شامت کسی اور کی۔۔۔
پاکستان اور امریکیوں میں سرکاری سطح پر دوستی اور تعلقات میں گرمجوشی کے بیانات اپنی جگہ لیکن دونوں ممالک کے خفیہ اداروں کے درمیان شک اور عدم اعتماد کی فضاء کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
سات ارب ڈالر کے کیری لوگر بل کے ہمراہ امریکہ نے جو بےشمار امریکی پاکستان روانہ کیے تھے ان سے پاکستانی خفیہ ادارے کافی پریشان ہیں۔ ایک وجہ تو یقیناً کام بڑھ جانا ہوگی کہ اتنی بڑی تعداد میں امریکیوں پر نظر کیسے رکھی جائے۔
ہر ملک کی خفیہ ایجنسیاں دوسرے ممالک کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ 'بلیک واٹر' اور 'آیکس ای' کے نام بچے بچے کی زبان پر آنے کے بعد امریکیوں پر شک میں عوامی اور انٹیلجنس اداروں کی حد تک کافی اضافہ ہوا ہے۔ لیکن یہ اس ملک میں کوئی نئی بات نہیں۔
سال دو ہزار چار میں شائع ہونے والی ایک کتاب 'حساس ادارے' میں مصنف بریگیڈیر (ر) سید احمد ارشاد ترمذی نے، جو آئی ایس آئی کے ڈائریکٹریٹ جنرل میں چیف اسٹاف رہ چکے ہیں، امریکیوں کی جاسوسی کے کئی دلچسپ واقعات لکھے ہیں۔ ان کی کتاب کے امریکہ سے متعلق حصے کا آغاز ہی سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے اس اعترافی جملے سے کیا گیا کہ 'امریکہ سے دشمنی مول لینا خطرناک ہے، لیکن امریکہ سے دوستی اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔'
ان صاحب نے لکھا ہے کہ کس طرح ایک امریکی شہری بوب کے مکان پر انہوں نے اسلحہ نکال کر ایک جگہ پھینک کر پولیس کے ذریعہ ضبط کروایا یا پھر اسلام آباد کی امریکی انٹرنیشنل سکول میں ایک استاد ریگن کو بھی تھوڑی سی منصوبہ بندی سے ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ وہ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ہمارے گلی کوچوں اور دفاتر میں اتنے بوب اور ریگن پھر رہے ہیں کہ ان کا قلع قمع کرنا کسی ایجنسی کے بس کی بات نہیں۔ لہذا ہر پاکستانی کو نظر رکھنی چاہیے۔
معلوم نہیں کہ لاہور میں پیش آنے والا افسوسناک واقعہ 'جان ریمبو' ذہنیت کا یا دونوں ممالک کے خفیہ اداروں کے درمیان چل رہی 'سرد جنگ' کا نتیجہ تھا۔ لیکن شامت کسی اور کی آگئی۔
تبصرےتبصرہ کریں
ہاتھیوں کی لڑائی میں ہمیشہ گھاس ہی کی شامت آتی ہے۔
پيارے پاکستان چور کو چور پر نظر رکھنا پڑ تی ہے۔
ہمارے پاکستانی حکمرانوں نے ہميشہ سے بيرونی دنيا بشمول امريکہ سے پاکستانی عوام کی آزادی کو گروی رکھ امداد کے نام بھيک لی اور ابھی تک لے رہے ہيں۔ ہمارا دوست امريکہ آج تک جس خطے ميں بھی گيا، جس بھی ملک کو امداد دی اور دوستی بنائی اسی ملک يا خطے ميں انتشار، بد امنی اور شر پھيلا۔ اس سے ثابت ہوا کہ ہمارا دوست امريکہ پرامن دنيا کے ليے ايک شر ہے۔ لاہور کے واقعہ کا نوٹس اور اس کا حل قانون اور پورے انصاف کے ساتھ ہونا چاہيے اور بيرونی يا اندرونی دباؤ کو خاطر ميں نہ لايا جاۓ۔
جو حالات اس وقت ہیں عوام کو لازمی پاکستان کو چوروں اور ڈاکوں سے بچانے کے لیے آگے آنا ہوگا۔ کوئی بھی صدر، وزیر اعظم یا وزیر اعلی کوئی بھی تو مخلص نہیں۔ آج پاکستان کے لیے ہمیں ایسے حکمراں کی ضرورت ہے جو چوبیس گھنٹے کام کرے، ملک کو مشکلات سے نکالے۔
