| بلاگز | اگلا بلاگ >>

صلیبیں اٹھائے لوگ

اصناف:

حسن مجتییٰ | 2009-08-07 ،16:57

مجھے اختر کالونی کراچی کا وہ ٹین ایج لڑکا یاد ہے جس کے والدین اسے گھر سے بن سنور کر اچھے کپڑے پہن کر باہر نکلنے سے منع کرتے تھے کہ کہیں پڑوسی مارے حسد کے اس پر 'توہین رسالت' کی آڑ لے کر حملہ نہ کرديں۔ یہ وہ دن تھے جب اختر کالونی جیسی بستی میں بھی سپاہ صحابہ والے آن پہنچے تھے۔

میں ان دنوں وائی ایم سی اے، کراچی میں رہتا تھا جہاں کے سکول کی بچیوں کو قریب کے آرٹلری تھانہ میدان کے لڑکے اور برنس روڈ کے پہلوان روز آکر چھیڑا کرتے تھے۔ ایک دن کسی ایسے اوباش نے وائی ایم سی اے سکول سے چھٹی کے وقت نکلتی لڑکی کے گال پر تھپڑ مار دیا تھا۔ جب کسی راہ گیر نے نوجوان کے اس اقدم پر مداخلت کرنا چاہی تو اسے کہا گیا 'تمہارا کیا! لڑکی تو عیسائی ہے۔' لڑکی کی مدد کو آنے والے عیسائی نوجوانوں کو 'توہین رسالت' کی دھمکی دے کر خاموش کردیا گیا۔

کراچی وائی ایم سی اے ایک عجیب نگر تھا۔ اب سنا ہے وائی ایم سی اے کے سو سال کی لیز ختم ہونے پر اس پر لینڈ مافیا اور ایک 'نامعلوم' گروپ نے قبضہ کرلیا ہے۔

مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب مجھے ایک عیسائی ٹیکسی ڈرائیور سلیم مسیح نے بتایا تھا کہ رشوت نہ دینے پر ٹریفک اے ایس آئی اس کے چالان پر لکھنے لگا تھا 'ملزم ڈرائيور نے سلمان رشدی کے کتاب کی تعریف کی۔'

سلیم مسیح ڈرائیور نے مجھے بتایا تھا کہ وہ تو بھلا ہو ٹریفک پولیس افسر کے دوسرے ساتھیوں کا جنہوں نے اسے 'توہین رسالت' کے قانون کے غلط استعمال سے روک دیا تھا۔

صدر میں جہانگیر پارک کے سامنے تاریخی سینٹ اینڈریو چرچ کی بیرونی دیوار کو بھائی لوگوں نے آتے جاتے ایک اوپن ایئر پیشاب گھر میں بدل دیا تھا۔ جب چرچ کے پادری نے ایسا کرنے والوں سے احتجاج کیا تو اسے کہا گیا 'یہ مسجد نہیں چرچ ہے۔'

ان دنوں بینظیر بھٹو کی حکومت تھی اور وائی ایم سی اے کے مسیحی چوکیدار نے مجھ سے کہا 'حسن بھائی، حکومت ان پر کیوں توہین رسالت نہیں لگاتی جو کہتے ہیں بھٹو یسوع کی طرح صلیب پر چڑھ گیا تھا'۔ بشیر بھائی چوکیدار عجیب آدمی تھا۔ ایک رات اس نے مجھے اپنی جیب سے کسی مدرسے کی ایک سند نکال کر دکھائی کہ جو اس کے عیسائی مذہب تبدیل کر کے مسلمان ہونے کی تھی۔ پھر وہ کہنے لگا 'کیا کریں، کل اگر کوئی ایسی ویسی بات ہو جائے تو بچا تو جائے'۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 17:26 2009-08-07 ,نجیب الرحمٰن سائکو، لاہور، پاکستان :

    آداب! ملک میں اقلیتں چونکہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں لہذا یہ ممکن نہیں کہ اِکا دکا اقلیتی افراد، اکثریت کو کوئی نقصان پہنچا سکیں۔ اسی طرح اکثریت کو اقلیتوں سے کسی قسم کا خطرہ و خدشہ و خوف پیدا ہونےکا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لہذا جب سیاستدان ’مُردوں‘ پر سیاست چمکا سکتے ہیں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ملک کی کرتا دھرتا اور ملک پر بالعموم جبکہ نظام تعلیم پر بالخصوص مکمل کنٹرول رکھنے والی ’ملائیت‘ گوجرہ جیسے واقعات کی آڑ میں اپنی ’سیاست‘ چمکانے کے لیے کرتی ہو یا کرواتی ہو۔

  • 2. 17:40 2009-08-07 ,راشد احمد :

    کسی قانون کا غلط استعمال نہيں کيا جاتا ہے بلکہ پاکستان ميں شائد قانون بنتے ہی کمزوروں اور غريبوں کے خلاف استعمال کرنے کے ليے ہيں۔

  • 3. 18:45 2009-08-07 ,Dr Alfred Charles :

