وائٹ ہاؤس کی مارٹگیج
جب جنوری دو ہزار نو کو امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں امریکہ کی تاریخ بدلتے براک اوباما نے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا تو شہری آزادیوں کی تحریک کے مقتول رہنما مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے ایک ساتھی اور اب جارجیا ریاست کے سینیٹر جان لوئیس نے کہا تھا 'آج مارٹن لوتھر کنگ کے خواب کی تکمیل کی پہلی قسط یا ڈاؤن پیمنٹ ہوگئی ہے'۔
آپ کو یاد ہوگا یہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر با المعروف ایم ایل کے جے کی اس پیغمبرانہ تقریر کا تاریخی جملہ اور مرکزی نقطہ تھا 'آئی ہیو اے ڈریم'، جو انہوں نے واشنگٹن میں نسلی امتیاز کے خاتمے کیلیے جمع ہونے والے دو لاکھ لوگوں کے اجتماع سے خطاب کے دوران کہا تھا۔
لیکن دنیا میں سب سے بڑا بحران خوابوں اور توقعات کا ہوتا ہے۔ امریکہ جو تھا ہی کبھی خواب میں چلنے اور ان کے سچے ہونے کا نام وہاں بھی امریکی خواب اگر مرا نہیں تو ٹوٹا تو ہے اور اس سے جاگنے والوں کے پاؤں اس ٹوٹے خواب کی کرچیوں سے زخمی ضرور ہوئے ہیں۔ اوباما کا امریکہ کے صدر کے طور پر آنا ان ٹوٹے ہوئے خوابوں پر چل کر آنے کا نام تھا۔
لیکن بش دور کے چھوڑے ہوئے ترکوں یعنی جنگوں اور کساد بازاری میں اوباما خواب کہاں تک بیچے۔
سابق صدر جارج بش کے چھوڑے ہوئے ترکے میں 'اکنامک میلٹ ڈاؤن' کو امریکہ کا اقتصادی سونامی قرار دیا جاتا ہے جس سے سب سے زیادہ متاثر دنیا کے اس امیر ملک کے غریب لوگ ہوئے۔ مڈل کلاسز ، ورکنگ فیملیز اور اقلیتی محنت کش۔ سب سے زیادہ نقصان گھروں کے شعبے میں ہوا جب لوگ دگرگوں معاشی حالات میں اپنے گھروں کے مارٹگیج یا قسطیں نہیں دے سکے اور کئی بے گھر ہو کر سڑکوں پر آگئے۔
نیویارک سمیت امریکہ میں کئی محلے اور علاقے ایسے بھی ہیں جو تاریخی طور پر تھے تو سیاہ فام یا افریقی امریکی نژاد لوگوں کے لیکن جنہیں اب دیگر نسلی گروپوں نے لیا ہوا ہے۔
لیکن تاریخی بات یہ تھی کہ تاریخ میں پہلا سیاہ فام صدر وائٹ ہاؤس کا مکین ہے۔ دنیا میں ٹوٹے ہوئے خوابوں اور وائٹ ہاؤس کے درمیاں پل جڑنے لگے۔ لیکن یہ سب وہ 'خواب لے لو خواب' والی بات تھی کہ اب ان سے اسلامی دنیا سے لیکر ایڈز کے خلاف کام کرنے والے سب ناراض لگتے ہیں۔
'وہ بھی امریکی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہوگئے ہیں'، کسی پاکستانی امریکی نے مجھ سے کہا۔ 'ہاں اسے بس امریکی سفید اشرافیہ کے ساتھ فوٹو نکلوانا تھا'، پاکستانی اخبار کے مدیر ظفر قریشی نے گرہ لگائی۔
