انسان اور گدھا
پاکستان میں اپنے قیام کے دوران میرے ہاتھ بچوں کی ایک کتاب لگ گئی۔ ٹائٹل کچھ ایسا تھا کہ اس نے اپنی طرف متوجہ اور جب اسے پڑھنے لگا تو پھر پڑھتا ہی چلا گیا۔
’انسان اور گدھا‘ کے عنوان سے بچوں کی یہ کتاب سولہ صفحات پر مشتمل تھی اور اس میں مصنف نے بچوں کو کوئی سبق دینے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اور بہت سی باتوں کی طرح مجھ پر بھی کچھ الٹا ہی اثر پڑا یا یوں کہیئے کہ سبق ملا۔
کہانی کچھ اس طرح سے تھی بس ذرا لمبائی کی وجہ سے کچھ ایڈٹ کر رہا ہوں۔ ایک لڑکے کالو کے چھ بھائی اس کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں اور انہیں غم ہوتا ہے کہ ان کی ماں کالو کے ساتھ زیادہ پیار کرتی ہے اور ان سے کم۔ اسلیئے اس نے کالو کو ایک گائے زیادہ دی ہے۔ کیوں کہ وہ نا سمجھ ہوتے ہیں اسلیئے وہ اپنی بیویوں کے اکسانے پر کالو کی گائے ہلاک کر دیتے ہیں اور اسے اس کی کھال دے دیتے ہیں۔ کالو کیوں کہ چالاک ہوتا ہے اس لیئے وہ گائے کی کھال بیچنے چلا جاتا ہے اور راستے میں خزانہ پا کر بھائیوں سے جھوٹ بولتا ہے کہ بادشاہ نے اسے یہ خزانے کھال کے بدلے دیا ہے۔ بادشاہ کھالوں کا محل بنانا چاہتا تھا۔
بھائی اپنی اپنی گائے ذبح کر کے کھالیں بادشاہ کے دربار میں لے جاتے ہیں اور بادشاہ سے اصرار کرتے ہیں کہ وہ کھالیں خرید لے۔ بادشاہ غصے میں آ کر ان بیوقوفوں کو قید میں ڈالنے کا حکم دیتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ ’جب تک ان کے دماغ درست نہ ہوں انہیں آزاد نہ کیا جائے‘۔
قید خانے میں رہنے کے بعد بھائیوں کو پچھتاوا ہوتا ہے اور جب ان کے دماغ درست ہو جاتے ہیں اور سر سے حسد کا بھوت اتر جاتا ہے تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ گھر پہنچتے ہی ان کی بیویاں پھر کالو کی شکایت کرتی ہیں اور بھائی طیش میں آ کر اپنی اپنی بیویوں کو قتل کر ڈالتے ہیں۔ اس کے بعد وہ کالو کے پاس جاتے ہیں اور اس کی گائے کو ہلاک کرنے کے جرم کا اقرار کرتے ہیں۔ کالو نہ صرف انہیں معاف کر دیتا ہے بلکہ انہیں اپنے محل میں جگہ بھی دے دیتا ہے اور سب ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔ ختم شد۔
نتیجہ: کتاب کے مصنف نے تو اس سے کوئی نتیجہ نہیں نکالا مگر میں سوچتا ہوں کہ ننھے منے دماغوں پر اس باعقل مصنف کی باتوں کا کیا اثر پڑتا ہو گا۔ کیا نتیجہ یہ ہے کہ بیویوں کو قتل کر ڈالو اور ہنسی خوشی رہو۔ یا پھر بیویوں کو قتل کر ڈالو اور کالو سے اس کی گائے ہلاک کرنے کی معافی مانگ لو اور بیویوں کے قتل کا ذکر بھی نہ کرو۔ یا پھر کالو بن جاؤ اور بھائیوں سے یہ تک نہ پوچھو کہ بھائی بھابھیاں ’بری‘ سہی پر ہیں کہاں؟ سچ ہے کہ انسان بھی بالکل گدھا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
Is tarah ki bey shumar kahaniyan bazar mein available hain, jin ko parh kar na sirf hansi aati hay bulky kabhi kabhar new generation per reyham ata hay.
