یرغمال جمہوریت
ملک میں این آر او پر عدالتی فیصلے کے بعد کئی جمہوریت پسند حلقوں میں سازشوں کا شور مچایا ہوا ہے۔ جمہوری طور پر منتخب حکومت کے خلاف انتظامیہ/فوج کی ممکنہ سازش کے بارے میں اپنے خدشات کے حق میں ان حلقوں کے پاس دلائل بھی ہیں۔ پر مسئلہ یہ ہے کہ ان کی بات ماننے سے بحث ختم ہونے کی بجائے الجھ جاتی ہے۔
نئے سوالات جنم لیتے ہیں۔ کیا اب کسی بھی سیاستدان کے خلاف عدالتی فیصلے کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیا جائے گا۔
اور یہ کیسے معلوم ہوگا کہ عدالت نے کون سا فیصلہ میرٹ پر دیا ہے اور کون سا سازش کے تحت۔ کیا اس بات کا فیصلہ اس بنیاد پر ہوگا کہ لوگ کس سیاستدان کو پسند کرتے ہیں اور کس کو نہیں۔ کیا سیاست دانوں کو عدالتی عمل سے مستثنیٰ قرار دیا جائے؟
پاکستان کے جمہوریت پسندوں کے خدشات اور ڈر اور خوف کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت چند ناموں اور خاندانوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے۔ سیاست ان کے گرد گھومتی ہے۔ حکمرانوں کے بچے حکمران ہو سکتے ہیں لیکن سیاسی عمل سے گزر کر نہ کے صرف وراثت کے حق کے طور پر۔
سیاسی جماعتیں اتنی کمزور ہیں کہ ایک لیڈر کے ہٹنے سے جماعت، حکومت اور جمہوریت ختم ہو جاتی ہے، اور یہ ملک کی غیر جمہوری قوتوں کو معلوم ہے۔
اسی لیے بعض اوقات سیاسی قائدین کو قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں اور دباؤ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے کیونکہ انتظامیہ، فوج اور بیرونی قوتوں کو معلوم ہے کہ فیصلے کا اختیار انہی چند لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں جمہوری انداز میں منظم ہوں تو سازشیں بھی کم ہوں گی کیونکہ ان کی کامیابی کا امکان کم ہوگا۔
جمہوریت پسندوں کو دراصل اسی خامی کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ سازشیوں کو سازشی کہتے جانے پر وقت اور توانائی ضائع کرنے کی بجائے سیاسی جماعتوں پر جمہوریت متعارف کروانے کے لیے دباؤ ڈالیں۔
سیاسی جماعتوں کی کمزوری کی سب سے بڑی مثال تو یہ ہے کہ پی پی پی جیسی بڑی جماعت کو نیا لیڈر چننے کے لیے اپنی مرحوم سربراہ کی وصیت کا سہارا لینا پڑا۔ مسلم لیگ(نواز) کی صورتحال بھی مختلف نہیں، حالانکہ انہوں نے تنظیم سازی کے ایک پروگرام کا اعلان کیا ہوا ہے۔
انیس سو اٹھاسی میں بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو بنے کچھ وقت گزر چکا تھا۔وہ لاہور آ رہی تھیں اور سینیٹر گلزار کے گھر کے باہر کھڑے پی پی پی کے کارکن کچھ ارکان کے خلاف کرپشن کے الزامات پر افسوس کا اظہار کر رہے تھے۔ان میں سے ایک نے کہا کہ پتہ تو ہمیں بھی ہے لیکن بولنے سے پارٹی بدنام ہو گی اور نقصان 'ہم سب کا ہوگا'۔
سیاسی جماعتوں کے مالکان کی طرف سے سیاسی کارکنوں اور جمہوریت پسندوں کی اس طرح کی بلیک میلنگ ختم ہونی چاہیے۔ معاملات بھٹو، شریف کی حکمرانی سے آگے بڑھ کر جماعتوں کی حکمرانی کی طرف جانے چاہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
دو ماہ عرصہ بعد آپ کو بلاگ صفحہ پر پا کر اچھا لگا۔ باقی یہ کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت یرغمال ہے تو آپ آ کر اس کو چھڑوا لیں اگر چھڑوا سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی میں اگر بھٹو خاندان یا فیملی کا کوئی فرد کمانڈ میں نہیں ہو گا تو اس پارٹی کے قصہ پارینہ بن جانے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ بھٹو خاندان کا قتل بھی اس پارٹی کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا تھا اور آج ‘ہز ایکسیلینسی صدر پاکستان‘ کے خلاف جو پراپیگنڈہ چل رہا ہے اس کے پیچھے بھی پی پی دشمنوں کا یہی فلسفہ کارفرما ہے کہ پی پی کی لیڈرشپ میں بھٹو خاندان و فیملی کا ختم کیا جائے تاکہ یہ تِتر بِتر ہو جائے۔ پی پی میں جب تک بھٹو کمانڈ موجود ہے یہ اسی طرح جگمگ جگمگ کرتی رہے گی۔ پی پی کے سیاسی مالکان اسکے کروڑوں عوام ہیں نہ کہ شخصیت۔ اگر یہ کروڑوں عوام شخصیت سے محبت کرتے ہیں تو اسکو ‘شخصیت پرستی‘ کا فلسفہ بگھیر کر ہم جیالوں کو بیوقوف بنانا صرف ایک خواب ہی ہوگا۔