لیکن مجھے لگا جیسے صدربراک اوباما بھی شاید وائٹ ہاؤس میں 'آئی ہیو ڈریم' یا اس تاریخی خواب کی مارٹگیج نہیں دے سکے ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترم حسن مجتبٰی صاحب، اوبامہ کے دورِ صدارت کی مجموعی کارکردگی کا ایک اجمالی خاکہ ذہن میں بنا کر دیکھا جائے تو آپ نے بالکل درست تجزیہ کیا ہے۔ بہرحال، اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اکثر اوقات یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ انسان حالات پر نہیں بلکہ حالات انسان پر حکومت کرتے ہیں، لہذا ہو سکتا ہے کہ اوبامہ ‘کچھ کرنے‘ کا ‘خواب‘ رکھتے ہوں لیکن اس ‘خواب‘ کے ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جانے کے خدشہ کے پیشِ نظر یا اس ‘خواب‘ کے اُلٹا اثر کر جانے کا اندیشہ اوبامہ کو کُھل کر سرِعام اپنے ‘خوابوں‘ یا لوگوں بشمول سیاہ فام کے ‘خوابوں‘ کو عملی تدبیر دینے سے روک رہا ہو۔
‘انسان اپنے آپ میں مجبور ہے بہت
کوئی نہیں ہے بے وفا، افسوس مت کرو
یہ دیکھو پھر سے آ گئیں پھولوں پہ تتلیاں
اِک روز وہ بھی آئے گا، افسوس مت کرو‘
حسن صاحب بلاگ لکھتے وقت يہ بات ذہن ميں ضرور رکھيں کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اس کے بعد علاقائی زبانيں پھر انگلش۔ جن کو انگلش پہ عبور ہے انہيں بھی اردو ميں لکھی گئی انگريزی دشوار محسوس ہوتی ہے۔
مسٹر اوباما کی مورٹگيج يعنی رہن يا گروی رکھی گئی حکومت کی بنيادی وجہ يہ ہے کہ امريکی کرتا دھرتا ميں گوروں کی اکثريت ہے اس ليۓ بحثيت سياہ رنگت انہيں وہ پروٹوکول نہيں ملے گا جو کسی گورے صدر کو مل سکتا ہے دوسرا کالی رنگت کا شخص جتنا مرضی بارعب کيوں نہ ہو وہ نفسياتی طور پر کسی گورے کو زير نہيں کرسکتا۔ ويسے بھی اگر آپ تاريخ پہ نظر ڈاليں تو يہ بات عياں ہے کہ گوری نسل کے لوگوں کا سائنسی ايجادات اور دنيا پہ حکمرانی کرنے کا دور کالوں کی نسبت بہت بہتر رہا ہے۔ ان تمام باتوں نے جنياتی طور پر کالی رنگت کے لوگوں کو معاشرے ميں تھوڑا سا نيچے کرديا ہے اور کالوں کو خود بھی اس چيز کا احساس ہوتا ہے گو کہ ايسا ہونا سراسر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے نيز ہم اپنے معاشرے پہ نگاہ ڈاليں تو يہ بات عياں ہے کہ شادی کے معاملات ميں کالے گورے ميں کتنا فرق محسوس کيا جاتا ہے۔
صدر اوباما کو ورثہ ميں ايک ڈوبتی معيشت ملی ہے جس پر قبضہ ان کے مخالفين کا ہے۔ اوبامہ ايک مخلص صدر ہے- مگر کاروبار کی دنيا کی بہت سی بڑی مچھلياں ان کے مخالفين کے صف ميں ہيں جو ابامہ کو ان کی رنگت کی وجہ سے کامياب نہيں ديکھنا چاہتے ورنہ يہ ايک پڑھا لکھا قانون کا پروفيسر ہے اور بات کرنے کا اور فن تقرير ملکہ موجودہ وقت ميں صرف اوبامہ کو ہی حاصل ہے۔ بڑی بڑی انشورنس کمپنياں ان کے انشورنس قانون بنانے کی وجہ سے ان کے مخالفين کی دل کھول کر مالی اور ميڈيائ مدد کی۔ ورنہ يہ شخص واقعی ايک مثبت سوچ اور تعميری سوچ والا شخص ہے جو عام آدمی کی بات کرتا ہے اور جو اميروں پر ٹيکس لگانا چاہتا ہے مگر آپ جانتے ہيں جب امير آپ کے مخالف ہوجائيں اور ميڈيا اميروں نے خريد رکھا ہو اور عام آدمی ميڈيا پر ايمان کی حد تک يقين رکھتا ہو تو آپ چاہے کتنے ہی ايماندار کيوں نہ ہوں آپ کہيں کہ نہيں رہيں گے مگر جو لوگ صرف جھوٹ پر ايمان لا کر سچ کے مخالف ہو جائيں تو وہ بعد ميں پچھتاتے بھی بہت ہيں۔ اس بات سے کہيں يہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ ہمارے ليڈر بہت معصوم ہيں۔ ہم تو اپنے مسلط کردہ ليڈروں کی کرپشن سے دوسری قوموں کے آگے سر جھانے پر مجبور ہو جاتے ہيں جو وہ ہميں ياد دلاتے ہيں کہ آپ نے کس کو صدر بنايا ہے۔
آپ اس بات سے تو اتفاق کريں گے نا کہ خواب ديکھنا تو سب کا حق ہے۔ اوبامہ نے بھی کئی خواب قصر صدارت کا مکين ہونے سے قبل اور کچھ اس کا مکين ہونے کے بعد ديکھے ہونگے۔ اب ضروری نہيں کہ ان سب کی حقيقی و مثبت تعبير بھی پائے۔ ويسے بھی موجودہ حالات کے تناظر ميں ان کو چين و سکون کی نيند کہاں نصيب ہوتی ہوگی کہ وہ دلفريب و محسور کن خواب ديکھ سکيں۔ بہرحال انہوں نے جو بھی خواب ديکھا ہو اور تبديلی کی خواہش پر مبنی خواب زيادہ بار ديکھے ہوں نتيجہ سب کے سامنے ہے۔گہرائی ميں اترے بغير اس کا اندازہ نہيں ہوتا اسی طرح اب اوبامہ کو بھی لگ پتا گيا ہوگا کہ خواب ديکھنا آسان ہے تعبير پانا مشکل۔ خير ہم تو دعا گو ہيں کہ اپنے ديکھے ہوئے خوابوں کی اچھی تعبير پائيں جس سے سب کو سکھ چين نصيب ہو۔
مگر اوبامانے کيا کيا يا کيا نہيں کيا، مجھے اس کی فکرميں دبلا ہونے کی ضرورت نہيں، قبر کا حال مردہ جانے، مجھے آپ جناح کے شکستہ خوابوں کے بارے ميں بتاؤ تو ذيادہ متعلق ہوگا۔ ہمارے خوابوں کے سوداگر کون ہيں؟ انہوں نے کتنا کميشن کھايا،اور کب تک اور کتنا کھائنگے؟
گزارش ہے عوام کي بےچينی بجا ہے ليکن ننھےبش صاحب جن چکروں ميں پھنسا گۓ ہيں ان سے نکلنے ميں وقت لگے گا - اوبامہ نے گذشتہ برس حالات بگڑتے ہي امريکی صنعت کے لۓ مالی پيکيج مہيا کيا - کل مزيد 600 ارب ڈالرمہيا کرنے کا اعلان کيا ہے- نيويارک ٹائمز ميں اوبامہ کا جاری سفر ايشيا پر مضمون ملاحظہ فرمايۓ جس ميں وہ امريکيوں کو اپنی روايات ياد دلا رہے ہيں جب امريکہ تحقيق، تخليق اور تجارت پر يقين رکھتا تھا - وہ نئی منڈيوں کی تلاش ميں ان ممالک کے دورے پر ہيں اور امريکيوں کو برآمدات بڑھا کر بيروزگاری کے خاتمے کی تلقين کر رہے ہيں - سيدھا سادہ حل ہے جملہ مشکلات کا جو ننھےبش صاحب اور ان کےمنہ ٹيڑھے ڈک چينی سميت کسی پيشروکو نہيں سوجھا- کيوں کہ ترجيحات ہی مختلف تھيں - بمبئ ميں پاکستان پر اٹھاۓ گۓ سوال پر جواب ملاحظہ کيا آپ نے؟ کيا ننھےبش صاحب يا ان کے پيشرو بل کلنٹن صاحب سے بھي اس سمجھداري کی توقع کي جا سکتي تھي ؟ يہ شخص فطرتا” ديانت دار چلا آ رہا ہے - يہ چيز رائگاں نہيں جاتی اور جھوٹ کے پاؤں نہيں ہوتے - خاطر جمع رکھيۓ اور ديکھتے جايۓ - يہي امريکی قوم انہيں سر پر بٹھاۓ گی اور دوبارہ منتخب بھی کرے گی - -
