انتخابات غصہ نکالنے کا ذریعہ
بریڈفورڈ میں تین مسلمان نوجوانوں سے بات ہوئی جو بات بات پر غصے کا ذکر کرتے۔ ان کی باتوں سے معلوم ہوتا تھا کہ غصہ نوجوانی کا لازمی جزو اور ان کی کامیابی اس سے نمٹنے کا طریقہ تلاش کرنے میں ہے۔
بات چیت سے معلوم ہوا ہے کہ غصے کی جڑیں برطانیہ میں گزرے بچپن اور بعد کے حالات میں ہیں۔ ان کے بقول انہوں نے نسل پرستی کا سامنا کیا اور یہ احساس کہ آپ سے نفرت کی جاتی ہے اس غصے کا موجب ہے۔'پھر مسلمانوں کے ساتھ عالمی سطح پر ہونے والی زیادتیاں بھی اہم ہیں۔'
ان سے میری ملاقات انتخابات کے حوالے سے ہوئی۔ یہ لوگ بریڈفورڈ کے مسلمانوں میں اپنا پیغام پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔'مسلمان ہمیشہ مسلمان کی آواز نہیں ہوتا۔ پالیسی دیکھیں چہرہ مت دیکھیں۔ووٹ ضرور ڈالیں مگر سوچ سمجھ کر۔'
صہیب، توحید اور ہاجرہ کا تعلق 'مسلم پبلک افیئرز کمیٹی' نامی تنظیم سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ جمہوریت کے حق میں ہیں بلکہ یہ جمہوری ہی نظام ہی ہے جس نے انہیں موقع دیا کے وہ اپنا غصہ مثبت انداز میں نکال سکیں۔
ایک شام ان تینوں کے ساتھ بریڈفورڈ میں مسلمان آبادی والے 'بریڈفورڈ مُور، بارکر اینڈ' کے علاقے میں گلیوں میں گھومتے پھرتے گزری۔
تینوں پرچیاں تقسیم کر رہے تھے جن پر مسلمانوں کے لیے پیغام درج تھا کہ وہ'متحرک ہوں، سیاست میں آئیں، ووٹ ڈالیں۔' وہ مسلسل ایک دوسرے سے یقین دہانی کرتے کہ ہر گھر کے اندر اور گاڑی پر پرچیاں رکھی جائیں۔
اکیس سالہ صہیب سے چلے چلتے بریڈفورڈ کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہوتی رہیں۔ اس نے دکھایا کہ اس علاقے میں کوئی 'گورا' نہیں صرف مسلمان ہیں۔ اس نے کہا اس طرح دونوں کمیونیٹیوں کے درمیان فاصلہ تو ہوگا۔
ان تینوں اور بعد میں بریڈفورڈ یونیورسٹی میں کچھ اور نوجوانوں نے بھی بتایا کہ عراق پر حملے اور خاص طور غزہ پر اسرائیلی حملے نے انہیں بہت متاثر کیا ہے۔
گلیوں میں شلوار قمیض میں ملبوس بچے اور بچیاں کھیل کود میں مصروف تھے۔ وہاں 'اٹک پارک' بھی تھا۔
صہیب نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ ہر راہگیر سے پوچھے کہ وہ کس کو ووٹ دے رہا اور پھر اس کو قائل کرنے کی کوشش کرتا کہ صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے کسی کو ووٹ نہ دے بلکہ ان کی پالیسیوں کو سامنے رکھے۔ اس کے لیے سب سے اہم مسئلہ فلسطین تھا۔
صہیب سے جاننا چاہا کہ مقامی مسائل مثلاً تعلیم کے میدان میں پستی یا منشیات(ایک سے زیادہ ایشیائیوں نے اپنی نئی نسل میں اس مسئلے کی طرف اشارہ کیا) کتنے اہم ہیں۔ اس نے کہا یہ بھی اہم ہیں۔ پھر اس نے مثال دی کہ اب لوگ تعلیم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
شام میں ہمیں لبرل ڈیموکریٹک پارٹی، لیبر، کنزرویٹو اور رِسپیکٹ پارٹی کے حامی ملے۔ صہیب نے سب سے بحث کی۔
