کہیں کچھ گڑبڑ ہے
مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ گڑ بڑ ضرور ہے۔
امریکہ میں الیکشن ہوا، صدر بش کی جماعت ریپبلیکن کے امیدوار جان مکین ہار گئے، ڈیموکریٹس کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے لیکن کچھ نہیں ہوا۔ مطلب یہ، نہ تو اسامہ بن لادن کا 'آشیر باد' آیا، نہ ایمن الظواہری اور نہ ہی ملا عمر، بلکہ پاکستان میں ان کے نمبر ون بیت اللہ محسود نے بھی خاموشی اختیار رکھنا ہی مناسب جانا۔
اس کی کیا وجہ ہے۔ میری صحافیانہ حس یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ یہ نارمل ہے، وہ لوگ چھٹی پر گئے ہوئے ہیں، واپس آ کر بیان دیں گے یا وہ امریکی انتخاب سے لاتعلق ہیں۔
گزشتہ آٹھ سال میں جب بھی صدر بش پر کوئی کڑا وقت آیا فوراً اسامہ یا ان کا کوئی حواری (اسے ظواہری سمجھیں) امریکی صدر کی مدد کو آن پہنچا۔ کبھی اسامہ نے امریکہ کو نیست و نابود کرنے کا بیان دیا تو کبھی الظواہری نے 'اگلے نشانوں' کی نشاندہی کی۔ اثر اس کا یہ ہوا کہ صدر بش نے قوم اور دنیا کو ڈرایا اور جو چاہا کیا۔ انتخابات جیتنے سے لے کر ڈراؤنے قوانین پاس کرانے تک القاعدہ اور اس کے حواریوں نے بش اینڈ کمپنی کی 'غیبی' مدد کی۔
اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا اور نتیجہ صدر بش کی پارٹی ہار گئی۔
باراک اوباما کے جیتنے اور ان کی جیت سے پہلے اگر طالبان کی طرف سے بیان آیا بھی تو وہ بھی درجوں کی حدوں میں کافی نچلے درجے سے۔ افغانستان کے کسی نامعلوم مقام سے بی بی سی اردو سروس کے ساتھ بات کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان قاری یوسف احمدی نے کہا کہ بات امریکی صدر کے چہرے کی تبدیلی کی نہیں بلکہ پالیسیاں بدلنے کی ہے۔
اسی طرح ضلع سوات میں مقامی طالبان کے ترجمان مسلم خان کا کہنا تھا کہ 'اگر نومنتخب امریکی صدر باراک اوباما بھی افغانستان اور عراق میں سابقہ پالیسی برقرار رکھتے ہیں اور پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کا راستہ روکا جاتا ہے تو اس صورت میں امریکہ کے خلاف ہماری مسلح جدوجہد پہلے کی طرح جاری رہے گی۔'
اس کا ثبوت انہوں نے مزید تین بیچارے سپاہیوں کا گلہ کاٹ کر دیا۔ اب جیتا امریکہ میں اوباما ہے اور سزا بے گناہ سپاہیوں کو۔
تاہم آخر میں یہ کہے بغیر بات ختم نہیں کروں گا کہ گلوبلائزیشن یا عالمگیریت پہلی مرتبہ اصل معنوں میں سامنے آئی ہے۔ دنیا کی واحد سپر پاور کے نئے صدر کے سفید فام رشتہ دار اگر امریکہ میں ہیں تو ان کے سیاہ فام کزنز کینیا میں اور ان کے بچپن کے مسلمان دوست انڈونیشیا میں۔ 'اوبامامیا'!!!