It is very interesting story and of course the question is: what a kid can learn from it. There are many writers who writes such nonsence and aimless stories for kids. Look at the dozens of digests that are published in Pakistan, there is nonthing inside except such stupid stories. But the people buy it at large number rather than other scientific, informative and factual ones.
It simply shows that ˿ and other international media always looking for these kind of stories which may be use to degrade Pakistan. In this case Arif Shamim is so observant that he is willing to write on these kind of topics. Same like that story at leaset. I am unable to understand your assessment of the column. Could you please explain what are you trying to say in this column?
پنجابی ميں کہتے ہيں ’جيو جیئے کون والے اُو جیئے کھان والے‘۔
Yes you are right some time we don't think what we are saying to our kids, we should be very carefull in this. Because children are like a blank hard disk, you can write whatever you want on it.
This is very good "BLOG". The point raised in your "BLOG" requires attention of "higher education management" for necessary change in our syllabus. There is no doubt that our bright future lies in the education, which we provide to our children.
App nay sach kaha insaan gadhaa hay warna aisay blaag na banata. Iss blaag ka kia maqsad tha.
انتہائی اہم موضوع پہ قلم اٹھايا ہے آپ نے- مجھے يقين ہے کہ اگر آپ ساری کہانی لکھتے تو اور بھی بہت سے نتيجے نکال سکتے تھے کيونکہ ’بچوں کی اس کہانی‘ ميں کالو نے اور بھی کافی کچھ کيا ہے- ہر بات سے اتفاق ہے مگر تحرير کے آخری الفاظ ’سچ ہے کہ انسان گدھا ہے‘ سے مجھے اختلاف ہے۔ ہاں رنگيلا مرحوم کے اس ڈائيلاگ سے مجھے مکمل اتفاق ہے ’ظالمو اينا ظلم نہ کرو کھوتا وی آخر انسان اے‘۔
محترم عارف شميم صاحب ، آداب ۔
خوب ’ بچوں کی کہانی‘ سنائی آپ نے ۔۔ لگتا ہے کہ کسی لولي وڈ يا بولی وڈ کی فلم کا آئيڈيا چرايا گيا ہے اور اگر نہيں تو مصنف کو چاہيۓ کہ فلم انڈسٹری سے فوری رجوع کرے ۔
عارف صاحب اگر يہ کسی درسی نصاب کي کتاب ہے تو آپ فوري طور پر حکومت کے محکمۂ تعليم کو لکھيں کہ اس کتاب کو خارج کيا جاۓ ورنہ بش انتظاميہ اسے دہشت گردي کي تعليم سمجھتے ہوۓ اس کا ازخود نوٹس لے کر خارج کروا دے گی ۔۔
بس دعا ہے کہ اس ملک ميں تعليم کے ساتھ مذاق نہ کيا جاۓ اور آنے والی نسل کو حقيقی اور سچی تعليم سے آراستہ کيا جاۓ تاکہ مستقبل محفوظ ہو اور ڈگری يافتہ لوگ نہيں بلکہ تعليم يافتہ افراد آگے آئيں ۔
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گريز تھا
ورنہ ہميں جو دکھ تھے بہت لادوا نہ تھے
خيرانديش
سيد رضا
برطانيہ
Sawaye hansi kay kuch nahi sooj raha. Its nice.
Dear Arif
Please do not waste your valueable time on such things, your readers do not expect these stories from you.
Blog ka maqsad kuch samjh main nai araha hay. Muggar haan itna zaroor hay k gadhy ka naam muft main badnaam hay! Wo ais liy k jitna bhi wo malik ki tabidari kary usay gadha or bewaqoof sumjha jata hay, jaisa k hamary Pakistan or hamary rehnomaon ka hall hay! Such karwa hota hay muggar bardasht karna parta hay!