ایک صاحب نے اس پالیسی کی مخالفت کی جس کے تحت غیر قانونی تارکین وطن کو کچھ شرائط پوری ہونے پر قانونی حیثیت دی جانے کی بات ہو رہی ہے۔ 'یہ دس لاکھ ٹھیک ہو جائیں گے تو دس لاکھ مزید آ جائیں گے، ہمارے بچوں کی نوکریاں لیں گے'۔
ایک صاحب نے کہا کہ ہمارے بچے منشیات اور غلط کاموں میں پڑ چکے ہیں ہمیں وہ پارٹی چاہیے جو ان معاملات میں سختی کرے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ایک بار بریڈفورڈ سے کسی پاکستانی کو جتوانا ہے۔ 'ہمیں بہت باتیں سننے کو ملتی ہیں۔'
بریڈفورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر صمد یونس نے مسلمان ووٹروں کی طرف سے ان آراء پر کچھ حیرت ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ دلائل تو دائیں بازو کی جماعتیں دیتی ہیں۔
مغرب کی نماز کے وقت انہوں نے اپنا کام ختم کیا۔ اگلے دن کسی اور محلے میں ملنے کا پروگرام طے کیا اور مسجد کی طرف روانہ ہو گئے۔
تبصرےتبصرہ کریں
جناب اسد صاحب معاشرہ میں رہنے والے لوگ بعض دفع انسان کو مجبور کرتےہیں کہ وہ اپنے ظلم کا بدلہ معاشرے سے لیں اور یہی سوچ ذہن میں رکھ کر معاشرے سے بدلہ لینے کی کو شش کر رہے ہوتے ہیں لیکن یہ عموماً وہاں ہوتا ھے جہاں اظہار آزادی کا فقدان ہو جیسے کچھ عرصہ پہلے ہمارے ملک میں تھا کہ جو سچ اور حق کی بات کرتا اُسے غدار کہا جاتا اور اُسے ایسی سزا دی جاتی کہ اُس کی دس پشتیں بھی ایسا کرنے کا نہ سوچیں ۔اور یہی وجہ ہمارے ملک پاکستان میں غصے اور معا شرے سے بدلہ لینے کی بنی لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ اسلام میں غصہ حرام ھے اور یہ بہت سا ری برائیوں کو جنم دے رہا ہو تا ھے۔ اسد صاحب بلاک کی روانی اور شائستگی کو دیکھ کر ایسا لگتا ھے کہ میں بھی اُسی ماحول میں بیٹھا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ میں ووٹ کس کو دوں
اسد صاحب آپ برطانيہ ميں انتخابات کے حوالے سے خوبصورت بلاگ لکھنے پر مبارک باد کے مستحق ہيں اور آپ کی يہ کوشش ضرور کامياب ہوگی اور اپنے لوگ بڑی تعداد ميں ووٹ ڈاليں گے۔ خود مجھے بھی پوسٹل بيلٹ پيپرز مل چکے ہيں جلد ہی اسے مکمل کرکے واپس ارسال کرنے کا ارادہ ہے۔ ليکن آپ خود بھی ديکھ چکے ہوں گے کہ ہمارے لوگ کس طرح يہاں بھی ذات برادريوں ميں تقسيم ہيں اور کميونٹی ميں بااثر لوگ کس طرح اپنی پسند کے اميدواروں کے لئے اپنے تعلق واسطے والوں اور عزيزوں رشتہ داروں کو ووٹ ڈالنے کے لئے کہہ رہے ہيں تاکہ دوسروں کے ووٹوں پر ان کی چوھدراہٹ قائم رہے اور کچھ لوگ ٹھيکيدار بن کر دوسروں کو ووٹ ڈالنے کی ترغيب دے رہے ہيں۔ يہ سارا کچھ ہمارے لوگوں پر مشتمل اکثريتی علاقوں ميں ہورہا ہے ورنہ سفيد فام اکثريتی علاقوں ميں لوگ اپنا اپنا کام کر رہے ہيں اور خاموشی کے ساتھ چھ مئی کو کام پر جانے سے پہلے يا کام سے واپسی پر اپنا ووٹ ڈال ديں گے يا بہت سارے پوسٹل ووٹ کے ذريعے پہلے ہی ڈال چکے ہوں گے اور رات گئے يا اگلے روز ٹی وی پر نتائج ديکھ کر اپنی اپنی زندگيوں ميں مصروف رہيں گے نہ کوئی مبارک سلامت نہ کاميابی کے نشے ميں جلسے جلوس !!!!
