مقدمہ سازی کی قیمت
سپریم کورٹ کا فیصلہ اصولی اور اخلاقی طور پر بجا لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عدالتوں میں جانا کبھی کوئی آسان کام نہیں رہا ہے اور اسی لیے مقدمہ سازی کو دشمنیوں میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
یہ نہ صرف انتہائی مہنگا عمل ہے بلکہ یہ عملی طور پر اتنا طویل بھی ہوتا ہے کہ اس سے ملزم مالی اور ذہنی لحاظ دونوں سے تباہ ہو سکتا ہے۔
کم ہی ایسے وکیل موجود ہیں جو لیگل ایڈ یا انسانی مدد کے لیے کام کرتے ہوں۔ ان کی فیس کے علاوہ آپ کے پاس ضمانت کے لیے بہت سارے پیسے ہونے چاہیئں اور 'دیگر عدالتی اخراجات' کے لیے رقم الگ۔
سیاستدانوں نے بدعنوانی ضرور کی ہوگی لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے خلاف مقدموں کا فیصلے دس سال سے زیادہ عرصے میں کیوں نہیں ہوتا؟ یا تو سیاستدان انہتائی چالاک ہیں، یا پھر عدالتیں حکومت وقت سے انتہائی خوفزدہ رہی ہیں یا پھربہت ہی تابعدار ۔
عدالتوں میں جا کر مقدمات میں اپنا دفاع کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ وہ نہ صرف ایک فل ٹائم جاب ہے بلکہ نروس بریک ڈاؤن کا موثر طریقہ بھی۔
میں اپنا ذاتی تجربہ بیان کر دوں۔ جب میرے (سابق) سرکاری افسر شوہر کو اس لیے ایک کیس ملوث کر دیا گیا کہ وہ 'دیگر حکام'سے تعاون نہیں کر رہے تھے تو میں نے اس سلسے میں ایک وکیل سے رابطہ کیا۔
ان وکیل صاحب کے پاس میرے چچا نے مجھے بھیجا جو کہ خود ہائی کورٹ کے جج رہ چکے تھے۔ وکیل صاحب نے مجھے بتایا کہ ان کی فیس پانچ لاکھ روپے ہے (یہ تیرہ سال پہلے کا واقعہ ہے) لیکن رعایت کے طور پر وہ ہم سے سے صرف ایک لاکھ روپے لیں گے جو کہ کیش میں کل ہی ان کے پاس لے کر آنا ہوگا۔
شوہر گریڈ سترہ کے ملازم تھے اور میں بھی اس وقت سکول میں نوکری کے علاوہ ایڈیٹنگ کے دیگر کام کیا کرتی تھی لیکن مہینے کے آخر تک ہمارے سارے پیسے ختم ہو جاتے تھے تو پھر ہم ایک لاکھ کیش کہاں سے لے کر آتے؟
اس دن کے بعد سے مجھے ان سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی تھوڑی سمجھ آگئی جو کہ شاید ایسے ہی برے وقت کے لیے کہیں نہ کہیں سے غیر قانونی اور بدعنوانی کے طریقوں سے پیسے بناتے ہیں۔ تاکہ جب ان کے دشمن ان پر سنگین الزامات لگا کر مقدمے قائم کریں تو ان کے پاس فیس اور ضمانت کے پیسے تو ہوں۔
میں یہ نہیں کہہ رہی کہ یہ صحیح بات ہے لیکن یہ حقیقت ہے۔ اور این آر او پر عدالتی فیصلے کے بعد غور طلب یہ بات بھی ہے کہ پاکستان میں یہ کیوں ہوتا ہے کہ بار بار ایک ہی جماعت یا سوچ کے لوگ اس مقدمہ سازی کا نشانہ بنتے ہیں؟
کیا باقی تمام سیاستدان بہت معصوم اور شریف ہیں؟
تبصرےتبصرہ کریں