پڑھ کر افسوس ھوا کہانی اور بلاگ دونوں پر۔ کہانی ميں بچوں کے ليئے ’قتل‘ کی اصطلاح کا استعمال ہےـ تصوير ميں گدھا نظر آ رہا ہےـ ایڈٹ کی گئی کہانی ميں گاۓ ہے جبکہ اخذ نتائج ميں بھينس ہے۔
جو بھی ہو انسان کے ليئے گدھے کا لفظ نامناسب ہےـ آخر بلاگ لکھنے اور پڑھنے والے بھي تو ہیں۔
زمانہ بہت خراب ہےـ
شميم صاحب ـ آپ ايک کہانی پڑھ کر اتنے گہرائی ميں چلے گۓ کہ ايک جانور کو بيک وقت گدھےـ گاۓ اور بھينس کے نام ديے۔
مارکيٹ ميں آج کل بہت ھی گرا ھوا مواد دستياب ہےـ اخلاقيات کا بھيڑا غرق کرنے والی۔
عارف بھائی کتاب کے مصفنف نے تو کوئی نتیجہ نہیں نکالا جو ٹھیک نہیں۔ لیکن آپ کا نتیجہ کہ انسان گدھا ہے بھی مجھے صحیح نہیں لگا۔ ایک مصنف جو انسان ہے اس کی بے وقوفی کو آپ گدھے سے کیوں تشبیہ دے رہے ہیں۔ کیا اس سے گدھوں کی دل شکنی نہیں ہوگی۔ شائد ہی کوئی گدھا اس قسم کی کتاب لکھے۔اگر آپ اس کی بجائے کہتے کہ پاکستان میں بچوں کےلیئے اچھی کتاب ڈھونڈنا ایک مشکل کام ہے۔ تو میں یقیناٰ آپ کے ساتھ اتفاق کرتا۔ اس قسم کے مصنفین کے ساتھ کیا کیا جاسکتا ہے۔ کیا اس قسم کے کتب کی سنسرشپ اظہار رائے پر قدغن شمار ہونی چاہئیے؟کیا خیال ہے؟
عارف بھائی لينے کو تو اس کہانی سے اور بھی بہت کچھ سبق ليا جا سکتا ہے اورآپ کے اس بلاگ کو پڑ ھ کر ہو سکتا ہے کچھ کو يہ اعتراض بھی ہو کہ کيا ہو گيا عارف بھائی کو بچوں کی کتابيں پڑ ھ کر ہم بڑوں اور عاقلان کُل کو سمجھانے بيٹھے ہيں۔ حالانکہ بات کچھ ايسی ہے کہ انسان اور معذرت خواہ ہوں ہم سب کے محترمين ميں شايد کچھ کمی رہی ہو گی جبھی تو خود سے کوئی فيصلہ نہيں کر پاتے جو کوئی کہہ دے وہی مان ليتے ہيں۔ کسی نے کہا کالو کی گاۓ کو ہلاک کر دو وہ کر ديتے ہيں حسد کا بھوت سر سے اترتا ہے تو پھر بيويوں کے طيش دلانے پر بيويوں کی شامت آ جا تی ہے اور ان کو قتل کر ديتے ہيں، يعنی بھائی صاحبان کو اپنے دماغوں پر اختيار بھی نہيں ہے اور نا ہی اعتبار جس نے بھی جو بھی کہا کرڈالا، کچھ يہی حال عام زندگی ميں بھی حضرات کا ہوتا ہے گھر سے باہر دنيا کو انگليوں پر نچانے کا دعويٰ کرنے والے ہمارے بھائی صاحبان گھريلو سياست ميں آکر زيرو کيوں ہو جاتے ہيں۔ اصل بات اور اصليت کو کيوں نہيں سمجھ پاتے کہ بيلينس کيسے کرنا ہے، کون ماں ہے کون بيوی اور کون بہن۔ ہر رشتہ محترم اور ہر رشتے کی اپنی ايک جگہ ہوتی ہے جو کوئی دوسرا اس کی جگہ نہيں لے سکتا اور يہاں بيلينس کرنا صرف مرد کا کام ہے جہاں وہ اکثر ناکام ہو جاتا ہے۔ ميرے ناقص دماغ ميں تو يہی بات آئی ہے کے مصنف بچوں کی اس کہانی ميں آگے جا کر مرد بننے والے حضرات کو يہ سبق دينا چاہتا ہے کہ دکھاوے پر نا جاؤ اپنی عقل لڑاؤ۔ آپ حضرات اور خواتين کيا کہتے ہيں نہيں جانتی کيونکہ ہر ايک کی نظر اور نظريہ جدا جدا ہوتا ہے کيوں؟
وا للہ اعلم باا لصواب
دعاگو
شاہدہ اکرم
Shamim sahab adaab, Bada dilchasp tabsara kiya hai aap ne bachchon ki ek ut pataang si kahaani ka. Haerat hai ke hamaare adeeb kahaan jarhe hain. Bachoon ke adab ka waise hi fuqdaan hai aise mein agar is tarah ki kahaania bachon ko padhne ko milen to phir bataiye kia hoga hamaari aane waali peedhiyon ka. Shukr hai ke aap ke bachche Urdu nahi padhte. Ye natija main ne aap ke haaliya blog se aqz kiya hai.
يہ تو آپ نے کسی فرضی کہانی کا ذکر کيا ہے مگر ہم تو دنيا کے حالات روز ٹی وی اور اخبارات پر دیکھتے ہيں جو کہ بچوں کي نظر سے بھي گذرتے ہيں۔ آج انسانی گوشت کے مقابلے ميں جانوروں کا گوشت مہنگا ہےـ ميں کوئٹہ ميں رہاتا ہوں ـ يہاں بچے کہتے ہيں بازار نہيں جاؤنگا بم پھٹے گاـ محرم کے جلوس پر فائرنگ ہو گي اور تو اور خدا بھی ہم سے ناراض ہے ہميں زلزلے کے جھٹکے ديتا ہے۔
يہ کتاب لگتا ہے مصنف نے مدہوشی ميں لکھ ڈالی ہے ۔پتہ نہيں کيوں لوگ بچوں کا لٹريچر لکھتے ہوۓ بھول جاتے ہيں کے بچوں کے نھنے منے ذہن اس وقت پروان چڑھ رہے ہوتے ہيں جو وہ پڑھيں گے، جو اس طرح کی کہانيوں سے سکھيں گے وہ آگے چل کر کريں گے۔ اگر شروع سے ہم خود بچوں کے لۓ لٹريچر پسند کريں ان کو اسلامی تاريخ، ملکی آزادی پر مبنی کتابيں ديں۔ سائنسی کتابیں جوکہ کہانيوں کی طرز پر ہوں تو ان میں مطالعہ کا شوق بڑھے گا اور جو معلومات ان کو اس وقت حاصل ہوگی وہ ساری زندگی ان کو ذہن نشين رہيں گی۔ اگر بچے انسان اور گدھا جيسی کہانياں پڑتے رہے تو ان کا خدا حافظ۔ ميری سب والدين سے گزارش ہے اپنے بچوں کوحالات حاضرہ سے بھی باخبر رکھا کريں اور خود ان کو خبريں اور دوسری معلومات پڑھ کر سنايا کريں اور سمجھايا کريں۔