يہ ڈبل گيم کا حصہ ہے۔ جب حاکم و محکوم کا رشتہ ہو تو ايسا ہی ہوا کرتا ہے۔ ہے کسی ميں ہمت يا باالفاظ ديگر ہے کوئی مائی کا لال جو ان کا کچھ بگاڑ سکے؟ جب ڈالر مليں اور ہم ان کو بخوشی قبول کر ليں تو يہی ہوگا نا۔ بہرحال قتل ہونے والوں کے لواحقين انصاف طلبی کا مطالبہ کريں گے اور امريکی اہلکار جنيوا کنوینشن کے تحت بريت پا کر عازم امريکہ ہو جائے گا۔
یہ تو اس اہلکار کی بدقسمتی ہی کہیے کہ وہ عوام کے ہتھے چڑھ گیا، ورنہ پاکستانیوں کے خون سے ہولی کھیلنا تو دنیا بھر کی ایجنسیز کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ جب کسی قوم میں ملی حمیت کے بھاؤ تاؤ کو چابکدستی اور کمال فن سمجھا جاۓ تو یقیناً اس طرح کے سانحے جنم لیتے رہیں گے۔ چند کھنکتے نوٹوں کے بدلے قوم کی سلامتی اور خود داری کو گروی رکھوانے والے جب عوام کو معاشی خوشحالی کی نوید سنا رہے ہوتے ہیں تو ان کی قصیدہ گوئی کے فن میں محصور قوم ان دیکھی غلامی کی طرف توجہ نہیں کر پاتی، پھر اسے سیاستدانوں کی عاقبت نااندیشی کا نام دیا جاتا ہے، یا پھر اغیار کی سازش کہا جاتا ہے۔ حقیقت میں یہ ان ہزاروں المناک واقعات میں سے صرف ایک ہے جنہیں دبا دیا جاتا ہے۔
اے کاش ایسا ہو جائے مگر ہمارے رہنما شیر ہوں یا تیر سب امریکہ بہادر سے ڈرتے ہیں۔ کچھ نہیں ہونے والا۔ وہ کچھ دن بعد امریکہ میں ہوگا، ہم لوگ بھی ایک آدھ ہفتہ شور مچائیں گے پھر سب بھول جائیں گے۔ سو اتنی ٹینشن نہ لیا کریں میرے پاکستانی بھائیوں بس موج کرو۔
گداگروں کی کوئی عزت احترام نہیں ہوتا ہے۔
سامراج سے دشمنی بری، اور دوستی بدتر!
یہ خطہ عجیب وغریب، پیچیدہ حالات کا شکار ہے، سامراجی نظام کی پروردہ سپرپاور کی یہاں موجودگی، اور اس کی جانب سے دیگر، ابھرنے کی کوشش میں مصروف سوشلسٹ قوتوں پر نظر رکھنے کے عمل نے پاکستان، افغانستان اور کسی حد تک ہندوستان کو بھی مخمصے کے غلیظ دریا میں دھکیل دیا ہے۔ معروف تجزیہ نگار، عارف عزیز نے اسے مفادات کی ایسی جنگ قرار دیا تھا، جس کا نتیجہ ہر فریق کی شکست کی صورت میں نکلتا ہے۔
اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے۔ اس ریاست میں ایک دوسرے کو شک کے نگاہ سے دیکھنا مجبوری بن گئی ہے۔ جب ہم، ہم مذہب، ہم زبان اور ہم مکان پر شک کرتے ہیں، تو سامراج کے نمائندوں کو کیسے چھوڑ دیں۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور امریکی کا معاملہ ایک ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ آفیہ کے خلاف ثبوت نہیں اور امریکی کے خلاف ہیں۔
یہ شاید بہترین موقع ہے کہ ہم پاکستانی یہ ثابت کر دیں کہ ہم امریکہ کہ غلام نہیں ہیں۔ ہمیں ریمنڈ ڈیوس کو ہمارے قانون کے مطابق سزا دینی چاہیے۔ لیکن مجھے شک ہے ہمارے سیاستدان اسے چھوڑ دیں گے۔ وہ ہماری تاریخ کا سیاہ دن ہوگا۔
اے پاکستان کے لوگوں ایک ہو جاؤ ورنہ دشمن تمہارے دروازے پر ہے۔
سرکاری سطح پر جس شدت سے پاکستان اور امریکہ دونوں ممالک میں ‘دو جسم مگر اک جان ہیں ہم، اک دل کے دو ارمان ہیں ہم‘ راگ الاپا جاتا ہے، اسی شدت سے ملک کی تمام مذہبی تنظیمیں اور جماعتیں خصوصا جماعتِ اسلامی، امریکہ کو ‘دوسرا بھارت‘ سمجھتی ہیں اور اظہارِ نفرت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ محبت و نفرت کا یہ اظہار ملکی بقاء و ترقی اور عوام کی بھلائی کی غرض سے نہیں بلکہ حکومت اپنی کرسی کی سانسیں لمبی کرنے اور مذہبی جماعتیں اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے کرتی ہیں۔