”غور طلب یہ بات بھی ہے کہ پاکستان میں یہ کیوں ہوتا ہے کہ بار بار ایک ہی جماعت یا سوچ کے لوگ اس مقدمہ سازی کا نشانہ بنتے ہیں؟”
کتنی نفرت کرتی ہے اسٹبلشمنٹ اس جماعت سے- اور ہمشہ يہی جماعت ووٹ بھی زيادہ ليتی ہے- اصل ميں اس جماعت کے پاسں عوامی طاقت بہت ہے اسی ليے بدتميز بہت ہے- اور اسٹبلشمنٹ کو بد تميزی پسند نہيں ہے- يا شايد چھوٹے اور گھٹيا صوبے سے تعلق رکھتی ہے-
محترمہ عنبر خیری صاحبہ، آداب! بطابق خاکسار، معطلی کے بعد بحال ہونے والی عدلیہ کا این آر او کے پیچھے ہاتھ دھو کر دوالے ہونے میں انتقام، عدلیاتی مفادات، عدلیاتی آمریت کے نفاذ اور ملک میں سیاسی افراتفری پیدا کرنے کی کوششوں کو بعید از قیاس قرار نہیں دیا جا سکتا۔
بحال شدہ عدلیہ کے ‘کارناموں‘ مثال کے طور پر ‘این آر او‘ کو کالعدم قرار دینا، سرمایہ داروں کے ٹولے اور تاجروں کے جتھے پر مشتمل ن لیگ کے وزیراعلٰی پنجاب کی ‘نااہلیت‘ کے عدلیہ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر ‘بحالی‘، ‘طیارہ سازش کیس‘ کو بھول جانا، سبزہ زار پولیس مقابلہ کیس کو گول کر جانا، سپریم کورٹ پر دن دھاڑے مسلح حملہ کیس کو ‘سُرخ فیتہ‘ لگا دینا وغیرہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے عدلیہ بحال کروانے والوں کو ‘نوازا‘ جا رہا ہو اور ساتھ ہی یہ بھی نظر آتا ہے کہ جیسے ملک میں ایک دفعہ پھر ‘جوڈیشل بیوروکریسی‘ کو جمہوریت اور بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ‘ہضم‘ نہیں ہو سکی، اور جیسے کوئی پاکستان کو ‘جناح کا پاکستان‘ بننے کی طرف گامزن دیکھنا پسند نہیں کرتا۔
مزید برآں، یہ دیکھنا ہوگا کہ ‘این آر او‘ کو کالعدم کرنے سے سب سے زیادہ فائدہ کس کو پہنچتا ہے؟ چونکہ ‘این آر او‘ بدعنوانی، کرپشن اور فوجداری مقدمات کو معاف کرنے کا نام ہے، اور یہی وہ باتیں ہیں جن کے بل بوتے پر پاکستان میں ‘آمریت‘ ظہور پذیر ہوتی رہی ہے، لہذا اس فیصلے سے فوج کا قد بڑھ جاتا ہے اور اسکی تمام ‘آمریتوں‘ کو ‘عدالتی تحفظ‘ بھی بلواسطہ مل جاتا ہے اور فوج کے سیاستدانوں پر لگائے گئے الزامات ایک حقیقت کا روپ دھارتے نظر آتے ہیں۔ گویا، ‘این آر او‘ پنڈورا باکس کھول کر ‘جمہوریت دشمنی‘ اور ‘آمریت پسندی‘ کا ثبوت دیا گیا ہے! دوسری طرف ‘دہشتگردی کے خلاف جنگ‘ کو مدِنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو دیکھا جائے تو یہ انہی کو سپورٹ کرتا ہے جن کی (بلواسطہ یا بلاواسطہ) وجہ سے پاکستان ‘بھنور‘ میں پھنسا ہوا ہے یعنی ‘ملائیت‘ جس میں جماعت اسلامی، ن لیگ، ق لیگ، ایم ایم اے شامل ہیں۔ وہ اس لیے کہ ‘این آر او‘ کیس کھولنے سے تجربہ کار اور ‘بائیں بازو‘ کی طرف جھکاؤ رکھنے والے سیاستدانوں کو ‘نااہل‘ قرار ٹھہرتے ہیں۔ اب اگر مڈٹرم الیکشن ہوں تو انتخابات میں حصہ لینے میں صرف ‘ملائیت‘ ہی ‘اہل‘ ٹھہرتی ہے اور جب یہ خدانخواستہ ‘اسلام آباد‘ میں آ بیٹھی تو پھر ‘پاکستان‘ اور ‘افغانستان‘ میں جو تھوڑا بہت فرق ابھی باقی ہے وہ بھی نہیں رہے گا! ‘این آر او‘ کے دوالے ہونے کی ایک اور وجہ خاکسار کے خیال میں یہ بھی ہے کہ چونکہ بحال شدہ عدلیہ اپنا زور لگانے کے باوجود نہ ہی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر کنٹرول کر سکی اور نہ ہی چینی بحران حل کر سکی، لہذا اس شرمندگی کا اثر زائل کرنے کے لیے ‘این آر او‘ پر زور لگایا گیا۔ دیگر الفاظ میں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی۔ مانا کہ ‘این آر او‘ ایک مخصوص طبقہ کو نوازتا ہے اور انکی کرپشن وغیرہ کو معاف کرتا ہے، اس لیے یہ قانون غلط ہے، لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایسا جھوٹ جس سے امن ہو، اس سچ سے کہیں بہتر ہوتا ہے جو آگ لگا دے۔
ماسوائے پی پی پی اور ايم کيو ايم کے باقی سب دودھ کے دھلے معصوم فرشتے نظر آرہے ہيں- دل چاہتا ہے کہ گجرات کے چوہدريوں کی بيعت کر لوں، کرنی تو شريفوں کی چاہيۓ، ليکن وہاں اب باری آنے کی اميد نہيں-
چند ماہ قبل، انارکلی لاہور میں ہر اتوار کے دن فٹ پاتھ پر لگنے والے ‘کتاب میلہ‘ میں برطانوی صحافی ایما ڈنکن کی کافی سال پہلے لکھی گئی ایک کتاب بعنوان ‘ بریکنگ دی کرفیو‘ خاکسار کے ہاتھ لگی۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ:
‘پاکستان میں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کا ایک مرض موجود ہے۔ فرقہ وارانہ اور لسانی فسادات روز کا معمول ہیں۔ تعلیمی اداروں میں گڑبڑ رہتی ہے۔ یہاں سرکاری ملازموں سے کہا جاتا ہے کہ وہ انتخابات میں دھاندلی کرکے مثبت نتائج دیں۔ یہاں ہر کام قانون کے پردہ میں کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ملک کی اعلٰی عدالت، فوجی حکومت اور اس کے اقتدار کا قانونی جواز ‘نظریہ ضرورت‘ بھی فراہم کر دیتی ہے۔ ایک طرف بے حد غربت ہے اور دوسری طرف بے حد امارت ہے۔ یہاں نو دولتیے اپنی امارت کا خوب اظہار کرتے ہیں۔ بگٹی نے اسی لیے کہا تھا کہ ہم پر کالے آقا مسلط ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں لوگوں کا عقیدہ ہے کہ عدالتیں اس شخص کی خدمت کرتی ہیں جو امیر ہو یا برسرِاقتدار ہو۔ امیر طبقہ عدالتوں کے تقدس کا رکھوالا ہوتا ہے اور اس تقدس کو عروج کی اس سطح تک لے جاتا ہے جہاں مذہب کی سرحدیں شروع ہوتی ہیں۔ پاکستان شروع سے ہی ملٹری اور سول بیوروکریسی کے تحت رہا ہے۔ جس کے سرخیل غلام محمد، ایوب، ضیاء اور غلام اسحاق رہے ہیں۔ اس نظام میں کبھی کبھی ذائقہ بدلنے کے لیے سیاستدانوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے مثلآ خواجہ ناظم الدین اور بھٹو وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘
