سربنیتزا: اب مستقبل کیا؟
بارہ جولائی 1995 وہ تاریخ ہے جب بوسنیا کی جنگ کے دوران سربیائی فوجوں نے سربنیتزا میں اقوام متحدہ کے ڈچ امن فوج کے احاطے میں پناہ لیے ہوئے مسلمانوں کو منتقل کرنے کا عمل شروع کیا تھا۔
خونریزی کا سلسلہ پانچ دن تک جاری رہا۔
تقریباً 23 ہزار بوسنیاک (بوسنیائی مسلمانوں) کو سرب فوج لے گئی اور لے جانے سے پہلے ہی انہوں نے قتل اور تشدد کا سلسلہ شروع کر دیا۔ سربنیتزا کے قتل عام میں آٹھ ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو ہلاک کیا گیا۔ ان کی لاشیں دیگر اجتماعی قبروں میں ڈال دی گئیں۔
سرب فوجوں نے بڑے پیمانے پر بوسنیائی بچیوں اور خواتین کو جنسی تسدد کا نشانہ بنایا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑی خـون ریزی کی بد ترین مثال بتائی جاتی ہے۔ اس واقعہ کو سولہ برس گزر گئے ہیں اور آج اس کا ایک بڑا مجرم سربیائی جنرل ملادِچ ڈھٹائی سے دا ہیگ کی عدالت میں کٹہرے میں کھڑے ہو کر عدالت سے بد تمیزی کر رہا ہے۔
کئی مجرموں کو جنگی جرائم کی عالمی عدالت میں سزا سنائی جا چکی ہے اور حال ہی میں نیدرلینڈز کی ایک عدالت نےڈچ ریاست کو اس واقعے کا ذمہ دار قرار دیا ہے کیونکہ بقول عدالت کے ڈچ افواج کو بوسنیائی مسلمانوں کو سرب فوج کے حوالے نہیں کرنا چاہیے تھا۔
اس سب کے بارے میں سوچ کر کئی سوالات سامنے آتے ہیں۔ کیا احتساب کے اس دیرینا سلسلے سے ان لوگوں کو کوئی تسلی ملےجن کے خاندان والوں کو ان کے سامنے قتل کر دیا گیا؟ اور کیا ان عدالتی فیصلوں سے طاقتور ممالک کے عالمی سطح پر کیے جانے والے فیصلوں پر کوئی فرق پڑے گا؟
اس قتل عام میں بہت سے مرنے والوں کی کے ذریعے اب شناخت کی جا سکی ہے اور ان کی تدفین سے ان کے سوگواروں کو کچھ تسلی ملی ہے۔
جنرل ملادچ جیسے لوگوں کو مثال بنانا اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے بہت سے حامی اس خطے مں آج بھی موجود ہیں اور ان لوگوں نے برسوں تک ان کو اپنی حفاظت میں چھپا کر رکھا ۔ پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سربوں کی جارحیت میں مذہبی قومیت اور شناخت کا پہلو اہم تھا۔ ان افواج کو مشرقی عیسائیوں کے روہانی پیشواؤں (اورتھوڈاکس چرچ) کی حمایت حاصل تھی حتی کہ یونان سے بھی بہت سے اورتھوڈوکس افراد اپنے عیسائی بھائیوں کے ساتھ لڑنے آئے تھے۔
ایسے جذبات کے حامی اب بھی اس علاقے میں رہتے ہیں۔ بوسنیا کے سرب الگ علاقوں میں رہتے ہیں، مسلمان الگ علاقوں میں۔ سکولوں میں نصاب الگ پڑھایا جاتا ہے۔ یہاں جنگ کے یہ زخم شاید صدیوں تک نہ ٹھیک ہو سکیں۔ اور اس کی ایک جیتی جاگتی مثال آپ کو ملک کے یتیم خانوں میں نظر آئے گی: میں جن کی ابھی تک سرکار نے کوئی شناخت نہیں کی ہے، کیونکہ یہ جنگ کے دوران بوسنیائی خواتین پر سربوں کے جنسی تشدد کا نتیجہ ہیں اور ان کی پیدائش کا ریکارڈ نہیں ہے لہذا ان کے پاس کسی قسم کے کوئی شناختی کاغذات نہیں ہیں۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہم یعنی ہم انسان نفرت، خون ریزی اور ظلم کے سارے حدودو پار کرنے کے بعد پھر اپنی انسانیت پر واپس کس طرح آ سکتے ہیں؟ نفرت اور انتقام کے ذریعے یا پھر کسی طرح کی مفاہمت اور معافی کے ذریعے؟ تاریخ نے ہم کو کیا سبق سکھایا ہے؟
تبصرےتبصرہ کریں
اپکا یہ سوال کہ’ ہم یعنی ہم انسان نفرت، خون ریزی اور ظلم کے سارے حدودو پار کرنے کے بعد پھر اپنی انسانیت پر واپس کس طرح آ سکتے ہیں؟ نفرت اور انتقام کے ذریعے یا پھر کسی طرح کی مفاہمت اور معافی کے ذریعے؟ تاریخ نے ہم کو کیا سبق سکھایا ہے؟ ‘، نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے - میرا خیال ہے کہ انسان کی تربیت ضروری ہے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے
‘جانور، آدمی، فرشتہ، خدا
آدمی کی ہیں سینکڑوں قِسمیں‘