قطع تعلق لوگوں میں ‘ضیائی میڈیا‘ اور ‘ضیائی اسلامائزیشن تحریک‘ کے اثرات کے لاشعور میں پیوست ہو جانے کے، عوام کے پاس اتنی فرصت ہی نہیں ہے کہ وہ محبت یا نفرت کے لیے وقت نکال سکیں کہ عوام تو مہنگائی کے بھوت، بیروزگاری کے طوفان، دہشتگردی کے خوف، شدت پسندی کے سائے اور بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ کے جِن سے بچنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنا سارا وقت اور توانائی صَرف کر رہے ہیں اور کسی نہ کسی طرح اوکھے سوکھے ہو کر زندگی کی گاڑی کو آگے گھسیٹ رہے ہیں۔
جب عوام کی نفسیات کی یہ حالت ہو تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غیرملکیوں کا پاکستان میں بغیر سیکورٹی کے سڑکوں پر نکلنا کیسے درست اور دانشمندانہ عمل ٹھر سکتا ہے؟ پاکستان میں تو غیرملکیوں کو نشانہ بنانے کے واقعات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں اور ان غیرملکیوں سے زیادہ چائینز انجینئرز کے اغوا و قتل و حبسِ بے جا کے واقعات ہو چکے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس چونکہ امریکی ہیں لہذا ان کو تو زیادہ حفاظتی و احتیاطی تدابیر کا استعمال کرنا چاہیے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کا بغیر سیکورٹی کے، اکیلے ہی آزادانہ سڑکوں پر سفر کرنا سِرے سے ہی سمجھ سے بالاتر ہے اور ساتھ ہی ساتھ بہت سے سوالات کے ساتھ شکوک و شبہات کو بھی جنم دیتا ہے۔ اس تناظر میں مزنگ چونگی واقعہ کو ذہن میں لانے سے ملکی اور غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کی کارستانیاں ازخود ذہن میں ڈیرے آ جمانے لگتی ہیں۔
تکنیکی نقطہ نگاہ سے مزنگ چونگی، لاہور کے واقعہ کا جائزہ لیا جائے تو یہ ڈکیتی ہی معلوم ہوتی ہے۔ راقم السطور نے جائے واردات کو دیکھا ہے جو کہ مزنگ چونگی بس سٹاپ پر بنے ہوئے ‘اوور ہیڈ برج‘ کے ساتھ جیل روڈ کے عین آغاز پر واقع ایک نجی بینک کے بالکل سامنے واقع ہے۔ ایک طرف لاہور کی یہ جیل روڈ ‘وی آئی پی‘ شخصیات کے لے زیادہ استعمال ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف جیل روڈ کے دونوں اطراف کاروں کے شو رومز کی ایک لمبی قطار بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں پر امیر طبقہ کے لوگ ہر وقت آتے جاتے رہتے ہیں۔ اس محل وقوع کے پیش نظر، جرائم پیشہ افراد کے لیے ڈکیتی کی وارداتیں کرنے کے لیے جیل روڈ جہاں کافی ‘پُر کشش‘ اور ‘سازگار‘ ٹھہرتی ہے وہیں فرار کے بہت سے کشادہ راستے بھی نکلتے ہیں۔ بہرحال یہ سوال بھی اپنی جگہ گھمن گھیری ڈالتا ہے کہ اگر ڈکیتی کی واردات ہی تھی تو ریمنڈ ڈیوس کو ایک آدھ فائر پر ہی اکتفا کرنا چاہیے تھا، گولیوں کی بوچھاڑ کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ ملک میں امن و امان کی مجموعی صورتحال اور ‘ڈرون حملوں‘ پر ایک نظر ڈالی جائے تو لگتا ہے کہ ریمنڈ کے ذہن میں ‘خود کش حملہ آور‘ کی شبیہ نے انہیں گولیوں کی بوچھاڑ کرنے پر اُکسایا۔۔۔۔۔ !