معطل عدلیہ جب سے بحال ہوئی ہے، اس کے فیصلوں، کیس کھولنے اور نہ کھولنے کے ‘معیار و نصاب‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے، ‘این آر او‘ کے لیے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے ‘سترہ ججوں‘ پر مشتمل پینل کی تشکیل (مقصد شاید یہ کہ منظم، بھرپور اور زور دار تیاری تاکہ ناکامی کا سوال ہی پیدا نہ ہو) اور ‘این آر او‘ کالعدم ہونے کے بعد اس کے اثرات و ممکنہ نتائج پر سرسری سی نظر ہی دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ملٹری اور سول بیوروکریسی کے بعد--
ایک بہتر، پائیدار، یگانگت سے بھرپور حکومت کے لیے ضروری ہے کہ جسطرح ‘مذہب‘ ‘ریاست‘ سے الگ ہو، بالکل اسی طرح ‘عدلیہ‘ کو بھی ‘ریاست‘ سے الگ رکھنا ہوگا۔ پارلیمنٹ کو بھی چاہیے کہ اس سے پیشتر کہ ‘عدلیاتی آمریت‘ سر چڑھ کر بولے، اس کو اسکی حدود میں پابند رکھنے کے لیے فی الفور کوئی ‘قانون سازی‘ کرے۔
علاوہ ازیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی رواں حکومت، پاکستانی تاریخ کی وہ واحد حکومت ہے جو ‘قومی یکجہتی‘ کی فضاء اوکھے سوکھے ہو کر قائم کیے ہوئے ہے حتیٰ کہ اپنے پیدائیشی و نظریاتی حریفوں یعنی ایم کیو ایم اور ضیائی باقیات ن لیگ کو بھی ساتھ لے کر چل رہی ہے اور ان کے ناز نخرے نہ چاہتے ہوئے بھی اٹھا رہی ہے۔ ان حالات میں ‘این آر او‘ کو ‘ری اوپن‘ کروانے کے پیچھے پاکستان کو ‘غیرمستحکم‘ کرنے کی ‘سازش‘ بھی ہو سکتی ہے۔
‘ہیں جال وہ ہوا میں کہ آتے نہیں نظر
خوشبو بھی ہو نہ جائے گرفتار دیکھنا‘
يہ سب افسو سنا ک بھی ھے ا و ر اند و ہنا ک بھيءءسيا ستد انو ں ا و ر عد ا لتو ں کو اسکا اد ر ا ک کر نا چا ھيے„„يکطر فہ يا مخصو ص حلقے کی طر ف عد ا لت کو نہيں جھکنا چا ھيۓ
ماشااللہ کیا عمدہ دلاءل دیے ہیں امبر خیری صاحبہ نے اور ساتھ ساتھ پڑھنے والوں نے بھی۔
چونکہ عدالتیں تاخیر سے فیصلہ کرتی ہیں یا کرتی ہی نہیں اس لیے مالی یا اخلاقی کرپشن کرنے میں کوءی حرج نہیں ہے۔
چونکہ وکیلوں کی فیس بہت زیادہ ہوتی ہے اور وہ جاءز کماءی سے نہیں دی جا سکتی اس لے مالی کرپشن کرنے میں کوءی حرج نہیں ہے۔
چونکہ پاکستان پیپلز پارٹی سب سے زیادہ عوامی ووٹ لیتی رہی ہے اس لیے اس پر کسی قسم کا مالی یا اخلاقی بد عنوانی کا مقدمہ قاءم نہیں کرنا چاءیے۔
چونکہ عدلیہ کی بحالی میں آخر میں ن لیگ کا سرگرم کردار تھا اس لیے اس عدلیہ کی طرف سے سنایا جانے والا کوءی بھی فیصلہ معتبر نہیں ہو سکتا۔
چونکہ این آر او سے ن لیگ،ق لیگ،فوج اور کسی مذہبی جماعت نےزیادہ فاءدہ نہیں اٹھایا اس لیے اس کے خلاف فیصلہ نہیں دینا چاءیے تھا۔