اب ہی عالمگیریت عالمگیر ہوئی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ دنیا کو تباہ کرنے اور ایک دوسرے کے گلے کاٹنے والے بھی اب ذرا بڑے ہو جائیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
جہاں تک اسماء خالہ کا خيال ہے بيان اسليے نہيں آيا کہ اب لوگوں کو اس بيان کی اہميت معلوم ہو چکی ہے باقی اب آپکے پچاس پچاس سالہ شير خوار تبصرہ نگار آئيں اور ثناء کا روپ دھارے بغير بتائيں کہ ان کی ننھی منی سی سوچيں بيان نہ جاري ہونے کے بارے ميں کيا سوچتی ہيں۔
’ہيں جال وہ ہوا ميں کہ آتے نہيں نظر
خوشبو بھی ہو نہ جاۓ گرفتار ديکھنا‘
محترم عارف شميم صاحب، آداب عرض! مودبانہ رقمطراز ہوں کہ آپکا يہ محسوس کرنا بالکل بجا ہے کہ بُش کي پارٹي کے اميدوار کی انتخابی مہم ميں بن لادن کا 'اِن ايکشن' نہ ہونا واقعتآ ہی گڑبڑ ہے۔ خاکسار کی 'سائکوانہ حِس' کے مطابق اسامہ کا اپنے 'موجد' بُش کی ريپبلکن پارٹي کے اميدوار جان مکين کي انتخابی مہم ميں خاموشی اختيار کرنا يا بالکل لاتعلق بنے رہنے کے پيچھے گلوبلائزيشن کو مزيد 'توسيع' دينا مقصود ہے کہ عراق، افغانستان اور ملکی قبائلی علاقوں ميں ورلڈ گلوبلائزيشن انتہا نہيں بلکہ ابتداء ہے۔ دوسری طرف اوبامہ کی جيت ميں تو فدوي کو بہت ہی زيادہ گڑبڑ نظر آتی ہے۔ کبھي کبھي خاکسار جب سطح پر آکسيجن لينے ابھرتا ہے تو ايسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ اوبامہ کی کاميابی نے امريکہ کو ايک بار پھر دنيا کی ’مہذب ترين قوم‘ ثابت کرديا ہے حالانکہ 'تورا بورا'، ابو غريب جيل، افغانستان ميں ايک بارات پر بمباری سے ايسا سوچنا کبوتر کی طرح آنکھيں بند کرکے سوچنے کے مترادف ہے۔ ليکن جونہی فدوي واپس تہہ آب جاتا ہے تو آنکھوں کے سامنے ايک نيا جہان کھل جاتا ہے کہ امريکيوں کا اوبامہ کو صدر بنانا ان کی ايک بہت بڑی سياسی چال ہے۔ بہت سے لوگ، تجزيہ کار، اخبار نويس، تبصرہ نگار، سياستدان، اور پرنٹ و اليکٹرانک اور سائبر ميڈيا بشمول بی بی سی اردو ڈاٹ کام ڈيموکريٹ اميدوار اوبامہ کو سياہ فاموں کی جيت کا معجزہ قرار ديکر امريکيوں کی بحثيت رنگ ونسل سے بالاتر، جمہوريت پسندي، نسلی تعصب سے پاک قوم کی تعريفوں کے پل باندھ رہے ہيں۔ حالانکہ گلوبلائزيشن تحريک کے تناظر ميں سياہ وسفيد کی باتيں کرنا وقت ضائع کرنے، گڑے مردے اکھاڑنے اور سوچوں کو منتشر کرنے کے مترادف ہے۔ اوبامہ کو صرف بش کی ’وارآن ٹيرر‘ بابت پاليسيوں کو مزيد جلا بخشنے کے بيانات مثلاً، ’مکہ پر حملہ‘، عراق سے افغانستان فوجوں کی منتقلي، پاکستان پر براہ راست حملوں وغيرہ کی وجہ سے امريکي قوم نے ووٹ ديکر جتوايا ہے نہ کہ انہوں نے تبديلی کيلیئے ووٹ ديا ہے! مکين بابے اور بش بابا جی کي نسبت اوبامہ جوان و تروتازہ ہيں لہذا انکا جوش و ولولہ بھي جوان ہے اور ’کچھ کرنے‘ کا جذبہ اس عمر ميں فطرتاً موجود ہوتا ہے۔ نتيجتاً يہ ’نيو ورلڈ آرڈر‘ باالفاظ ديگر گلوبلائزيشن کا ’سائيکل‘ جلد مکمل کرنے کی صلاحيت رکھتے ہيں! اوبامہ کو صدر منتخب کر کے امريکيوں نے کمالِ ہوشياری سے، دنيا کی آنکھوں ميں دھول جھونک کر، ’سياہ سفيد سياہ سفيد‘ کا واويلا مچا کر ايک تير سے کئی شکار کيۓ ہيں۔
