بد اچھا بدنام برا
دو ہزار دس کا آغاز بھی عجیب ہوا۔ پہلے ہی دن لکی مروت کے سٹیڈیم میں والی بال کا ٹورنامنٹ دیکھتے ہوئے بچے، بوڑھے اور جوان خون کے پیاسے شدت پسندوں کو نہ بھائے اور ایک ہی کار بم حملے میں سو کے قریب افراد کو ہلاک اور ساٹھ سے زائد کو زخمی کر دیا۔
گزشتہ سال مارچ میں سری لنکا کی ٹیم اس وقت پاکستان آئی جب دنیا کی تقریباً سبھی ٹیمیں پاکستان آنے سے انکاری تھیں۔ لیکن یہ بھی جنونی انتہا پسندوں کو پسند نہ آیا اور لاہور کے قذافی سٹیڈیم کے قریب بارہ کے قریب دہشت گردوں نے بندوقوں اور راکٹ لانچروں کی مدد سے سری لنکن ٹیم پر حملہ کر کے چھ محافظ پولیس والے ہلاک کیے جبکہ اس واقعے میں کچھ سری لنکن کرکٹرز زخمی بھی ہوئے۔ لیکن ان دونوں واقعات میں خدا کا شکر ہے کہ 'کھیل کی روح' اتنی بدنام نہیں ہوئی جتنی کہ پاکستان ہاکی ٹیم نے حالیہ چیمپیئنز چیلنج کے دوران ایک غیر ملکی رابطہ افسر کے ساتھ تصویروں اتروا کر 'بدنام' کی۔
بلا دیکھیے، پاکستانی کھلاڑیوں نے ایک خاتون اور وہ بھی ایک غیر ملکی کو گلے لگا کر نہ صرف ملک کا نام بدنام کیا بلکہ پاکستانی ثقافت اور اقدار کو بھی ڈبو ڈالا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی والا واقعہ تو ایک اور بات۔ اس سے کم از کم ہماری بلند اقدار اور ثقافت تو برباد نہیں ہوتی۔ خدا بھلا کرے اس رابطہ افسر کا جس نے ٹیم کے ساتھ بنوائی ہوئی یہ تصویریں اپنی فیس بک پر لگائیں اور پاک سر زمین کی اس غیور قوم کو کھلاڑیوں کے گھناؤنے 'فعل' سے آگاہ کیا۔
معاملہ اتنا سنگین تھا کہ قوم کو درپیش باقی سب معاملات سے بازی لے گیا اور قومی اسمبلی کی سپورٹس سے متعلق قائمہ کمیٹی کے چیئرمین جمشید دستی اور کمیٹی کی ہی ایک رکن نسیم اختر چوہدری کو کھلاڑیوں کو نہ صرف 'ریڈ کارڈ' دکھانے پڑے بلکہ ان پر صحتِ جرم کے حساب سے جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔
یہاں تک تو سب ٹھیک تھا کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں کبھی کسی مرد نے عورت کو گلے نہیں لگایا تو بھلا یہ کیوں یہ 'موج' کریں۔ گلے کاٹنے والوں کا مقصد تو کچھ اور ہوتا ہے، اس کے حق میں تو طالبان اکثر فتویٰ دے دے کر اس کو شرعی بنا لیتے ہیں لیکن گلے لگانا تو سراسرغیر شرعی ہے۔ اور اگر گلے ہی لگایا تھا تو تصویریں کیوں بنوانے دیں، جو بھی کرنا ہے بند کمرے میں کرنا چاہیئے تاکہ کوئی گواہ نہ ملے اور کسی کی بھی اخلاقیات اور جذبات متاثر نہ ہوں۔ اب میں بتاتا ہوں کہ مجھے اعتراض کس بات پر ہے۔ بھلا کھلاڑی ریحان بٹ کو کیوں ایک لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا جبکہ کوچ شاہد علی خان اور مینیجر آصف باجوہ پر جرم کا جرمانہ صرف پچاس پچاس ہزار روپے ڈالا گیا۔ بھئی کیا ریحان بٹ نے زیادہ گلے لگایا تھا اور شاہد اور باجوہ نے کم۔ اور اگر ایسا ہی تھا تو قائمہ کمیٹی کیوں پیسے لے رہی ہے یہ پیسے تو اس بھلا مانس رابطہ افسر کو لینے چاہیئے تھے۔ بھئی گلے تو اس کو لگایا گیا تھا نہ جمشید دستی کو تو نہیں۔
آصف زرداری بھی تو سارا پیلن سے ہاتھ ملانے کی سزا بھگت رہے ہیں نہ۔ کیا میں نے کوئی غلط کہا ہے۔
'افلاطون نے خواب میں مجھ کو یہ نکتہ سمجھایا
جو بندہ بھی ہو گا 'ماڑا' مارا جائے گا'
تبصرےتبصرہ کریں
جب باب وولمر کا انتقال ہوا تھا ۔۔ تب یوسف اور انضمام کو جمیکا کی وزیر اعظم نے گلے لگا کر تسلی دی تھی۔ پتہ نہیں ان دونوں پر جرمانہ کیوں نہیں ہوا.