میرے ایک الجھن ہی دور کردیں۔ پیپلز پارٹی جیسی عوامی سیاسی جماعت ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے سہارے سے ہی کیوں اقتدار میں آتی ہے چاہی وہ اکہتر میں یحیی کا کندھا ہو، یا اٹھاسی میں کچھ شرایط پر اقتدار سمجھوتا، یا جنرل آصف نواز سے گھٹھ جوڑ یا پھر مشرف کے ساتھ این آر او؟
کون کہتا ہے کہ پاکستان میں لوگوں کی سوچنے جذباتیت کا مظاہر ہ کرتے ہیں۔
جہاں آگ ہوتی ہےدہواںبھی اسی جگہ سے اٹھتا ہے-
بھی اپ سب جذباتی نہ ہوں جس طرف حالات جا رہے ہيں فائدہ عوامی پارٹی کو ہی ہو گا اگر اسی طرح چلتے رہے اگر سياست دان صاف ہوں تو کوئی بھی فوجی گند صاف کرنے نہيں آئے گامگر سياستدانوں کو جب موقع ملتا ہے يہ جمہورتی کو مضبوط کرتے کی بجائے ايک دوسرے کو بچانے لگتے ہيں جس ميں اچھے اور برے سب کا صفايا ہو جاتا ہے اور امر ايک خواب ديکھتا ہے سارے سياست دان برے نہيں مگر کسی بھی اچھے کام کو سراہنا چاہے يہ سياستدان قانون پاس کريں کہ آئندہ جس کسی پر بھی الزام آيا وہ استيفي دے اگر الزام غلط ثابت ہو تو لگانے والے کو سزا اس سے ان کے قد ميں اصافہ ہو گا اين ار او کا فيصلہ جمہوريت کو کرنا چاہيے تھا عدليہ ميں کو اس او لے کر گئے خود کيوں نےہيں کرتے سکے سوچنے کی بات يہ ہے جو کام عدليہ کر رہی ہے اگر سياست دان کريں تو سب چند دنوں مٹيں ٹھيک ہو جاؤے گا
عنبر باجی درست کہا آپ نے پاکستان کی عدالتوں کے بارے ميں- ميرا زاتی تجربہ ہے کہ اگر کسی شريف بندے سے بدلہ لينا ہے تو اسے عدالت تک گسيٹ ليں ، غريب کے جوتے گھس جائينگے تاريخيں لے لے کر- چيف صاحب جب ريليوں ميں نہا کر دوبارہ وارد ہوۓ تو اميد ہوچلی تھی کہ کچھ بدلے گا پر صرف باہر کھڑے ہونے والے دربانوں کا لباس ہی بدلہ - نامعلوم يہ آزاد عدليہ کس کيلۓ لۓ رحمت کا باعث بنی ہے-
ايک مقدمہ اور سات ججز تبديل باقی رہی سہی کثر وکلاء تنظيميں نکال ديتی ہيں کبھی يہ ججز کی برطرفی کے افسوس ميں، تو کبھی فيصلے کی خوشی ميں عدالتوں کا پہيہ جام کراديتی ہيں- جہاں تک اين آر او کا تعلق ہے ميرا يہ سوال ہے کہ اخلاقيات کا سبق سکھانے والے يہ بتائينگے کہ دوہفتوں ميں بڑے مقدمہ کا فيصلہ سنانے والے يہی ججز چودہ سال تک کيوں سياسی مقدمات کو لٹکاتے رہے؟
خير چھوڑيں مٹی ڈاليں اس پر بھی سنا ہے اين آر او پر فيصلے کے بعد عدليہ پہلے سے زيادہ آزاد ہوگئ ہے اس لۓ ميں اميد کرتا ہوں کہ عدالت عظمہ مشرف کے دور ميں ملنے والی اربوں ڈالر کی امريکی امداد ميں ہونے والے غبن پر بھی کاروائ کرے گي، ايٹمی اسلحہ کی اسمگلنگ کے نتيجے ميں جرنيلوں نےبہت کمايا اور ملک کو ملی بدنامی اميد ہے کہ سترہ رکنی بنچ تشکيل پاۓ گا ---
ماشاءاللہ کيا موقف اختيار کيا ہے تبصرہ نگاروں نے اور بلاگ رائٹر نے!