توبہ ہے يہ مصنف ہے يا ہلاکو خان۔ یہ ضرور بيويوں کا سيريل کلر ہوگا اس کا اپنا ذاتی تجربہ اچھا نہيں ہوگا اپنی بيوی کے ساتھ۔ نفسياتی مريض بھی يہاں مصنف بن جاتا ہے اور کيا ضروری تھا ماں کے لاڈلے کا نام کالو اور اتنے سارے بھائی بہنيں نہيں تھيں کالو کي؟ يا بہنوں کو ان کے شوہروں نے مار ديا ہوگا بکريوں پر، ليکن ٹائٹل کا تو کہانی سے دور دور تک کوئی تعلق نہيں۔ ٹائٹل ايسے ہوتے ’ سات گدھے نما انسان، بيويوں کا قتل عام، بيوی اور فساد، بھائی چارے پر بيوياں قربان‘ وغيرہ وغيرہ۔ اتنی خون خرابے والی کہانی بچے تو ابھی سے سوچيں گے کہ بڑے ہو کر کيسے مارنا ہے بيويوں کو۔ شکر مصنف نے طريقہ نہيں بتايا قتل کرنے کا کہ تکيہ منہ پر رکھ کر دبا ديا، مٹی کا تيل چھڑک کر آگ لگادی يا پھر کلہاڑيوں کے وار کر کے مار ديا۔ لاسٹ بٹ ناٹ دا ليسٹ پنکھے سے لٹکا ديا مطلب رعايت کی ہے مصنف نے غريبوں کے معصوم بچوں کے ساتھ۔ ايسی کتابوں سے تو اچھا ہے بچے نونہال پڑھيں۔
محترمی و مکرمی عارف شميم صاحب
آپ نے بہت زبردست بات کی ہے اور ميں سمجھتا ہوں کہ ايک بہت بڑی غلطی کی نشاندہی کی ہے - ہمارے نصاب ميں اس کے علاوہ بھی بہت ساری غلطياں ہيں - اور کچھ بے مقصد کہانياں بھی شامل ہيں ، جو تاريخی اور سبق آموز کہانياں ہوتی تھيں انہيں ختم کر ديا گيا ہے - اب تو صرف کاغذ کالے کيئے ہوئے ہيں - مگر ہو سکتا ہے ”پنجاب حکومت مفت ” ميں بانٹ رہی ہے ، تو ظاہر ہے مفت کا کام تو ايسے ہی ہوتا ہے ناں ، حکومت پنجاب کہہ سکتی ہے کہ سبق حا صل کرنا ہے تو پھر خرچہ کرو ، ويسے ہماری سرکاری تعليم کا بھی بہت برا حال ہے - نہ جانے کلرکی والی سرکا ری تعليم کب ہماری جان چھوٹی گی۔
Bhai sahib agar ap ko gahdoon ko insan bananay ka itna shooq hai to Pakistan tashreef ley aien. Bahir beth kr batain karna assaan or muashray main reh kar islah karna mushkal hota hai. Jab ap ney asan rah ikhtiar kar li hai to ghadoon ko to na kosain.
ASSALAM WALAIKOM !!
ARIF SHAMEEM SAHIB ! ˿ WALAY HAR CHEEZ KA ULTA MATLAB QUON LAITAY HAIN ...IS STORY KA MAQSAD FRAUDI AWR JAAL SAAZ LOGON KA ANJAM DIKHANA MAQSOOD THA. BACHO KO BATANAY KI KOSHESH KEE GAYEE HAY KE AGAR KISI ORR KA BURA SOCHAINGAY TO AAP KAY SATH BURA HOGA .....THAT'S WHAT I GOT IT FROM THIS STORY.