يہ تو اچھی باتيں لگتيں ہيں کہ ان تينوں مسلمان نوجوانوں نے مثبت انداز سے انتخابات ميں اپنا کردار پيش کيا اور جہادی نظريہ سے دور رہ کر بنيادی حقوق کے ليۓ آواز اٹھائي۔ نسل پرستی کو تو مغربی ميڈيا اور عام لوگ بھی مانتے ہيں کہ اس کا شکار صرف مسلمان ہی نہيں بلکہ انڈينز اور کالی رنگت کے تمام لوگ بنتے ہيں ليکن انکے حقوق اور معاشرتی مقام کی اہميت ان معصوم پاکستانی اور انڈين اقليتوں اور کم ذات کے لقب سے پکارے جانے والے انسانوں سے کہيں بہتر ہے جن کو پانی پلانے کا گلاس ہی نفرت کی وجہ سے عليحدہ رکھا جاتا ہے اور خود کو مومن يا اچھی ذات والا کہنے کا دعوی کرتے ہيں۔کسی بھی قوم کی بدحالی کی وجہ تعليم اور جديد ٹيکنالوجی سے دوری ہی ہوتی ہے ۔
بھئی سوچ سمجھ کر ووٹ دینا
بریڈفورڈ کے بارے میں مجھے مقامی باشندے نے بتایا کہ ایک دن وہ اپنی بیوی کے ساتھ کسی کام سے اسی شہر میں آئے، دیکھ کر حیران ہوگیا کہ جہاں جاؤ وہاں ایشین اور زیادہ تر پاکستانی تو مذاق کرتے ہوئے انہوں نے ایک بندے سے پوچھ ہی لیا کہ ’بھئی یہ بتاوء کہ انگلینڈ کس طرف ہے؟‘ ان کا اس طرح کا انداز بیان مجھے قدرے حقیقت پسندانہ لگا۔ جب آپ پرائے ملک میں اپنی سوچ، طور طریقے، رھن سہن سے اٹھنے بیٹھنے لگیں گے تو فطری بات ہے کہ رد عمل تو آنا ہے، جو تضادات کو جنم دیتا ہے جس سے ٹکراؤ ہوتا ہے۔
میرے ایک جاننے والا ایک سال کی اسٹوڈنٹ ویزہ پر برطانیہ آیا، شروع کے دنوں میں تو ھم اکتا ہی گئے تھے ان سے برطانیہ کے بارے میں تعریفیں سن سن کر، یہاں کہ لوگ بہت اعلیٰ، یہاں کا سسٹم سب سے اچھا وغیرہ وغیرہ، کسی سبب اس کا ویزہ ایکسٹینڈ نہ ہو سکا اور اسے واپس اپنے ملک جانے کو کہا گیا پھر وہی شخص وہ کچھ کہنے اور فتوے دینے لگا جو ھم اکثر پاکستان میں لوگوں سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ اس ملک میں رہنا، کھانا، پینا، اٹھنا بیٹھنا حرام وغیرہ وغیرہ۔ھم لوگ (اکثریتی) ایک ہی رخ میں سوچنے کے عادی ہیں اور سوچ بھی انتہا پر یا عقل سے عاری، ھم اپنے گریبان میں کبھی بھی نھیں جھانکتے، مثال کے طور پر ھم کتنے اچھے مسلمان ھیں، ھم میں انسانیت کا جذبہ کتنا کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، کیا ھم میں منافقت ذرا برابر بھی نہیں، کیا پاکستان میں ھم سب مسلمان بھائی بھائی کی طرح رہ رہیں ہیں، کیا سندھی، پنجابی، پختون اور بلوچی ایک قوم و ملت کی طرح رھتے اورایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں، میرے خیال میں نہیں۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کیا جائے، سدھارا جائے تو پھر کوئی غیر آپ کا اثر لے گا۔