اکبر بُگٹی کی ہلاکت اور لال مسجد اپریشن کی وجہ سے پاکستانی فوج کی جو سیاسی ساکھ بُری طرح متاثر ہوئی تھی، اس ساکھ کی بحالی بذریعہ سوات اور جنوبی وزیرستان میں کامیاب ملٹری اپریشنز، حکومتِ پاکستان اور افواجِ پاکستان کی طرف سے ممبئی پر بھارت کو بھرپور جواب اور اسے دونوں داخلہ و خارجہ سطحوں پر خوش اسلوبی سے ہینڈل کرنا، طالبان اور آئی ایس آئی کو باہم آپس میں غلط ملط کرنے کی ‘سامراجی سازش‘ کا فی الحال کامیاب نہ ہو سکنا، بیت اللہ محسود کی مبینہ ڈرون حملے میں ہلاکت کو پاکستان کی طرف سے ایک بڑی کامیابی گرداننا جبکہ امریکہ کا بیت اللہ محسود کی ہلاکت پر زیادہ خوشی کا اظہار نہ کرنا، افغانستان میں اتحادی فوج کا تسلسل سے جانی و مالی نقصان اور اچھے طالبان سے مذکرات کرنے کی طرف مائل ہونا، مجموعی طور پر ناٹو کی افغانستان میں کمزور ہوتی گرفت، امریکی صدر بارک اوباما کے حالیہ دورہء بھارت میں ممبئی حملوں کا ‘موضوعِ بحث‘ نہ بننا اور وہ اہمیت نہ دینا جس کی توقع کی جا رہی تھی، پاکستان میں تسلسل سے جاری دہشتگردی اور اسی تسلسل سے جاری دہشتگردوں کے خلاف کامیاب ملٹری اپریشنز سے ‘عالمی استعمار‘ کے اس خیال کی نفی ہونا کہ پاکستانی سیکورٹی ادارے دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے میں ناکام ہیں اور ان کو کچلنے کی طاقت نہیں رکھتی، کیری لوگر بِل پر افواجِ پاکستان کے تحفظات اور اس میں موجود شرائط پر شدید ردِعمل ۔۔۔۔۔۔ ماضی قریب کے یہ چند چیدہ حقائق و حالات واضح کر دیتے ہیں کہ سابق امریکی صدر سے ترکے میں ملنے والی ‘دہشتگردی کے خلاف جنگ‘ بارے بارک اوبامہ اپنے ‘خواب‘ جو کہ دنیا میں امن و امان و شانتی فلسفہ کے ارد گرد گھومتے ہیں، کو اپنی طرف سے عملی تعبیر دینے کے لیے پوری کوشش کر رہے ہیں۔ چونکہ بالا درج کیے گئے چیدہ حالات و واقعات ‘نیو ورلڈ آرڈر‘ کی طرف پیش قدمی نہیں قرار دیئے جا سکتے -امریکی اسٹیبلیشمنٹ صدر اوباما کے ‘خواب‘ کو تعبیر ملتی دیکھ کر کچھ سٹپٹا سی گئی ہے اور اوباما اب اُن کی ‘آنکھوں کا تارا‘ نہیں رہے اور اوباما سے نا امید ہو رہی ہے۔ اس بات کی گواہی ریاست امریکہ میں چند دن قبل ہونے والے وسط مدتی انتخابات بخوبی دے رہے ہیں جن میں رِی پیبلیکن جماعت نے صدر اوباما کی جماعت ڈیموکریٹس کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ حاصلِ بحث یا مُکدی گِل یہ کہ بقول شاعر:
‘نہ جانے کون سی آنکھیں وہ خواب دیکھیں گی
وہ ایک خواب کہ ہم جس کے انتظار میں ہیں‘
ساحر خان صاحب اور رضا صاحب نے لاکھ پتے کی بات کہی ہے -بے شک وسط مدتی انتخابات ميں ان کی جماعت کو دھکا لگا ہے ليکن ان کی خارجہ پاليسی بے پناہ خود اعتمادی اور معيشت کو نقطہ ارتکاز بنانے کا انوکھا انداز اور سب سے بڑھ کر غير معمولی تدبیر ايک بار پھر امريکہ کو مستحکم کرنے کا باعث ہوگا۔ چاہے وہ عہدہ صدارت پر برقرار رہيں يا نہ رہيں ويسے کيا يہ کم ہے کہ امريکہ کا پہلا سياہ فام صدر ہونے کا اعزاز انہيں تاريخ ميں ہميشہ کے لئے ايک بلند مقام عطا کرگيا ہے !!!!!
امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے جسے پوری دنیا میں طاقت کا توازن بگاڑنے کا شرف حاصل ہے۔ امریکہ کی پوری معیشت دفاعی آلات کی تیاری اور تیسری دنیا کو ان کی فروخت پر کھڑی ہے۔ ا سرائیل اور بھارت سمیت دنیا کا ہر ملک جو انسانوں اور ان کے حقوق کو اپنے پاؤں تلے روند رہا ہے وہ امریکی اسلحے کا بڑا گاہک ہے۔ یہ امریکہ ہی ہے جس نے پوری دنیا میں اپنی معاشی اور سیاسی برتری قائم رکھنے کے لیئے معدنی وسائل سے مالا مال ہر ملک کو خانہ جنگی، یا اپنے کسی حواری کے تسلط میں دے کر اپنے اسلحے کو پوری دنیا خاص کر مسلمانوں پر کھپا دی اور معاشی طور پر مستحکم ہوتا چلا گیا۔ امریکہ پاکستان کو بھی اسلحہ دیتا ہے اور بھارت کو بھی۔ امریکہ دنیا میں واحد سپر پاور بن کر رہنا چاہتا ہے، اسے چین کی تیزی سے پھیلتی معیشت ایک نظر نہیں بھاتی وہ ایک طرف تو چین سے اچھے تعلقات کا سبق پڑھتا ہے اور دوسری طرف بھارت کو نواز کر چین پر چیک رکھنا چاہتا ہے۔ امریکہ کے بھارت کے ساتھ بہت سے مفادات وابستہ ہیں ۔ امریکہ بظاہر بھارت سے کچھ لے کر نہیں جا رہا بلکہ لانگ رینج مزائلوں میں استمعال ہونے والی ٹیکنالوجی کے معاہدے پر دستخط کرنے، اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کی مستقل نشست اور ایچ ون بی ویزوں کے حصول میں بھارت کا مددگار بن کر بھارت کو خطے کی سپر پاور بننے کا خواب دکھا کر پاکستان اور چین کو مستقل طور پر ایک خطرے سے دوچار کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت پر بھی معاشی تسلط قائم کر کے افغانستان میں اپنی فوج کے انخلاء کے بعد بھارت کو اپنے مفادات کے لئے استمعال کر ے گا۔ اس طرح نہ جنوبی ایشیا میں امن قائم ہو گا اور نہ ہی یہاں کے عوام کا معیار زندگی بلند ہوگا۔ یہ ہیں وہ سب تحفے جو امریکی صدر بھارت کا دورہ کر کے جنوبی ایشیا کو دے کر جا رہے ہیں۔ آئیے جشن منایئں امریکہ کی خوش قسمتی کا کہ اس کو اپنے مفادات کے محافظ خود سے بھی زیادہ وفادار ملے۔
اپنی ذمہ داريوں سے بري الذمہ ہو کر فقط امريکہ کو قصور ٹھہرانا غلط ہو گا - امريکی پاليسياں چين کی برق رفتار ترقی پر کيوں اثر انداز نہيں ہو سکيں اور کيا اب امريکہ بھارت گٹھ جوڑ اس ميں کامياب ہو سکے گا ؟ نيز مسلم دنيا کو کس نے باہمی تعاون سے منع کر رکھا ہے ؟ يہ وسائل مجتمع کرکے مشترکہ منڈی کا کيوں نہيں سوچتے؟ امريکی پاليسيوں پر اعتراض ہو سکتا ہے جو فرد واحد کی بجاۓ ايک پيچيدہ نظام کی پيداوار ہيں جو ہمارے برعکس مستقبل بعيد کی منصوبہ سازی کر رہا ہوتا ہے - اوبامہ جيسے لوگ تبديلي کے خواہشمند ہو سکتے ہيں ليکن اس نقارخانے ميں طوطی کی شنوائی ہو پاتی اور وہ راۓ عامہ پر کتنا اثرانداز ہو پاتے ہيں يہ کہنا بہت مشکل ہے