سائیکل کی ایجاد ترکیب کے ساتھ
بیڈ کی حد تک ٹھیک تھا، کتابوں کی الماری بھی چلو قبول ہے لیکن پوری کی پوری سائیکل۔ یہ ذرا کم ہضم ہونے والی بات لگی۔
بات کچہ یوں ہے کہ مغرب میں کئی ایسے سٹور ہیں جہاں سے آپ اگر چیزیں خریدیں تو وہ ’اسیمبل‘ یا جوڑنی آپ کو خود ہی پڑتی ہیں۔
حال ہی میں میں نے اور میری بیوی نے فیصلہ کیا کہ اب ہم دونوں جیون ساتھی اب زندگی دو پہیوں کی طرح، (الگ الگ سائیکلوں کے) ساتھ ساتھ گزاریں گے۔ سو انٹرنیٹ پر بیٹھے اور سائیکلوں کا آرڈر دیا۔ ایک دن گھنٹی بجی اور پارسل آیا۔ لانے والے سے گزارش کی کہ اندر پہنچا دے مگر اس نے ’یہ اتنا بھاری نہیں ہے‘ کہہ کر اپنا رستہ لیا۔
خیر سائیکل کو کھولا تو روح فنا ہوئی۔ پہیئے الگ اور ہینڈل الگ۔ گدی وہاں اور لائٹیں یہاں۔ مستری صدیق یاد آیا کہ سائیکل کی چین کو تیل لگوانے کے لیئے بھی اس کے پاس جاتے تھے اور وہ پورا پورا دن سائیکل رکھ کر اسے اوور ہال کرتا تھا۔
خیر بیوی نے ’مینول‘ جسے میرا بیٹا کنسٹرکشن کہتا ہے پڑھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ نٹ بولٹس جڑنا شروع ہوئے۔ معاملہ اٹکا جا کے ہینڈل کے ’چمٹے‘ اور اگلے پہیے کو جوڑ پر۔ نٹ کھل نہیں رہا تو اور جو اوزار ڈبے میں ساتھ آئے تھے وہ ایسا لگتا تھا کہ اسے کھولنے کے لیئے نہیں۔ خیر جیسے تیسے کر کے ایک طرف سے کھول لیا مگر دوسرا کہ کھلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ تھک ہار کر بیٹھے اور یہ پروگرام بنانے لگے کہ بازار سے جا کر نیا اوزار لے آتے ہیں کہ اتنے میں پیکنگ پر نظر پڑی جہاں لکھا تھا کہ اگر سائیکل جوڑنے میں دشواری ہو تو اس نمبر پر فون کریں۔ جھٹ سے فون کیا، بہت ساری آٹومیٹک آوازوں کے بعد ایک خاتون آئی۔ اسے مسئلہ بتایا تو وہ ہنسنے لگی اور فوراً کہا کہ کہیں کوئی نٹ کھول تو نہیں لیا۔ جواب ہاں تھا۔ کہا فوراً بند کر دیں۔ اور صفحہ نمبر گیارہ پر جائیں۔ گیارہ کھولا تو ادھر کا نقشہ ذرا مختلف تھا۔ اس خاتون نے بتایا کہ مینول میں دو طرح کے آپشن ہیں اور ہم نے یہ جو پتلی سی چیز دی ہے اسے پہیے اور چمٹے اور چمٹے کے سوراخوں کو ساتھ ملا کر گزارے اور بس نیچے کی طرف دبا کر کلک کر دیں۔ سائیکل تیار۔
اپنے آپ پر ہنسے بھی اور حیران بھی ہوئے۔ ارے یہ تو سائیکل بن گئی۔ جس نے سائیکل ایجاد کی ہو گی وہ ہماری خوشی کا بخوبی اندازہ کر سکتا ہے۔
یہ سب کیا دھرا آئکیا کا ہے جس نے انیس سو چھپن میں پہلا فرنیچر بنایا جسے گھر جا کر جوڑا جا سکتا تھا۔ پھر کیا تھا ہر چیز ہی اس طرف جانے لگی۔ اب تو سنا ہے کہ اب گھر تک کمنی سے پیک آیا کریں گے اور آپ خود ہی اسے کھول کر بنا لیا کریں گے۔
فائدہ: لینٹر ڈالنے کی دیگ نہیں دینے پڑے گی۔
تبصرےتبصرہ کریں
آپ نے تو دل کی باتيں لکھ ديں ہيں ۔ ہم بھی کئ بار ان تکليف دہ مراحل سے گزر چکے ہيں اور پھنس بھي چکے ہيں ! ميں توآئيکيا کے نام ہی سے گھبراتا ہوں ميری اہليہ اگر کبھی وہاں جانے کا کہتی ہيں تو کپکپی چڑھ جاتی ہے اور ايک مزے کی بات آپ سے بانٹ لوں ميں نے تو اپنے ڈاکٹر ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ اس کيفيت کو ايک نام بھی دے ڈالا ہے اور وہ ہے ۔۔ آئيکياآئٹس !! اس کی علامات تو آپ بتانے کی ضرورت نہيں ؟!