سوال يہ ہے کہ سوئس بنکوں ميں يہ پيسا کہاں سے آيا اور اين آر او سے فائدہ اٹھانے والے عدالتوں ميں اپنی بے گناہی کيوں ثابت نہيں کرسکتے؟ جو صاحب چاہتے ہيں کہ بدعنوانی پر عدالتيں ماضی کی طرح اب بھی خاموش رہيں اور عوام کی خون پسينے کی کمائ کو حکام لوٹتے رہيں وہ عوام کی اتنی ہی دشمن ہيں جتنا يہ لٹيرے! عوام بيچاری کو مختلف نعروں سے دھوکہ ديکر انکو لوٹا گياـ يہ لٹيروں کے حامی بھول گۓ کہ کس طرح عوام سے ہمدردی کے ووٹ ليکر عوام کو مہنگائ سے بالکل اسی طرح زبح کيا جا رہا ہے جيسے قاتلان کر رہے ہيں
پيپلز پارٹی نے 1988 والی غلطی ايک بار پھر دوہرائی ہے- ہمارے معاشرے ميں انتقام اور نفرت کو بہت پسند کيا جاتا ہے- انتقام اور نفرت ہي کي بدولت اتني بڑي انتظاميہ، عدليہ، ميڈيا، لاکھوں وکلاء اور اہلکاروں کي روزي روٹي چلتي ہے- مفاہمت اور درگزر کمزوری کی نشانی ہے- پيپلز پارٹی اقتتدار ميں آکر مفاہمت کی بجائے انتقامی پاليسی اپناتی تو مزکورہ اداروں اور افراد کو دس پندرہ سال پرانے مقدمات کي فائيلوں پر پڑي گرد جھاڑ نے کي ضرورت نہ پڑتي- روز نئے ڈرامے ہوتے، نئے نئے مقدمے بنتے، انھيں ثابت کرنے يا نہ کرنے پر وکلاء کو قومي خزانے سے کروڑوں روپے ادا کيۓ جا رہے ہوتے، مشرف دور کے پنچھی زير عتاب ہوتے، تو ميڈيا کو بھي پراني کہانيوں پر گزارہ نہ کرنا پڑتا- مفاہمت کی پاليسی کا يہی انجام ہونا ہے، اب بھگتو-
سارا ٹوپی ڈرامہ وکلاً کو نوازنے اورنوازں کی راہ ہموار کرنے کے لئے ہے
حد ہوگئ جذباتيت کی اس والہانہ ديوانہ پيار کی سياسی جماعتيں ذرا برابر بھی قدر کرتيں تو آج سب چمک رہےہوتے ايسے ميلے نہ ہوتے،ويسے صدر صاحب کو يہی اپنے دفاع ميں وکيل اٹھالينا چاہيۓ کيس خود ہی بند ہوجائےiگا جو جج صاحبان ہی نہ رہیں گے يہ تاويليں جذباتی نعرے روڈوں گلی کوچے تک ٹھيک ہيں ادھر معاف کريں، اب ہر ايک سياستدان کا احتساب ہونا چاہيۓ ہر نودولتيے سياستدان سميت چاہے وہ شريف ہو يہ بدمعاش
ميڈيا، فوجی حکمرانوں کي اور فوجی حکمران، عدليہ اور وکيلوں کی دل کھول کر درگت بنا رہے تھے کہ پيپلز پارٹی نے اقتتدار کے لالچ ميں سارا ملبہ اپنے اوپر ڈال ليا- اب ميڈيا، عدليہ اور وکلاء پيپلز پارٹی کی درگت بنا رہے ہيں اور فوج انتظار ميں ہے کہ کب موقع ملے تو سب کا حساب کتاب بے باک کرے-