بم بلاگ
اسلام آباد کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کے بعد مولوی صاحب نے اجتماعی دعا کچھ یوں کی: '۔۔۔۔ یا اللہ پاکستان کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما۔ یا اللہ اس ملک کی حفاظت فرما۔ یا اللہ ایٹم بم کی حفاظت فرما۔۔۔۔'
اسلام آباد کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کے بعد مولوی صاحب نے اجتماعی دعا کچھ یوں کی: '۔۔۔۔ یا اللہ پاکستان کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما۔ یا اللہ اس ملک کی حفاظت فرما۔ یا اللہ ایٹم بم کی حفاظت فرما۔۔۔۔'
امریکہ کو اسامہ بن لادن کی تلاش سن انیس سو اٹھانوے سے ہے۔ اس خاطر اس نے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے۔ کبھی افغانستان پر چڑھائی تو کبھی پاکستان کو آنکھیں دکھانا۔
گلیشیئرز، دریاؤں اور صحرا کی کہانی تو چلتی رہے گی۔ ابھی جملہ معترضہ کے طور پر ایک قصہ سن لیجیے۔ جب میں چولستان کے صحرا اور لال سوہانڑا کے نخلستان کی سیر کے بعد بہاولپور سے ملتان کے لیے روانہ ہوا تو ایک ٹیلی فون آ گیا۔ دوسری طرف بہالپور پریس کلب کے سیکٹری نصیر ناصر صاحب تھے۔ انہیں شکوہ یہ تھا کہ یہ آپ نے اچھا نہیں کیا کہ آپ ہمارے علاقے میں آئے ہیں اور ابھی تک ہم سے ملے نہیں۔ سلام دعا کے بعد زیادہ رسمی جملے ان سے بن نہ پڑے اور وہ جلد ہی حرف مدعا زبان پر لے آئے۔ انہیں فکر مندی اس بات کی تھی کہ میں اگر بہاولپور گیا ہوں تو کس کس مدرسے میں گیا ہوں اور ان مدرسوں کی کیسی کیسی عکس بندی کی ہے۔
یہ اُس دیش کی کہانی ہے جس کی پچاس لاکھ آبادی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس کو چند مہمانوں نے یرغمال بنایا ہے مگروہ مہمان نوازی کی رسم کے مطابق انہیں کوئی گزند نہیں پہنچا سکتے۔
جس روز اسلام آباد کی قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیا جا رہا تھا میں اس روز ضلع مظفر گڑھ سے متصل صحرائے تھل کے ایک دور دراز گاؤں میں تھا۔ اس روز گاؤں کے واحد بڑے درخت کے نیچے رسم قل کا انعقاد کیا جا رہا تھا اس نوجوان خاتون کی جو گزشتہ روز گردے فیل ہو جانے سے انتقال کر گئی تھی۔ پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی کے باعث گردے کے اس نوعیت کے سنگین امراض اس گاؤں کے لیے نئے نہیں ہیں۔ موقع کی مناسبت سے اس گاؤں کے مکینوں نے اپنے مسائل میرے سامنے بیان کرنا شروع کر دیے۔
بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے دورہ کشمیر سے مختلف طبقوں نے مختلف امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں، اس کے باوجود کہ حکومت بھارت کے سامنے کشمیراب کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہا ہے۔
میرے پاس اسلام آباد کے بیالیس سال پرانے رہائشی کریم یوسف آئے ہیں۔ ان کا مسئلہ کافی توجہ طلب ہے۔ انہیں ہر پانچ سال بعد اپنے پاکستانی ہونے کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔
ابھی ابھی آ کسفیم سے جویریا افضل کا فون آیا تھا۔ وہ سندھ کے ساحلی شہر بدین جا رہی ہیں جہاں ان کی تنظیم گلوبل وارمنگ کے باعث سطح سمندر بلند ہونے سے متاثر ہونے والی زرعی زمینوں کے کاشتکاروں کو نئی زندگیاں شروع کرنے میں مدد دینے کا ایک منصوبہ مکمل کر چکی ہے۔ جویریا نے بتایا کہ وہ یہ دیکھنے جا رہی ہیں کہ سطح زمین کی جانب بڑھتے سمندر کے ہاتھوں بے زمین ہونے والے کاشتکاروں کے نئے کاروبار کیسے چل رہے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے سماجی نیٹ ورکنگ ویب سائٹ فیس بک پر سے پابندی اٹھا لی ہے۔ اس سے کروڑوں پاکستان صارفین کو یقیناً فائدہ ہوگا۔ لیکن اصل خوشی شاید سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو ہو جو بقول ان کے اپنے مداحوں سے اسی ویب سائٹ کے ذریعے رابطے میں تھے۔ ان دو لاکھ مداحوں کو جواز بتا کر (جن کے بارے میں واضح نہیں کہ پاکستان سے کتنے تھے) سابق صدر کا کہنا تھا کہ ان کا وطن واپس لوٹنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ پابندی عائد کی گئی تو سب نے کہا کہ ان کا انتخابی حلقہ متاثر ہوا ہے اور ان کی انتخابی مہم رک گئی ہے۔ اس کے علاوہ انتخابی تیاریوں کے ہی سلسلے میں صدر کی نئی مجوزہ جماعت کے اندراج کا عمل الیکشن کمیشن میں زیر غور ہے۔
˿ © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے
اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