ہیں کواکب کچھ۔۔۔!
سن دو ہزار نو میں دنیا کے پچیس امیر ترین ممالک کے بارے میں اقوام متحدہ کا ایک جائزہ سامنےآیا۔ اس جائزے کے مطابق سماجی عدم مساوات کے اعتبار سے برطانیہ چوتھے نمبر پر تھا۔ برطانیہ میں کل آمدن کا بیالیس فیصد ملک کے امیر ترین پانچ فیصد لوگوں کو ملتا ہے۔
لندن شہر میں امیر و غریب کا درمیانی فرق دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ شہر کے امیر ترین دس فیصد لوگوں کے پاس اوسطً نو لاکھ تینتیس ہزار پانچ سو تریسٹھ پاؤنڈ کے اثاثوں کا ارتکاز ہے۔ اس کے مقابلے میں اسی شہر کے غریب ترین دس فیصد لوگ اوسطاً تین ہزار چار سو بیس پاؤنڈ کے اثاثوں کے مالک ہیں۔
یہ اعداد و شمار حال ہی میں بی بی سی پر شیفیلڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈینیل ڈولنگ کی کتاب 'بے انصافی: عدم مساوات جاری کیوں؟' کے بارے میں گفتگو کے دوران سامنے آئے۔
برطانیہ میں تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے انصاف اور لوگوں کے حالات درست کرنے کے وعدوں کے باوجود ان پر سماجی عدم مساوات کے موضوع پر خاموشی اختیار کرنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔ لندن کے ایک شمالی حلقے میں ایک ووٹر نے تمام جماعتوں کے امیدواروں سے سماجی انصاف کی تعریف کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس ووٹر نے شاید بوجھ کر ان سے سماجی عدم مساوات کا حل نہیں پوچھا۔
پروفیسر ڈولنگ نے، جو تقریباً دو دہائیوں سے سماجی انصاف کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں کہا کہ کوئی سیاستدان یہ نہیں کہے گا کہ وہ عدم مساوات کے حق میں ہے لیکن اس کے بارے میں کچھ کرنا ان کی اہم ترجیحات میں شامل نہیں۔
برطانیہ یورپ کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں سماجی عدم مساوات کو قبول کر چکا ہے۔ انہوں نے اس کے لیے برطانوی اشرافیہ اور 'اسٹیبلشمنٹ' کی اقدار کو ذمے دار ٹھہرایا۔
انہوں نے اشرفیہ کی ان اقدار کا ذکر کیا جو ان کے خیال میں اس عدم مساوات کی ذمے دار ہیں۔ ان میں سب سے اوّل اشرافیہ کی وہ سوچ جس کے تحت معاشرے کے چند افراد کی تعلیم و تربیت پر زیادہ توجہ دینے کو درست سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان چند لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ انہیں زندگی میں جو مقام حاصل ہے وہ ان کا اپنا کمال ہے جو انہیں اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔
دوسرے نمبر پر اشرافیہ کی سوچ ہے کہ کچھ لوگ اعلیٰ معیار زندگی سے ہمیشہ محروم رہیں گے۔ یہ مان لیا گیا ہے کہ غربت تمام معاشروں کی ناگزیر حقیقت ہے۔ انہوں نے کہ اشرافیہ سمجھتی ہے کہ آپ غریبوں سے اچھاسلوک تو روا رکھ سکتے ہیں لیکن یہ توقع نہیں کر سکتے کہ غریب ختم ہو جائیں گے۔
پروفیسر ڈولنگ نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگوں کو تو بستر سے نکالنے کے لیے بھاری تنخواہوں کا لالچ دینا پڑتا ہے تاکہ وہ جا کر تقریریں کر سکیں دوسری طرف ایک بڑی تعداد کے بارے میں سوچ لیا گیا ہے کہ انہیں کم تنخواہ ملنی چاہیے کیونکہ اگر ان کو ان کے پاس تھوڑا بہت بھی چھن جانے کا ڈر نہ دیا گیا تو وہ سست ہو جائیں گے۔