بدنام کيوں ہو گئے؟ جرمانہ تو اس ليے ہوا کہ جمشيد صاحب کو کيوں نہيں ملوايا اور نسيم اختر چوہدری سے گلے کيوں نہ ملے۔
جب صدر مصا فحہ کر تا ھے ا و ر کھلا ڑ ی بو سہ ديتے پھرتے ھيں تو شايد يہ سياست ا و ر کھيل ميں رو شن خيا لی دکھا نا چاہ رھے ھو ں۔ صاف معلوم ھو ر ھا ھے کہ اخلاقی زو ال کی طر ف ھم کس تيز ی سے گا مز ن ھيں۔ شا يد سب اپنی روايا ت، اقد ار اور ثقافت کی دھجياں بکھير رھے ھيں۔ شايد ضمير نام کا بھی نھيں رھا۔
اگر یہ خواب پاکستان میں نہیں بلکہ ‘افغانستان‘ میں دیکھتے تو بھی کیا افلاطون آپ کو خواب میں یہی نکتہ سمجھاتا کہ
جو بندہ بھی ہو گا ’ماڑا‘ مارا جائے گا؟
‘دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دُکھ سہتے ہیں
ہم نے سُنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں
ایک ہمیں آوارہ کہنا، کوئی بڑا الزام نہیں
دنیا والے دل کو اور بہت کچھ کہتے ہیں‘
تو پھر کيا ہوا اگر تصوير اتار لی يا سارہ پيلن سے ہاتھ ملا ليا۔جناب گول دائرے کی اندر والی ثقافت سے باہر آجاؤ ۔لکير کے فقير بن کے آپ دنيا کے ساتھ چلنا چاہتے ہيں؟
جناب عارف شمیم صاحب اگر دنیا کے سب کام چھوڑ کر کھلاڑیوں پر تنقید کرنا غلط ہے تو آپ نے بھی دوسرے مسائل کو چھوڑ کر صرف اس معمولی مسئلے پر ہی نقطہ چینی کیوں کی؟ جب لکی مروت میں کھلاڑیوں کو مارا گیا تب تو آپ نے کالم نہیں لکھا اب آپ کو کیوں تکلیف ہونے لگی؟ کیا ایسا نہیں لگتا کہ جس سوچ کی عکاسی جمشید دستی جیسے لوگ کرتے ہیں آپ اس کے بالکل مخالف نقطہ نظر کے مالک ہیں اور اسی وجہ سے آپ ایسے واقعات کی تاک میں رہتے ہیں کہ دوسری طرف سے کوئی واقعہ ہو اور آپ قلم اٹھا کر اسے کوسنا اور ملک کے ’اصلی مسائل‘ کا رونا رونا شروع کر دیں۔ آپ کو شاید نظر نہیں آتا کہ شدت پسندوں کے خلاف جنگ جاری ہے ہر مسئلے کا مقابلہ کرنے کی کچھ نہ کچھ کوشش ضرور ہو رہی ہے اور نتیجہ بھی اللہ نے چاہا تو انشااللہ نکل ہی آئے گا۔ مگر معاشی زوال کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم مکمل اخلاقی زوال کا شکار بھی ہو جائیں۔ آپ نے تو سب لوگوں کو باقاعدہ مشورہ ہی دے دیا ہے کہ جو کرنا ہے چھپ کر کریں اور اس مشورے میں اتنا طنز اور زہر بھرا ہے جس سے صاف لگتا ہے کہ آپ عیاشی کی کھلے عام اجازت دلوانا چاہتے ہیں اور روکنے والے کو ’ملکی مسائل‘ کے حل کا مشورہ دے کر چپ کرا دینا چاہتے ہیں۔ اگر ملکی مسائل واقعی اتنے ضروری ہیں تو پوری قوم کو چاہیے کہ پہلے ملکی مسائل حل کرے اور پھر عیاشی کے متعلق سوچے۔