جناب سب سے پہلے تو آپ اپنی غلط فہمی دور کرليں کہ پيپلز پارٹی ايک خاندان کے ہاتھوں ير غمال ہےہاں يہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ بھٹو خاندان کروڑوں لوگوں کے ہاتھوں يرغمال بن چکا ہے- بلکہ يرغمال کا لفظ درست نہيں يہ کہيں کہ کروڑوں لوگ اور بھٹوز ايک دوسرے کے عشق ميں گرفتار ہيں جبھي يہ موت کے خوف سے آزاد ہيں-يہ سوچ بھی باکل غلط ہے کہ بھٹو خاندان کے بغير پيپلز پارٹی کچھ نہيں اگر ايسا ہوتا تو يہ جماعت ضياءالحق کب کا ختم کرچکا ہوتا -محترم دوست پيپلز پارٹی کی اصل طاقت اسکا نظريہ ہےجو ايجنسيوں کی بغل بچہ مسلم ليگوں اور لسانی جماعتوں کے جنگل ميں قوم کے لۓ ايک اميد کی کرن ہے - اس نظريہ کے لۓ لڑنے کی بھٹو خاندان فطری صلاحيت رکھتا ہے اب آپ اسے اجارہ داری کہيں تو يہ آپ کی سوچ ہے-
اسد
محترمی ميں ايک سوال پہلے بھی کرچکا ہوں اب پھر دہرا رہا ہوں کہ سياست دانوں پر لگے تمام کرپشن کے الزامات کو اگر يکجاء کرليا جاۓ تو بھي مشرف دور کي سات سالہ امريکی امداد ميں غبن کا پلڑا بھاری ہے - آمريت کے تمام ادوار کی کرپشن يکجاء کرلی جاۓ تو سياست دان معصوم ہی نظر آئينگے کيا احتساب کاعمل وہاں شروع کيا جانا بہتر نہيں ہوگا؟
پاکستان ميں جمہوريت کي مکمل بحالي کے ليۓ اب ايک نئے آئين کی اشد ضرورت ہے اور اس آئين ميں پاکستان کا نام تبديل کرکے عوامی جمہوريہ پاکستان ہو اور پاکستان کے ہر شہری سے اس آئين کا حلف بذريہ شناختی کارڈ ليا جاۓ اور تمام نظرياتی ،مذہبي،لسانی يا مخصوص قومی جماعتوں پہ پابندی ہو صرف معاشی پيکيج پيش کرنےوالی جماعتوں کو اليکشن ميں حصہ لينے کی اجازت ہو ليکن عوام کو اپنے اپنے مذہبی طور طريقوں يا رسم و رواج کی مکمل اجازت ہو اور ايک دوسرے کے ذاتی مامعلات ميں مداخلت کرنا جرم تصور کيا جائے۔يہ ہی ايک امن اور دنيا کو تسخير کرنے کا راستہ ہے اور اس پہ عمل بھی ہوسکتا ہے اگر اسی طرژ کے نظرياتی ملکوں ميں فخر سے جانے والے ليڈر يعنی الطاف حسين،عمران خان،شريف برادران،پرويز مشرف اور صدر زرداری ايک ميز پہ بيٹھ کر ڈرامائی انداز ميں پاکستان کی تقدير بدلنے کا فيصلہ کرليں۔
بھت اعلی پو ائنٹ اٹھا يا ھے„„واقعی ايسا ھی ھو نا چا ھۓ مگر ملک کے چا چے ما مے بنے ھو ۓ يہ لو گ پتہ نہيں کب تک عو ا م کے ساتھ عو ام کے نا م پر کھيل کھيلتے رھيں گے„„
وہ کيا ميکنزم ہے کہ جو عوام کو سياسی جماعتوں کے بجائے شخيت پرستی کی طرف دھکيلتا ہے؟ برصغير ميں رياست ظالم بادشاہت کا درجہ رکھتی ہے- اور عوامی ليڈر ان کے مانے والوں کے خيال ميں رياست سے ٹکر ليتے ہيں- اب کہاں، کب اور کس وجہ سے رياست ”باپ” کا کردار ادا کرنے کے بجاۓ ”ظالم بدشاہت ” ديکھائی ديتی ہے؟ يہيں وہ ميکنزم تيار ہوتا ہے جو عوام کو شخصيات پرستی کی طرف دھکيلتا ہے- ميں خود گاندی جی کا مانے والا ہوں - اب بتائيں گاندی جی کتنے عرصے کانگرس کے صدر رہے يا وہ کتنے پيسے والے تھے؟ مگر رياست کے ظالم قوانين کے خلاف ان کا کردار اور غريب کے ليے ان کی جہدوجہد ميرے خيال ميں انہيں دوسرے ليڈروں سے ممتاز کرتی ہے- يہاں ايک بدمعاش کو بھی اسی ليے ہيرو کے طور پر پيش کيا جاتا ہے کيونکہ بقول عوام کے قانون توڑ کر اس نے رياست سے ٹکر لي-
اسد انکل۔ ويلکم بيک!
سب جماعتوں سے زیادہ جمہوریت تو جماعت اسلامی میں ہے۔ قاضی کی مدت امیری ابھی ختم بھی نہیں ہوئی تھی انہوں نے جگہ پہلے ہی خالی کرنا شروع کر دی تھی منور حسن کی خاطر۔ پی پی اور ن لیگ نے تو شاید جمہوریت کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے اور سمجھتی ہیں کہ ان کے بغیر پاکستان میں صرف امریت ہی باقی بچتی ہے۔ ان جماعتوں کے سربراہوں کی مدت لیڈرشپ ختم ہونے والی ہو تو ان کے لیڈر اپنی جماعت کو بھی توڑنے کی سازشیں شروع کر دیتے ہیں۔ اور یہی صورتحال الطاف بھائی کی پارٹی میں ہے۔ اور سائکو صاحب آپ کی پی پی سے اندھی محبت کب ختم ہوگی؟