عدم مساوات کی وجوہات میں تیسرے نمبر پر انہوں نے اس سوچ کو رکھا ہے کہ 'مایوسی ناگزیر ہے'۔ انہوں نے کہا کہ طب میں ترقی کے باوجود ہم دماغی صحت کے بارے میں کچھ نہیں کرنا چاہتے۔ 'گلاسگو میں ہر دسواں شخص 'پروزیک' لیتا ہے۔ ہر تیسرا خاندان دماغی بیماری سے متاثر ہے لیکن ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں کرتے۔
آخری میں پروفیسر ڈولنگ نے کہا کہ اشرافیہ تسلیم کر چکی ہے کہ 'لالچ اچھی چیز ہے۔' انہوں نے کہا کہ وہ بہت سی مثالیں دیتے رہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور اشرافیہ کے لوگ سر عام یہ بات نہیں کہتے لیکن وہ مانتے ہیں کہ کچھ لوگوں کا اتنا لالچی ہونا ضروری ہے جس سے کاروبار اور کام چلتا رہے۔
انہوں نے کہا کہ بی بی سی کے ایک سینیئر اور مشہور نامہ نگار نے ایک بڑی اچھی کتاب لکھی تھی جس میں تین سو صفحات کے بعد انہوں نے لکھا کہ 'سچ یہ کہ لالچ حقیقت میں اچھی چیز ہے'۔
تبصرےتبصرہ کریں
‘شجر کو سبز قبا دیکھ کر یہ الجھن ہے
کہاں پہ رنگِ نمو ہے کہاں پہ زہر کا رنگ‘
آپ نے تو لگتا ہے حیران کرنے کا ٹھیکا لے لیا ہے ۔جس کام کو نہ کرنے کی انسان نے ناجانے کب سے قسم کھائی ہوئی ہے آپ یاد کرا کے نہ جانے کیوں شرمندہ کرنا چاہ رہے ہیں ۔
اسد صاحب!يہ فرق تو شروع سے سماج کا جزولانفيک رہا ہے۔ يہاں تک تو بات ٹھيک ہے مگر بات اس وقت خراب ہوتی ہے جب غريب غريب سے غريب تر اور امير امير سے امير تر ہوتا جاتا ہے۔ دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں تک محدود و مرتکز ہو جانا اچھی بات نہيں بلکہ خطرے کی گھنٹی سمجھا جاتا ہے۔دولت سے حسد و لالچ فروغ پاتا ہے اسی لئيے کہا جاتا ہے کہ لالچ بری بلا ہے۔بحرحال کئی لوگ اس خشک موضوع پر طبع آزمائی کرنے پر کہيں گے کہ يہ بورنگ اور انتہائی خشک بلاگ لکھنے کی کيا ضرورت تھي؟
يہ طرز کلام ، يہ موضوعات ، سرورق پر نئی تصوير ، حتٰی کہ نام تک ' اسد علی چودھری ' سے ' اسد علي ' رہ جانا ، محرکات کچھ بھي ہوں ليکن بہت خوب جا رہا ہے - آج کے موضوع نے تو چونکا کے رکھ ديا - باقي دنيا کٹہرے ميں لا کھڑا کردينے والوں کے ہاں يہ موضوع واقعي کبھي چھيڑا نہيں جاتا - يہاں ولايت اور پاکستان ميں مکمل مماثلت نظر آتي ہے - وہی اشرفيہ اور اسٹيبلشمنٹ کا گٹھ جوڑ ، وہي ذرائع ابلاغ کی چشم پوشی ، وہي سياسي و سماجي قائدين کا سکوت - کسی کو کچھ نظر نہيں آتا -
جناب اسد صاحب اس کالم میں معاشرے میں جو عدم توازن کا زکر کیا گیا ھے یہ عدم سے ہے اور ازل تک رھے گا لیکن کہیں کم اور کہیں زیادہ ضرور ھے۔ جاگیر دارانہ نضام جیسا کہ اس نضام میں خوبی اورجو ہمارے ملک پاکستان میں ہے کوشش کی جاتی ہے کہ دوسرے سے روٹی آخری لقمہ بھی چھین لیا جائے۔ میں یہ سمجھتا ھوں یہ نضام ترقی میں سب سےبڑی رکا وٹ ھے اور یہ ہی وجہ ہے جس کی وجہ سے ہم ترقی سے بہت دور ہیں رہی بات اُس نظام کی جس کا آپ نے زکر کیا اُس میں جیو اور جینے دو تو ہے اور یہ وہی لالچ ہے جس کی بنیاد پر زندگی کا پہیہ چل رہا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ لالچ ایک اچھی چیز یہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر کی جا رہی ہوتی ہے۔ جیسے عاشق کو محبوب سے لالچ ہے تاجر کو ملازم سے لالچ ہے اور اسی طرح بہت سا معا شرہ لالچ سے بھرا پڑا ہے۔ کسی زما نے میں لا لچ کو برا گر دانا جا تا تھا لیکن جیسے جیسے لوگوں میں شعور بلند ہوا انہوں نے اپنی غلطی کو سمجھ لیا اور اس لفظ سے جو غلط فعل منصوب تھا اُسے واپس لے لیا اور اس طرح معاشرہ اس لفظ چا شنی کی سے محضوض ہو رہا ہے