اپنا اور ہم سب کا بہت خيال رکھۓ گا ۔
نياز مند
سيد رضا
برطانيہ
SHAMEEM BHAI IKEA SAY KIYA DANA, THORA BAHOT TECHNICAL TO MAIRA KHAYAL HAI HAR BANDAH HOTA HI HAI, ACHA HAI NA LAHOO GARM RAKHNAY KA IK BAHANA BHI HO JATA HAI NA. IN TOOLS KAY ISTEMAL SAY LAKIN AIK BAT HAIRAN KAR RAHI HAI SAB BATON KO CHOR KAR KAH LONDON MAIN REHTAY HUAY BHI AAP DONON CYCLIST HAIN, WAO LAKIN KIUN, CHALO AAB TO AAP DONON CYCLE MALIKAN HO GAY LAKIN WOH DAIG KA KIYA HO GA ,CHALAIN CHORAIN MAIREE TARAF SAY AAP ICE CREAM KI HI TREAT LAY LAIN.
Shahida Akram
پہلی دفعہ ايسا مضمون پڑہا سچ بہت مڑا آيا
شميم بھائی بہت خوب لکھا ہے- پڑھ کر مزہ آيا-
قبلہ عارف شميم صاحب! اگر پطرس بخاری مرحوم کے مشہور مضمون „مرزا کی بائسيکل،، کے کردار مرزا کو IKEA يا اس جيسے ملتے جلتے سٹور اچھی سی سائيکل مل جاتی تو شايد آج ہم پطرس بخاری مرحوم کی اتنی اچھی پُر مزاح تحرير سے محروم رہ جاتے
جناب عارف شميم صاحب ناچيز نے ايک تبصرہ آپ کے بلاگ کے واسطے لکھا تھا مگر نجانے کس غلطی سے وسعت صاحب کے بلاگ پہنچ گيا اور شائع بھی ہوگيا وسعت صاحب کی وسعت ِ قلبی کے باعث !
ملتمس ہوں کہ آپ اسے پڑھ ليجيۓ گا اور اگر ممکن ہو تو اپنے بلاگ ميں بھی جگہ دے ديجيۓ گا مشکور ہوں گا ۔ اس سہواً غلطی کی معزرت قبول فرمايۓ ۔
معافی کا خواستگار
سيد رضا
برطانيہ
Baray baray desho mai esi choti choti baten hoti rehti hain , Dilwale Dulhaniya Lejayege movie ka ye dialogue yad aagya apka blog parh ker.
سليم بچپن ہي سے سائيکل سوار رہا تھا۔ نہر سويز کي جنگ ميں وزير خارجہ سر ظفراللہ کے خلاف جلوسوں ميں جب اسکی سائيکل نا قابل مرمت قرار پائی تو اس نے بےساختہ اپنی چچا زاد بہن سے کہا ’نی اونڑ سائيکل نہيں رہي تيری مري سواری دا دور ہی لد گيا‘۔ اس پر بالی بولی ’ارے بھائی ايسی بھی کيا؟ چچاجی سے کہيو نئی سائيکل لےدينگے‘۔ رات کو کھانے پر جب جنگ کی بحث چلی توسليم بولا ’مٹی پاؤ جی جلوسوں ميں ميری سائيکل پج گئي‘۔ اس پر والد نے کہا ايسی بھی کيا بات، اب کے تجھے ريلے سائيکل لے دونگا۔ ہاں بس ذرا توميرے بھائی کی لڑکي بالی سے ويا کی ہاں کردے اور اس رات سارے ہی فيصلے ہو گئے۔ اگلے ہفتے شادي کے بعد ايک دن سليم تيزی سےسائيکل چلاتے گھر پہنچا تا کہ ابو کو جنگ بندی کی خبر دے جلدی ميں اس نے اسٹينڈ صحیح نہيں لگايا اور جيسے ہی سائيکل گری سليم کی دلہن بےساختہ چلائي’بھيا سائيکل گرگئ‘ ۔ اس پر قہقہہ اٹھا اور چچی بولی ’ارے يہ ابھی سے بہن بھائی بن گئے بوڑھے ہوں گے تو اللہ رسول بنيں گے‘۔
جناب عارف شميم صاجب ايک بات تو بتاديں کہ ٰ ٰ اميرالمومنين ٰ ٰ کی ٰ ٰ سيکل ٰ ٰ کيا آئيکيا سے منگوائ گئ تھی ۔؟
جواب کا منتظر
سيد رضا
برطانيہ
shadi ki pahli rat mugaay be kuch ise kisam ki soratay hal say wasta partha tha jo ap ko saikal ko samaganay may pardha bahral khoushi ye hay k ap ko sycal ki samag a gai or mugay b merey bv ki mukmal agahi seraf aik rat mi hi bagayr kisi ki kay madad hasal ho chuki hay or hum khosh hain khuda ap ko bhi khoush rakhay