انسان اور ترقی۔۔۔
پچھلے ہفتے یہ خبر پڑھی کہ چلی میں پینتیس سال پہلے قتل ہونے والے معروف گلوکار وِکٹر خارا کے قتل کے سلسلے میں ایک جج نے ایک سابق فوجی پر فردِ جرم عائد کر دیں۔
وکٹر خارا گیٹار بجانے والے چلی کے مشہور گلوکار تھے۔ وہ ان ہزاروں افراد میں شامل تھے جنہیں انیس سو تہترمیں چلی میں صدر اژیندے کے حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد فوجی حکومت نے حراست میں لے کر پھر قتل کر دیا تھا۔
ان کے خاندان کی درخواست اور نئے شواہد سامنے لانے پر وکٹر خارا کے قتل پر حکام نے پچھلے سال ایک نئی انکوائری شروع کی تھی۔
اس انکوائری سے نہ صرف خارا بلکہ ان ہزاروں افراد کی کہانیاں پھر سامنے آئی ہیں جنہیں جنرل پنوشے کی فوجی حکومت نے 'غائب' یعنی اغوا اور ہلاک کر دیا تھا۔
لیکن خارا کی کہانی پڑھ کر سیاسی خون خرابے کے انتہا اور انسانی ظالم و ستم کا پھر احساس ہوا۔
وکٹر خارا کو فوجی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے ہزاروں افراد کے ساتھ سنتیاگو کے فٹبال سٹیڈیم لے جایا گیا جہاں ان پر تشدد کیا گیا۔
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ خارا کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ وہ موسیقار تھے، گیٹار بجانے کے حوالے سے مشہور تھے لہذا فوجیوں نے انہیں یہ جتا کر پہلے ان کی انگلیاں جلائیں پھر ان کے ہاتھ توڑے۔
اس کے بعد ان کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
دیکھیے یہ مثال، کہ انسان کتنا ظالم بن سکتا ہے۔ جنگ اور مزاحمت میں اس کی ابتر شکل سامنے آتی ہے، وہ اپنی عقل زیادہ سے زیادہ نقصان اور تکلیف دینے کے طریقے سوچنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ جانوروں سے بھی زیادہ وحشی بن جاتا ہے۔
اور اکیسویں صدی میں اس کی انگنت مثالیں ہر طرف نظر آتی ہیں، امریکہ سے پاکستان تک، سری لنکا سے عراق تک۔۔۔
آخر ہم 'اشرف المخلوقات' کہلانے والے کر کیا رہے ہیں؟
تبصرےتبصرہ کریں
’بس اِک طریقہ ہے عافیت کا یہاں پہ ناصر
مَیں نطق رکھوں، نہ آنکھ رکھوں، نہ کان رکھوں‘
عنبر خيری صاحبہ،
اس طرح کی کہانياں اب پاکستان ميں جنم لے رہی ہيں۔ لیکن الميہ يہ ہے کہ شاید ہی کوئی آج سے چاليس سال بعد ان پر افسوس کر رہا ہو۔
يہ بھی اشرف المخلوقات کی ايک نشانی ہی ہے کہ وہ ايک دوسرے کا گلا کاٹيں۔ سکندر اعظم، حجاج بن يوسف، ہلاکو خان اور چلی کے صدر سے لے کر اب امريکہ تک ہم يہی ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہيں کہ ہم اشرف المخلوقات ہيں۔
ِنسان سے بڑھ کر وحشی مخلوق اور کوئی ہو ہی نہيں سکتی۔ ہم اکثر يہ کہتے ہيں کہ فلاں تو بِالکل جانور ہے ليکِن بہت کم آپ کو ايسی مِثال مِلے گی کہ جانور اپنے ہم جِنسوں سے کوئی ايسا سلوک روا رکھتے ہوں جيسا کہ اِنسان کی خصلت ہے۔ تکليفوں اور اذيتوں کے ايسے ايسے قِصے ہيں جو ہميشہ ہر دور ميں حضرتِ اِنسان سے منسوب رہے ہيں کہ ہم تصّور بھی نہيں کر سکتے کہ کوئی بھی اپنی حد سے ايسے گِر سکتا ہے۔ ليکِن ايسا ہی ہے۔ آخر کو بقول آپ کے ہم اشرف المخلوقات ہيں تو اِس کا ثبوت تو دينا ہی ہے نا۔ اذيتوں کے نئے نئے طريقے ايجاد کرنا بھی تو کوئی آسان کام نہيں۔ حد ہے انسانيت سے گر جانے کی۔ يہاں ايک بات کہوں کہ ميں نے ايک دفعہ اپنے چھوٹے بھائی سے کِسی بات پر دکھی ہو کر کہا حد ہوتی ہے ذلالت کی تو اُس نے ايک اِتنی پياری بات کہی کہ
’شاہدہ باجی ياد رکھيں ذلالت کی کبھی کوئی حد نہيں ہوتی‘
اور ميں چپ کی چپ رہ گئی کہ يہی حقيقت تھی۔
ہمارے ایک بزرگ فرماتے تھے کہ جانور تین قسم کے ہوتے ہیں:
1: جو اپنی روزی کے لیے کسی کو تکلیف نہیں دیتے۔
2: جو اپنی روزی کے لیے دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں پر وہ مجبور ہیں۔
3: وہ نب کا اپنا کوئی فائدہ نہیں ہوتا مگر دوسرے کی جان چلی جاتی ہے (یعنی سانپ، بچھو وغیرہ)
اور آج انسانیت اس درجے تک گر چکی ہے۔ بس اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔
پھولوں اور خشبو کی باتيں بھی ہوسکتی ہيں۔ صرف کانٹوں کا الجھنا ہی ياد رکھنا کيوں ضروری ہے۔