت چڑتے ہيں جب اچھے خاصے ہٹے کٹے لوگ نہ صرف يہ کہ کھلے عام کھا پی رہے ہوتے ہيں بلکہ روزہ داروں کا مزاق اُڑا رہے ہوتے ہيں ! سڑکوں اور بازاروں ميں ريسٹورنٹس کے دروازوں پہ پردے ڈال کر رمضان کا جو ”احترام” فرمايا جاتا ہے وہ بيماروں يا بچوں کے کھانے کا بندوبست کرنےکے لۓ نہيں ، بلکہ روزہ نماز سے بے نياز لبرل حضرات کو کھانا کھاتے وقت مولويوں ، ملاوٌوں اور ديگر روزہ داروں پر چبھتے فقرے کسنے اور مذھبی حضرات کا تمسخر اُڑانے کے لۓ مناسب جگہ کا بندوبست ہوتا ہے !
تبصرہ کرنے کی گنجائش ہی نہيں 101% ٹھيک لکھا ہے آپ نے،جب سب کی قبريں الگ الگ ہوتي ہيںاور اللہ کے سوا کوئ نہيں جانتا کے کس کے روزے قبول ہوۓ اور کس کی عبادتيں اسی لۓ سب کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہيۓ اور محض دکھاوے پر نہيں جانا چاہيۓ اور جو روزہ نہيں رکھتے انہيں خيال رکھ لينا چاہيۓ کے کوئ روزہدار کھاتے ہوۓ نا ديکھ لے آخر وہ بھی تو انسان ہے اسکا بھی تو دل اور پيٹ ہے اور جو روزہ رکھتے ہيں وہ اپنے غصے اور زبان پر کنٹرول رکھيں روزے ميں مارکيٹس ميں نا جايئں گھر پر آرام کريں ٹي وی ديکھيں اور مغرب کی اذاں کا انتظار کريں
Buhuth say log Ramazan ka mubarik maheena apnay garo sey dhoor pardes main guzarthey hain aksar mulko mey ramazan ka hathir hawa bandoobast bhee nahee hotha.....bahar jiss ka dill kurtha hay wo rozay raktha hay...aur apnay mulk key samosoo, pikoray, dahee balhoo aur muhabathon ko yadd kurkey ahhain burtha hay hamari tarah.
يہ بات ايک اچھے مسلمان کے وہم و گمان ميں بہی نہيں کہ روزہ دار بدمزاج ہوتے ہيں ـ
ايک سچا مسلمان بھت اچھی طريقے سے روزہ گزارتے ہيںـ
ہاں ! البتہ روزہ ان لوگوں پر بھاری ہوتی ہے ، جو 11 مہينے نسوار کرتے ہيں ، پان کھاتے ہيں ، يا سگريت چرس وغيرہ کے عادی ہوتے ہيں ـ
اور ان پر روزہ بھاری اسی لۓ ہونا بہی چاہۓ ، کيثنکہ يہ اللہ تعالی کی حکم کی نافرمانی کرتے ہيں۔
رضا صاحب درست لفظ صوم ہی ہے رمضان کے مہينے کو ماہ صيام بھی کہا جاتا ہے ،الصومُ جُنْتُ يعنی روزہ ڈھال ہے ،بچپن ميں يقيناْ پڑ ھا ہو گا شايد عنبر کے دماغ سے نکل گيا ہو گا،ميں نے تصحيح اس لۓ نہيں کی تھی کہ بی بی سی کی پاليسی ميں ہے کہ لفظوں اور گرامر کی غلطيوں پر کسی کو نا ٹوکا جاۓ ،ثوم بھی عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب لہسن ہے ، پنجابی ميں تھوم بھی اسی کی تھوڑی بگڑی ہوئ شکل ہے
دعاگو
شاہدہ اکرم
I can't agree more with you. If one fasts, fast for urself do not impose ur beliefs and sufferings on others. After living in dictaorships for centuries our muslim nation has become dictator itself. Which is not the spirit of Islam. God is not out there to destroy us God is Raheem. These mullahs are the ones to say God becomes angry!How do they know ? They are just beggers living on Sadqaat, Zakat etc and all because of them our prayers are not even heard by God anymore