Buhut acha matlab nikala sach main insan gadha hai.
mosanif our gadha our kiya kah saktay hain
اس پرمعني سمری ميں گاۓ کا ذکر توخوب رہا گاۓ بالکل ہاتھی جيسي ’زندہ لاکھ کا مردہ سوا لاکھ کا‘ رہی مگر بےچارہ گدھا کہيں ديکھنے کو نہيں ملا؟ ہاں گدھا مقدس ہے کہ اس پر عيسيٰ(ع) نے سواری کی تھی مگر يہ مغربی دنيا ميں بالکل ہی ناپيد ہيں۔ سارے اپنے ہی ممالک ميں پاۓ جاتے ہيں جہاں ان کی گزر بسر ناگفتہ بہ رہی ہے۔ اب ديکھۓ مغربی دنيا کالو کے محل کی طرح کب گدھوں سے بھرتی ہے ويسے ميرے خيال ميں بچوں کےادب میں قتل وغيرہ کی سازش مجرمانہ اور جھوٹ بول کر چھوٹ پانے کی ناول نگاری اور پلاٹ سازی سے اجتناب کرنا چاہۓ کہ اس سے بچوں کی ذہنی نشونما مجرمانہ ماحول ميں پلنے لگتی ہے۔
جناپ عارف شميم صاحب
آپ نے بہت گہری بات کی ہے اور ميں سمجھتا ہوں کہ ايک بہت بڑی غلطی کی نشاندہی بھی - ہمارے نصاب ميں اس کے علاوہ بھی بہت ساری غلطياں ہيں - اور کچھ بے مقصد کہانياں بھی شامل ہيں ، جو تاريخی اور سبق آموز کہانياں ہوتی تھيں انہيں ختم کر ديا گيا ہے - اب تو صرف کاغذ کالے کيئے ہوئے ہيں - مگر ہو سکتا ہے ”پنجاب حکومت مفت ” ميں بانٹ رہی ہے ، تو ظاہر ہے مفت کا کام تو ايسے ہی ہوتا ہے ناں ، حکومت پنجاب کہہ سکتی ہے کہ سبق حا صل کرنا ہے تو پھر خرچہ کرو ، ويسے ہماری سرکاری تعليم کا بھی بہت برا حال ہے - نہ جانے اس کلرک بيدا کرنےوالے سرکا ری تعليمی نظام سےکب ہماری جان چھوٹی گی۔
انسان اپنے علم اور سمجھ میں محدود ہے۔ وہ ہر مظہر کو مثل (مثال) سے ہی سمجھ سکتا ہے۔اور مثالیں یا تو مطا لعے سے ملتی ہیں یا ایک لمبی زندگی کے درد اور مصائب سہنے کے بعد۔
میں آپ سے سوال کرنا چاہتا ہو۔ کہ اگر بی بی سی آپ کو اس کالم لکھنے کے 2 روپے دے تو کیا آپ پھر بھی اتنے اعلی اورارفع خیالات کا اظہار کر سکیں گے؟ کیا پیٹ کا ستم آپ کو ہر اول فول بکنے پر مجبور نہ کر دے گا۔
مجھ اس کہانی کے مصنف سے ہمدردی ہے۔
Pakistan mein is tarah ka literature aur kahaniyan bachon ko parhaye jati hain, parh kar sakht afsoos howa hai... mere khayal se yeh kehna key INSAAN gaadhe hai, sakht galat ho ga.
This story simply tells the truth ''do good, have good or as you sow, so shall u reep, or tit for tat. This is a simple story to tell children the difference between evil and good. We cannot prevent children from becoming aware of the word 'murder'. These things have become part of our society but teachers should explain it negatively in the class. There is nothing to worry about it ..this is just a simple story for kids.
Pehli bat to yeh keh maghrabi musanifon ki bhi bachon ki stories mein ne perhi hein jin mein akhir main qatal hotay hei, aur anjam hansi khoshy. Reh gai baat gadhay ki to yeh intehai mehnti aur jafa kush janwer hey.
ايک دن گدھا اپنی بيگم کے ساتھ جا رہا تھا راستے ميں دو آدمی آپس ميں جھگڑ رھے تھے اور ايک دوسرے کو گالياں دے رھے تھے۔
گدھے نے بيگم سے کہا رک ذرا
ان ميں فيصلہ ھونے دے جو ہمارا بچہ ہو گا اس کو ساتھ لے کر جائيں گے۔