کعبے کس منہ سے جائو گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
جناب، دستی صاحب کے کیا کہنے۔ محترم کی اپنی اخلاقی شہرت کا تو کوئی ان کے حلقے میں جا کر پوچھے۔ یہ تو ہمارے پیارے وطن پاکستان میں ہی ہو سکتا ہے۔
عارف صاحب اس بات کيا مطلب ھے جو بھی کرنا ہے بند کمرے میں کرنا چاہیئے تاکہ کوئی گواہ نہ ملے اور کسی کی بھی اخلاقیات اور جذبات متاثر نہ ہوں۔
ميرے خيال ميں تو آپ کھلاڑيوں يہ بتانا چاہتے ہو کہ سب کچھ کرو ليکن بتاؤ نہیں۔بہت شکريہ آپ کے مشورے کا۔
کيا ہم واقعی سچے مسلمان ھيں۔
بہت شرم کی بات ہے، مجھے اپنے پاکستانی ہونے پر شرم آ رہی ہے۔ کیا کوئی پاکستانی ایسا بھی کر سکتا ہے؟ جمشید دستی کو اپنے اس تنگ نظر، سخت گیر، اور شرمناک فیصلے پر جرمانے کی سزا ہونی چاہیے اور اسکو واپس اسکے شہر مظفر گڑھ بھیج دینا چاہیے جہاں خواتین اور مرد اکٹھے کھیتوں میں کام کرتے ہیں، سڑکوں پر پتھر توڑتے ہیں مگر کبھی ایسے الزام نہیں لگاتے۔
ھم بابر اعوان جیسے انسان کو حارث سٹیل مل کے چار کروڑ کھانے کے انعام کے طور پہ اس کو قانون کی وزارت گفٹ کر دیتے ھیں اور پھر کبھی اس پہ شرمندہ نہیں ھوتے۔ھمارے ایم این اے کسی خاتون سے زیادتی کرتے ھیں اور پھر پیسے دے کر صلح کرتے ھیں اور اس پہ ھم شرمندہ نہیں ھوتے۔ھم اربوں روپے غریب عوام کے لوٹ لیتے ھیں اور پھر اس پہ زرا بھی نادم نہیں ھوتے۔اور ھم سمجھتے ھیں کہ ھمارے ملک کا نام بالکل بدنام نہیں ھوا اس میں۔ ھم کسی غریب کے منہ پہ تھپڑ مارتے ھیں اور پھر فخر سے اس پہ ھنستے ھیں اور ھم اس پہ شرمندہ نہیں ھوتے۔ اسلام آباد اور لاھور کے بازاروں میں سرعام جو ھوتا ھے اس پہ ھم بالکل بھی نادم نہیں۔ بس ایسا ھی ھے سب سے بڑا جرم ان کھلاڑیوں سے یہ ھوا کہ فوٹو بنوا بیٹھے اور ملک کی عزت خاک میں ملا دی۔ کیونکہ ھمارے ملک کی عزت کے جھنڈے طالبان نے، کرپٹ وزیروں نے پہلے بھی بہت گاڑھے ھیں اور ان کھلاڑیوں نے ملک کو بدنام کیا ھے ان کو اک لاکھ کی سزا کم ھے ان کو الٹا لٹکا دینا چاھے۔ تاکہ آج کے بعد کوئی کھلاڑی فوٹو بنانے کی جرات نہ کرے۔ باقی سب جو مرضی کرتے رھیں سب چلتا ھے۔پاکستان زندہ باد
بھائی جان جیسا چل رہا ہے چلنے دیں کر کوئی اور رہا ہے پیٹ میں ہمارے تکلیف ہورہی ہے!!!
نہ خود کھائیں گے نہ دوسروں کو کھانے دیں گے والی بات ہے یہ تو . اور ہم میں سے کوئی ایسا شریف نہیں ہے جیسا society میں میڈیا پر اور بلاگس پر بن نے کی کوشش کرتے ہیں .