صاب جی معلوماتی اور دل کھول کر برطانوی اليکشن کی روداد سنانے اور بتانے پر آپکا بھت شکريہ۔گزارش يہ ھے کہ غصہ دوھرے معيا رات اور نسلی امتيا ز پر آئے اور اس غصے کو مثبت طريقے سے نکالا جائے تو پھر قابل فہم ھے۔مسلمانوں کو اپنے اندر مثبت تبديلياں لانی ھونگی تاکہ وہ ان چيلنج سے صحح طور پر عہدہ برآ ھو سکيں
"یہ جمہوری نظام ہی ہے جس نے انہیں موقع دیا کے وہ اپنا غصہ مثبت انداز میں نکال سکیں" ۔ رائٹ اور لیفٹ کے رائٹ اور رونگ ہونے کا تو پتہ نہیں اور اب مثبت کو مثبت بننے بنانا کس سے سیکھیں، کہاں سے پڑہیں ؟
مجھے برطانوی انتخابات میں کوئی دلچسپی نہیں۔ میرے لیتے پاکستان سب کچھ ہے۔
آپ ہميں فرنگ کا يہ رنگ دکھا کر کيا ثابت کرنا چاہتے ہيں کہ وہ بہت مہذب اور بڑے امن پسند ہيں اور ساري اچھائياں ان ميں ہيں۔ ان کے بر عکس پاکستانيوں ميں غصہ،انتشار،فساد،تخريب،عدم برداشت اور بہت سي برائياں ہيں ہاں بلکل ہيں جو ہميں وراثت ميں ملی ہيں اور ہمارے خون ميں منتقل ہوئی ہيں ہماری پہلے والی نسلوں سے جس نے ايک طويل عرصہ غلامی سے آزادی کی جنگ ميں گزارا ہے ان مہذب لوگوں کے ہاتھوں بڑے ظلم برداشت کئے اپنی جدوجہد اور بيش بہا قربانيوں کے نتيجے ميں جنگ جيتنے کے بعد ان مہذب لوگوں کی سازش اور مکاری کی وجہ سے ايسے لوگ مصلت ہوگئے جو انہی کے تربيت يافتہ تھے کبھی فيڈ مارشل بن کر کبھی مرد مومن مرد حق بن کر اور کبھی لبرل ماڈريٹ دکھائی ديتے والوں نے وہ ہی طريقہ اپنايا يعنی ظلم نا انصافی کے خلاف کچھ نہ بولو اپنے حق کيلئے جمہوريت کيلئے آزادی اظہار کيلئے حصول انصاف کيلئے اگر کچھ بولا تو اس کے خلاف پوری رياست کی طاقت استعمال کی اور اس کو عبرت نشان بنا ديا ميری قوم کی حالت اس طرح کی ہے جيسے ايک برتن ميں پانی بھر کر آگ پر رکھ ديا جائے اور بھاپ نکلنے کا کوئی راستہ نہ چھوڑا جائے تو نتيجہ کيا ہوگا ميری قوم بھی اسی حالت ميں ہے اور جب پريشر بڑھ جاتا ہے تو پھٹ جاتی ہے اور اپنا ہی نقصان کرتی ہے اس ميں سے غصہ،تخريب،انتشار اور فساد باہر آتا ہے اب تو کچھ مزاج اس طرح کا بن گيا ہے کہ ہر حکمراں برا لگنے لگا ہے چاہے وہ جمہوری طريقے سے ہی منتخب کيوں نا ہوا ہو اگر کوئی عالمی رہنماہ اچھا لگے تو اس کی اچھائياں کم بيان کرتے ہيں اور اپنے سياست دان کی برائياں زيادہ بيان کرتے ہيں اور يہ بھی نہيں سوچتے کہ ان سياست دانوں کو دن ہی کتنے ہوئے ہيں اور ان کا مقابلہ ان سے کرتے ہيں جن کے يہاں جمہوريت مظبوط ہے مچور ہے جبکہ ہمارے يہاں يہ ابھی نوزائدہ ہے اور يہ قائم رہی تو ہم بھی چند سالوں ميں اس قابل ہو جائيں گيں کہ آپ بھی ميری قوم پر اس طرح بلاگ لکھيں
