'پرایوں کی خیرات، اپنوں کی لوٹ مار'
یقین مانیئے میں ا ندازِ بیان میں ندرت پیدا کرنے کی ہرگز سعی نہیں کررہا ہوں بلکہ یہ میرا اتوار کی دوپہر کو دیکھا ہوا سچ مچ کا خواب ہے۔ البتہ تعبیر میں نے جاگ کر کی ہے وہ ایسے کہ اگر ہم اپنے ملک کا انتظام و انصرام خواب میں بھی چلانا چاہیں تو یہ ویسے ہی چلے گا جس طرح میں نے خواب میں چلتے ہوئے دیکھا ۔ ہاں البتہ خطرہ یہ ہے کہ ' خواب ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔'
اچھا پہلے خواب سنیئے پھر شاید ہی میری تعبیر پر آپ لوگ بہتر طریقے سے رائے زنی کرسکیں۔
ہوا یوں کہ میں گاڑی میں جارہا ہوں کہ کسی چھاؤنی کے قریب پہنچ کر مجھے دو راستے نظر آجاتے ہیں جن میں سے ایک بند اور دوسرا کھلا رہتا ہے۔ جو کھلا ہے وہ آگے بند راستے سے جو شہر کی طرف جاتا ہے جاکر ملتا ہے۔ میں دوسرے راستے تک پہنچنے کے لیے کھلے راستے پر گاڑی ڈال دیتا ہوں۔ کچھ دور جاکراندازہ ہوتا ہے کہ فوجی علاقہ میں داخل ہواہوں۔
ابھی میں دوسرے راستے سے کچھ ہی فاصلے پر ہوں کہ ایک چیک پوسٹ پر سکیورٹی اہلکار روک کرکہتا ہے کہ یہ 'شارع عام نہیں ہے' اور جو سویلین یہاں سے گزرتے ہیں انہیں تین سو روپے کا جرمانہ اداکرنا پڑتا ہے۔
میرے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھ کر کہتا ہے کہ اگر یقین نہیں آتا تو میں آپ کو وہ رجسٹر دکھا دیتا ہوں جس میں ہم جرمانے کے پیسوں کا حساب کتاب درج کرتے ہیں۔ میں دلیل دیتے ہوئے کہتا ہوں کہ دیکھیں جی، وہ دوسرا راستہ بند تھا اور یہ کھلا ، جب میں اس راستے پر آرہا تھا تو کہیں پر بھی کوئی ایسا بورڈ یا بینر آویزاں نظر نہیں آیا کہ جس پر لکھا ہواہو کہ سویلین اس سڑک پر سفر کرنے سے گریز کریں بصورتِ دیگرجرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
اس موقع پر ایک اور اہلکار بھی موجود ہوتا ہے جس کی فرنچ کٹ داڑھی ہوتی ہے اور شکل و صورت سے بالکل گورا لگتا ہے۔ پہلا اہلکار ان کی رائے طلب کرتا ہے۔ وہ آہستہ سے کہتا ہے کہ ان سے ان کے کوائف معلوم کرلیں۔ وہ اہلکار مجھ سے پوچھتا ہے' کیا آپ پاکستانی ہیں؟' میں کہتا ہوں'جی'۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو ناپنے کے انداز میں ملاکر ایک چبوترا نما جگہ پر بیٹھ کر کہتا ہے، ادھر آؤ میں آپ کے قد کو ناپناچاہتا ہوں۔ اس وقت تک میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہوتا ہے اور جیب میں ہاتھ ڈال کر ہزار روپے کا نوٹ نکالتے ہوئے اس سے تھمکا کر کہتا ہوں یہ لو، جرمانے کے پیسے کاٹ کر بقیہ رقم واپس کردینا۔
وہ جب بقایا رقم لانے جاتا ہے تو اس گوری رنگت کے اہلکار سے کہتا ہے کہ 'جرمانہ وصول کرنےسے ہمارا مقصد یہ ہے کہ ان لوگوں کو ریاست کے وجود کا احساس ہوجائے۔'
یہ سن کر میرا خون کھول اٹھتا ہے اور پیچھے سے آواز دے دیتا ہوں' ہاں ہاں، پیسہ ہے توآپ لوگ ہیں، آپ لوگ ہیں تو ریاست، ریاست ہے تو ہم( عوام) اور ہم ہیں تو پرایوں کی خیرات اور اپنوں کی لوٹ مار۔'
تبصرےتبصرہ کریں
جناب والا بڑا زبردست بلاگ ہے۔ خواب ايسا کہ تعبير اپنے آپ نکل آئے۔ اب رہی بات خيرات اور لوٹ مار کی تو يہ تو سسٹم کا اٹوٹ حصہ ہے اور اس سسٹم ميں عوام وہيں فٹ ہوتے ہيں جہاں آپ نے اپنے آپ کو ديکھا۔ اب بتایئے انقلاب، بغاوت يا احتجاج کی باتيں آج کے سسٹم ميں کوئی معنی رکھتی ہيں؟
’ہمارا مقصد یہ ہے کہ ان لوگوں کو ریاست کے وجود کا احساس ہوجائے۔‘ کمال ہے يہ فقرا ميں کئی مرتبہ پاکستان ميں سن چکا ہوں۔ مجھے يہ سمجھ نہيں آتی کہ لوگ آخر تاريخ کيوں نہيں پڑھتے؟ کچھ نہيں تو ابن خلدون ہی کو پڑھ ليں۔ رياست کے يہی انداز تو بيان کيے ہيں اس نے اور انجام بھي۔ لوٹ مار رياست کے قوانين کے تحت ہو يا رياست کے اہلکار کے ذاتی رويہ کی وجہ سے، وہ کہاں لے جاتی ہے؟ اس کے ليے کسی نجومی کی ضرورت نہيں ہے۔ مذہبی نعروں اور جنگوں سے رياست نہيں بچتی ہاں کچھ سال نکال ليتی ہے۔ ليکن عوام کو عبرت ناک بنا ديتی ہے۔
’خواب ہوتے ہیں دیکھنے کے لیے
ان میں جا کر مگر رہا نہ کرو‘
تين سو کا زخم اتنا گہرا لگا کہ بلاگ لکھ ليا۔ شکر ہے پانچ سو جرمانہ نہيں ہوا ورنہ اگلے ايک مہينے تک آپ اپنے زخم خود ہرے بھرے کرتے رہتے جرمانہ چھيڑچھيڑ کر۔
جو درد ملا اپنوں سے ملا
غيروں سے شکايت کون کرے
ويسے تو پاکستان کے لاتعداد بدخواہ ہيں پر آپ کے انگ انگ ميں پاکستان سے دشمنی رچی بسی ہے اور اسکی واضح مثاليں آپ کے بلاگز ہيں۔ لوگ کہتے ہيں کہ صحافي ہر معاملے ميں غيرجانبدار رہتے ہيں پر آپ کے متعلق تو ايسا نہيں کہا جا سکتا۔