‘گفتار کے اسلوب پہ قابو نہیں رہتا
جب روح کے اندر متلاطم ہوں خیالات‘
امریکی شہری نے اپنے تحفظ کے لیے دو ّڈاکوّ مار دیے تو کیا جرم کیا مگر پاکستانی سیاست دان کھل کر یہ کہنے کی بجائے دبی زبان میں گول گول بیان دے رہے ہیں کیونکہ ان کو ووٹوں کی فکر ہے۔ پاکستانی میڈیا بھی خبر یوں لگاتا ہے "تہرے قتل کا امریکی ملزم" اس خبر سے امریکہ کے خلاف نفرت پیدا کی جا رہی ہے جبکہ ڈاکوؤں کو ڈاکو نہیں بلکہ پاکستانی شہری کہہ کر ان کا جرم گھٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
جو ہوا سو ہو اب کوئی سیاستدان بیچ میں نہ آئے اگر افتخار چوہدری اس کو سزا دے اور سزا ہو جائے۔ اگر دباؤ زیادہ ہو تو آفیہ کو بچانے کا سنہرا موقع ہے۔
بس اللہ خیر کرے۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کیا ہو رہا ہے؟ ابھی تک معاملہ پیچیدہ سا ہے۔ انتظار کرنا پڑے گا۔
پاکستان میں امریکی مخالف جذبات کئی دہائیوں سے موجود ہیں اور اس میں روز بہ روز اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ عوام امریکی پالیسیوں کے خلاف ہے جبکہ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کا یہ حال ہے کہ اپنے ملک میں ہونے والے تمام فیصلوں کی توثیق کے لئے امریکا کی جانب دیکھنا ان کا فرض ٹھہرا ہے۔ بات اپنے ملک میں کسی اصلاحات کے نفاذ کی ہو یا کسی سیاسی گٹھ جوڑ کی، امریکا ہمارا ڈکٹیٹر ہے جس کے ہر فیصلے پر سر تسلیم خم کرنا ہمارا فرض ہے۔ پاکستان میں امریکا کے لئے متضاد رویئے موجود ہیں۔ کہیں امریکی قونصل خانوں کے باہر ویزوں کے اجراء کےلئے قطاریں طویل تر ہوتی جا رہیں اور کہی ایسا طبقہ بھی ہے جو امریکی حکم کو ماننے سے انکاری ہے۔گذشتہ دنوں لاہور میں امریکی شہری کی جانب سےہونے والی فائرنگ کےنیتجے میں دو ادافراد ہلاک ہوگئے تھے جبکہ فرار ہو نے کی کوشش میں ایک اور شخص اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اب بےچاری ہمارے حکومت جائیں تو جائیں کہاں کے مترادف مخمصے کا شکار ہے۔ امریکی شہری نام کی مچھلی اب نہ نگلتے بن رہی ہے اور نہ ہی اگلتے۔۔۔۔۔امریکی شہری کی شناخت بھی تاحال مشکوک ہے۔ پاکستان میں آئے دن فائرنگ کے واقعات میں کئی افراد ہلاک ہوتے ہیں لیکن لاہور میں فائرنگ سے ہونے والی ہلاکتوں پر عوام کا ردعمل شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں یہ مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کے بدلے امریکی شہری کی حوالگی پر غور کیا جائے۔ امریکا کے خلاف غم و غصہ تو پہلے بھی موجود تھا لیکن اس میں شدت ڈرون حملوں کے بعد آئی ہے۔ اب پاکستان اور امریکا اس معاملے پر کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں اس کا انتظار دونوں ممالک کی اقوام کو ہے؟
مدعی لاکھ برا چاہے تو کيا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
پاکستان میں انقلاب آنا چاہیے کیونکہ ہمارے حکمران اور سیاسی جماعتیں یہ بھول گئی ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور یہاں ہر قانون اسلام کے مطابق ہونا چاہیے۔