یہ بات تو آپ نے ٹھیک کہی کہ ہمیں ان کی پالیسیوں کو دیکھنا چاہیے کیونکہ آجکل لوگ مسلمانوں کو ہر جگہ برا کرنے میں لگے ہیں۔ کچھ لوگوں کی وجہ سے سب کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
يہ بہت خوشی کی بات ہے کہ کوئی اپنی رضا اور مکمل آزادی سے اپنے دل کی آواز اس طرح بيان کر رہا ہے اور خوشی کی بات اس لئے ہے کہ اقليت ہونے کے باوجود برطانيہ کے مسلمان مکمل آزادی سے نہ فقط اليکشن مہم چلا رہے پيں بلکہ وہ اندر ميں کئی سالوں سے دبے غصے کا بھی اظہار کر رہے ہيں ـ يہ سب کچھ جمہوريت کي بدولت ممکن ہے اور ايک ميچوئر سياسی کلچر کے بنياد پر ہر ايک کو يہ حق ديا گيا ہے کہ وہ اپنے دل کی آواّز بغير خوف و خطر بيان کر سکتے ہيںـ بيشک جمہوريت وہاں ہی اپنی جڑيں مضبوط کر سکتی ہيں جہاں سب کو اظہار خيال کی عملی آزادی ہوتی ہے کسی قسم کے دکھاوے کی نہيں ہوتي ـ آپ کو ڈھونڈنے سے کئی ملک ايسے مل جائيں گے جہاں اظہار کی آزادی کی برائے نام آّزادی تو ہے ليکن عملی طور پر کچھ نہيں نظر آتا ـاور يہ جو برطانوی سماج ميں مسلم نوجوان جس غم غصے کا اظہار کر رہے ہيں يہ تو ان کا حق ہے کيونکہ وہ سمجہتے ہيں کہ اپنے بات کرنے کا اپنے درد بانٹنے کا اس سے زيادہ سونہری پھر پتہ نہيں کب آئے گا ـ کہتے ہيں کہ جہاں آگ جلتی ہے پتہ اسی گھر والوں کو ہوتا ہے پڑوس کو اس کرب و بلا کا احساس اتنا نہيں ہو سکتا اس لئے جن حالات سے يہ گذرے ہيں جن کا تھوڑا ذکر آپ نے بہی کيا ہے وہ ان حالات کے مستقل ازالے کے لئے محنت کر رہے ہيں ـ وہ خود جمہور کا حصہ ہيں ان کی جمہوريت کے پلنے بڑھنے کی اميدوں کا ہم احترام کرتے ہيں ـ
اسد صاحب!يہ جمہوريت کا حسن ہے کہ اس نظام ميں جمہور غصے سے کام ليتے ہيں۔اگر پسند کی پارٹی برسر اقتدار نہ ہو تو اس کے طرز حکمرانی و پاليسيوں پر تنقيد وغصہ لازمی بات ہے۔جب پسنديدہ پارٹی بر سر اقتدار آجائے اور عوام دشمن پاليسياں اپنائے تو ووٹر پھر اظہار غصہ کرتے ہيں اور بطور احتجاج کسی کو ووٹ نہيں ڈالتے جس طرف آپ اشارہ کرتے ہيں ۔اسی کی وجہ سے ووٹنگ کا ٹرناوور کم ہوتا ہے۔رہی بات ايشيائی افراد کی حالت زار کی تو مائيگريشن کے شوقين افراد نہ کبھی اس جانب سوچا بھی نہ ہوگا کہ وہ جس جگہ کو اپنا مستقل مسکن و ملک بنانے جارہے ہيں وہاں انکی آئندہ نسلوں کے ساتھ کيا معاملات و مسائل درپيش ہونگے۔کچھ مسائل تو کلچلر شاک کا ہے کچھ اپنا کلچر نہ بدلنے کا ہے۔ منشيات بھی اسی زمرے ميں آتی ہے۔بات اس معاشرے ميں بخوبی انجذاب اور مستقل طور پر اچھی جگہ بنانا ہے جس کے لئيے اچھے اعمال وکردار کی ضرورت ہے تاکہ مقامی افراد تارکين وطن کو کشادہ و خوش دلی سے قبول کريں
ُاسد صا حب بلاگ کا شکريہ۔-سوال یہ ھے کہ یہ لوگ بھی ووٹ لينے کے بعد ھمارے سياستدانوں کی طرح بدل جاتے ہیں