بچپن ميں سنتے تھے اور پھر پڑہا ہے کہ لالچ بری بلا ہے ليکن اب اس کو اچھی چيز کہا جانے لگا ہے تو يہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
ليکن غريب لوگوں کو اعلی کوالٹی کا کھانا تو ميسر ہے۔ نيز بازار جاتے ہوئے يہ کم ہی احساس ہوتا ہے کہ کون امير اور کون غريب ہے۔غريب ميں يہ جستجو بھی موجود ہے کہ ايک دن وہ اپنے گروں سے امير ہوسکتا ہے مگر پاکستان ميں ايسا نہيں۔ وہاں کے امرا پلاننگ کرکے عام آدمی کو انصاف اور آگے بڑھنے کے موقع فراہم کرتے ہيں جبکہ پاکستان کے امرا سوائے نظريات آپس کی لڑائی پہ اکتفا کرتے ہيں اور مايوس عوام کسی بہتری کی تلاش ميں مذہبی و غير مذہبی يا سوشلزم کے نظريات کا سہارا لے اميد باندھے بيٹھے ہيں۔
برطانيہ کے ووٹر اور سياسی پارٹياں ايسے موضوعات پر اپنا وقت کيوں خراب کريں جن کا کوئی حل ہی نہيں ہے سياسی پارٹيوں کے پاس اور نہ ہی ووٹر اتنے بے وقوف ہيں کہ انھيں کوئی کہے کہ يہ طبقاتی عدم مساوات ختم کر يا کم کردی جائے گی اور ووٹر آسانی سے مان لے۔ اگر کوئی پارٹی کوئی بات کرے اور کامياب ہو نے کے بعد وہ کام نہ کرسکے تو آئندہ اليکشن ميں ووٹروں کا سامنا نہيں کر سکتي۔
يہ تو ہمارا پيارا پاکستان ہے جس ميں ہر شخص کو آزادی ہے، ووٹر کی بھی مرضی ہے وہ چاہے تو ووٹ ديکر احسان کردے يا گھر ميں پڑا عام تعطيل کا مزا سو سو کر لے اور ہمارے اميدوار جن کی کوئی حد ہی نہيں کيا کيا باتيں نہيں کرتے۔ مہنگائی تو ايسے ختم کرتے ہيں کہ ادھر حلف اٹھا يا ادھر مہنگائی ختم ۔ مزے کی بات تو يہ ہے وہ سياسی پارٹياں جن کا دور دور تک پتہ جيت نے کا ان پارٹيوں کے نمائدے جب تقرير کرتے ہيں تو ايسے کہ جيت کر پاکشتان کو سپر پاور بنا دينگے، چٹکی بجاتے ہی غربت کا خاتمہ کردينگے
وہں کے ووٹر اور سياسی پارٹياں زيادہ حقيقت پسند ہيں
خوب بہت خوب۔اس کوشش کو جاری رکھيں
چوہدری جی، آداب عرض! قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ جب ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ فطرتآ ہر انسان دوسرے سے مختلف ہوتا ہے تو پھر ایسے میں ‘سماجی مساوات‘ یا ‘سماجی انصاف‘ کو مذہب، سیاست، فلسفہ، معیشت اور اخلاقیات وغیرہ کے ذریعے کُلی طور پر دنیا میں کیونکر ‘نافذ‘ کیا جا سکتا ہے؟ جب بنیاد ہی سیدھی نہ ہو تو عمارت کے سیدھے اور درست زاویے پر کھڑا ہونا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ علاوہ ازیں جہاں مختلف سائز اور ڈیزائن کے چھوٹے بڑے پانڈے (برتن) اکٹھے ہو جائیں وہاں پر ان کا کھڑک جانا معمول کی بات ہوتی ہے۔ ہاں، البتہ یہ ضرور ممکن ہے کہ عوام دوست پالیسیوں، لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم پروگرامز اور منصوبہ بندی کے ذریعے سماجی عدم مساوات میں کمی ضرور کی جا سکتی ہے۔ لیکن ایسا کرنا صرف ‘سوشلسٹ جمہوری معاشرہ‘ ہی میں ممکن ہو سکتا ہے کیونکہ ‘سوشلزم‘ میں تمام ذرائع پیداوار حکومتی تحویل میں ہوتے ہیں نہ کہ چند افراد کے پاس اور پیسہ چند ہاتھوں کی بجائے اوپر سے نیچے تک باقاعدہ گردش کرنے لگتا ہے۔ جہاں تک خاکسار سمجھتا ہے، سماجی عدم مساوات کی پہلی بڑی وجہ دولت کی غیرمساوی تقسیم ہے، دیگر الفاظ میں ‘سرمایہ داری نظام‘ ہے۔ ‘سوشلسٹ جمہوریت‘ میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری کی بجائے ملک کی دولت حکومت کی ملکیت ہوتی ہے۔ سماجی عدم مساوات کی خلیج کے وسیع ہونے کی دوسری بڑی وجہ ‘پرائیوٹائزیشن‘ کا عمل ہے۔ خصوصآ پاکستان میں جیسے جیسے پرائیوٹائزیشن کا عمل رفتار پکڑتا جا رہا ہے ویسے ویسے سماجی عدم مساوات کا دائرہ بھی وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ سکولوں، ہسپتالوں، ٹرانسپورٹ، سرکاری اور پبلک سیکٹر اداروں کی پرائیوٹائزیشن سے دوسرے اور تیسرے درجے کے طبقہ سے ان کی زندگی کی بنیادی ضروریات تعلیم، صحت، رہائش اور روزگار کو مشکل اور مہنگا کر کے سماجی انصاف کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں اور غریب لوگوں میں مایوسی، احساسِ کمتری اور نفسیاتی بیماریوں کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ بھوک ننگ سے تنگ لوگ جب اپنا ‘ردعمل‘ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں مختلف قسم کے حیلوں بہانوں سے ٹرخا دیا جاتا ہے اور مایوسی گناہ ہے، صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے والے کا درجہ بہت بلند ہوتا ہے، اللہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے، لالچ بری بلا ہے، چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ جیسی باتوں کی ‘واعظ و تبلیٍغ‘ کے ذریعے ‘شانت‘ کر دیا جاتا ہے۔ مذہبی نقطہ نگاہ سے سماجی انصاف کو دیکھا جائے تو تمام مذاہب ایثار و قربانی، رحم دلی کا درس دیتے ہیں اور غریبوں کا معیارِ زندگی معتدل بنانے کے لیے ان کی ہر قسم کی مدد کی ترغیب دیتے ہیں۔ ہاں البتہ، اسلام میں کم از کم گھریلو معاملات میں مردوں اور عورتوں میں ‘عدم مساوات‘ کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے اور مرد کو عورت پر تھوڑی یا زیادہ فوقیت کا عنصر دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب گھر میں ہی عدم مساوات ہو تو پورے معاشرہ میں سماجی مساوات کا درس ناممکن نہ سہی کم از کم مشکل تو ضرور ہو گا !
بات مماثلت کي ہو رہي تھي ليکن لاکھ عدم مساوات کے باوجود وہاں کسي کو بے يارومددگار تو نہيں چھوڑا جاتا ہے- گزشتہ دنوں جہلم ميں ايک برٹش پاکستانی بچے کي بازيابی ميں برطانوی سفارتخانے کا کردار آپ کے سامنے ہے - پھر عام شہری کی چالاکياں بھی درگزر کر دی جاتی ہيں جسے بے روزگاری الاؤنس معمولي نوکري سے زيادہ پرکشش دکھائي ديتا ہے- ٹيکس کےعوض رياست آپ کی مکمل نگہداشت کرتی ہے - پاکستان ميں غالبا” ملازمت پيشہ ہي پورا ٹيکس ادا کرتے ہيں - جس کےعوض انہيں کچھ بھي نہيں ملتا ہے -
يہ وطن تمھارا ہے.
ہم ہيں خوامخواہ اس ميں.