    حسن بھائی! محو حيرت ہوں کہ آپ نے بلاگ کے ليے يہ موضوع چن کر کيا کيا انکشافات کر ديے اور ساتھ عقل مند کو اشارہ کافی ہے کے مصداق يہ بھی آشکار کرديا ہے کہ لوگ کس طرح معمولی باتوں، نجی معاملات و لڑائی جھگڑے کی آڑ ميں يہ قانون کيسے استعمال کرتے ہيں۔ اب معاملات اس حد تک بڑھ چکے ہيں کہ اس کی زد سے کوئی بھی محفوظ نہيں۔ اب تک کئی مثاليں سامنے آچکی ہيں جن ميں لوگوں نے قانوں اپنے ہاتھ ميں لے کر تباہی و بربادی مچائی اور الزام کی صحت جانچے بغير کئی لوگوں کی جان بھی لی جاچکی ہے۔ آپ نے درست و بروقت نشاندہی تو کردی اس قانون کے غلط استعمال پر لیکن کيا ہی اچھا ہوتا کہ حاليہ سانحے پر بھی دو سطريں لکھ ديتے۔

  • 4. 20:41 2009-08-07 ,شوکت :

    حسن مجتبيٰ صاحب کيا پاکستان صرف برائيوں کا گھر ہے يا اپ صرف تاريک حصہ ديکھنے کے قابل ہيں۔ جو ہوا صحيح نہيں ہوا مگر اپ پر افسوس ہے صد افسوس۔

  • 5. 1:10 2009-08-08 ,فدافدا :

    يہ نہ مضمون، نہ ارٹيکل اور نہ خبروں پر تبصرہ ہے بلکہ ايک خوبصورت بلاگ نويسی ہے جو پاکستانيوں کے ہاں تعصب کو اجاگر کرتا ہے۔ ہاں يہ اور بات ہے کہ کوئی مانتا نہيں۔

  • 6. 7:15 2009-08-08 ,اخلاق مرزا :

    توہین رسالت کے غلط استعمال پر بھی موت کی سزا ہونی چاہیے۔

  • 7. 8:29 2009-08-08 ,Sabeen :

    اس قسم کی حرکتیں وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہیں خود اسلام کے بارے میں نہیں پتا، نہ ہی ان کے دل میں خوف خدا ہوتا ہے۔ اللہ ہمیں سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق دے، آمین۔

  • 8. 8:37 2009-08-08 ,عدنان :

    شکریہ آپ کے اس اقدام کا ورنہ ہم تو روز اپنی صلیب اٹھاتے ہیں اور اگلے دن کا انتطار کرتے ہیں۔ حالات اچھے تو نہیں ہیں لیکن ’امید‘ بڑی ہے۔

  • 9. 9:26 2009-08-08 ,hussnan.hayder :

    اقلیتوں کے خلاف تشدد ناقابل برداشت اور خلاف اسلام فعل ہے۔ جو لوگ قوانین کے غلط استعمال کے ذریعے اقلیتوں کو پریشان کرتے ہیں ان کے خلاف انتہائی سخت کارروائی ہونی چاہیے اور یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس سلسلے میں قانون سازی کرے۔ اس کے علاوہ ہمارے معاشرے کو بھی اس سلسلے میں اپنا رویہ بدلنا چاہیے۔

  • 10. 10:23 2009-08-08 ,علی گل :

    حسن صاحب آپ نے يہ کافی کڑوی بات لکھی ہے۔ میرا خیال ہے کہ زیادہ لوگ تبصرہ نہیں کریں گے کیونکہ ہم حقوق العباد بھول چکے ہیں کہ اسلام میں اس کی بھی کوئی اہمیت ہے۔ اگر ہم لڑائی کی بجائے ایک دوسرے کی عزت کرنا سیکھ جائیں تو سب کی عزت ہوگی۔

  • 11. 11:13 2009-08-08 ,ibrahim :

    حسن صاحب، ہمارے ايمان ميں جلوس تو بہت ہے مگر خلوص کا فقدان ہے۔

  • 12. 12:45 2009-08-08 ,ibrahim :

    اگر ہمارے رہبر حقوق العباد کا درس دينے لگے تو ان کی دکان کيسے چلے گی
    اس لیے تو ہم دکھاوے اور برادری ميں ناک اونچی کرنے کے لیے لاکھوں لگا ديتے ہيں مگر پڑوسی بھوکے مر جائيں پرواہ نہيں کرتے۔

  • 13. 13:47 2009-08-08 ,faizan siddiqui :

    جناب ميری سمجھ ميں يہی نہيں آيا کہ آپ کہنا کيا چاہ رہے ہيں۔ ميرے خيال ميں تو جگہ بھرنے کے لیے ايک ايويں سی تحرير لکھ ڈالی، اس لیے اس پر کيا کہيں سمجھ نہیں آتا۔ البتہ ايک مسئلہ قابل تصحيح ہے، جناب نے کالعدم سپاہ صحابہ کو مسحيوں کا دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جو سراسر غلط ہے۔ سپاہ صحابہ کا مقصد ناموس صحابہ کی حفاظت اور ملک دشمن عناصر کو معيشت اور ديگر قليدی عہدوں پر قابض ہونے سے روکنا ہے جس ميں وہ کافی حد تک کامياب رہی ہے۔

˿ iD

˿ navigation

˿ © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