’مجھ کو بھي گرچہ چہرہ شناسي کا زعم تھا
مشکل يہ آ پڑي کہ اداکار وہ بھي تھا‘
مخلص
نجيب الرحمان سائکو، پاکستان
عارف شميم صاحب ، کيا شاہ ايران کے زوال سے فقط ايک برس پہلے کوئی آثار تھے کسی تبديلی کے؟ اسرائيل کي طرح امريکہ کا قريب ترين اتحادی ہونےکي حيثيت سے جديد ترين سازوسامان او ر بہترين تربيت يافتہ افواج کےساتھ خطے کا سب سے زيادہ طاقتور حکمران تھا - ليکن رک سکا کيا ؟ حاليہ تبديلی بھي کچھ ايسا ہی کرشمہ نظر آتي ہے جو قطعي غيرمتوقع تھا۔ اب ديکھنا يہ ہے اس کا نتيجہ کيا نکلتا ہے۔ بيش قيمت وسائل فتنہ و فساد ميں پھونک کر کنگال ہو جانےکا چلن جاري رہتا ہے يا غلطيوں سے سبق سيکھ کر نئی روايات کا آغاز کيا جاتا ہے۔
عارف بھائی جيسا کہ آپ نے کہا گڑ بڑ تو بہت بڑی ہے ليکِن جو آپ سوچ رہے ہيں وہ بھی تو کتنا درُست ہے کہ جب اِنسان خُود کُچھ نا کر پائے تو دُوسروں کا سہارا تو لينا ہی پڑتا ہے۔ ہاں يہ بات ضرُور مزے کی ہے کہ جو دُوسروں کو بے سہارا کرنے کا بيڑہ اُٹھاتے ہيں وہ خُود بھی آسروں کے مُحتاج ہوتے ہيں کبھی کِسی اُسامہ کے وِڈيو کے اور کبھی کسی نائن اليون کے يا کِسی الجزيرہ چينل کے جُھوٹے دعووں کے، سو اوباما کی آمد سے اور کُچھ ہو يا نا ہو اب يہ ديکھنا مقصُود ہے کہ رنگوں کی اِس رنگينی ميں وُہ کيا کام دِکھاتے ہيں کيُونکہ اُن کی بھی تو ری مِکسِنگ ہُوئی ہے۔ ننھيال ددھيال کافی دُور دُور اور الگ الگ ہيں زمين آسمان بھی کہہ سکتے ہيں ليکِن خُدارا ہمارے اپنے کيُوں عقل سے پيدل ہو رہے ہيں وُہ کيُوں اپنا بھلا بُرا نہيں سمجھ پا رہے اور اپنوں کے ہی گلے کاٹ کر يہ کيُوں سمجھ رہے ہيں ہم نے اوبامہ کی جيت يا بُش کي پارٹي کي ہار ميں اپنا حِصّہ اپنے حِساب سے ڈال ديا ہے حالانکہ دونوں صُورتوں ميں نُقصان اپنا ہی ہو رہا ہے اور اپنوں کا ہی ہو رہا ہے يہ کون سمجھاۓ گا اِن پاگلوں کو؟
اسلام عليکم بھائی شميم،
’اب ہی عالمگیریت عالمگیر ہوئی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ دنیا کو تباہ کرنے اور ایک دوسرے کے گلے کاٹنے والے بھی اب ذرا بڑے ہو جائیں۔‘
آمين ۔ بس اس کے سوا کچھ نہيں کہنا!
مجھے بھی کچھ گڑ بڑ لگ رہی ہے۔ اللہ کرے جو بھی ہو ہمارے ليے بہتر ہو۔
در اصل اگر آپ امريکہ کے موجودہ حالات جن ميں دنيا ميں موجود امريکہ کے خلاف نفرت، امريکی عوام ميں بش پاليسيوں کی وجہ سے پائی جانے والی بے چينی اور سب سے بڑھ کر امريکہ کی ڈگمگاتی معيشت نے اس تبديلی پہ امريکی پاليسی سازوں کو مجبور کيا ہے۔ جب عوام خود اس راہ پہ چل رہے تھے تو انہيں کيا پڑی تھی کہ خواہ مخواہ ولن ميدان ميں اتارتے۔ اس تبديلی کے ذريعے جہاں امريکی پاليسی سازوں نے دنيا کو يہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ اب کچھ بہتر ہو گا وہاں اپنی عوام کو بھی تسلی دی ہے۔ ليکن آخر ميں ڈھاک کے وہی تين پات ہوں گے۔
طاھر اقبال مجوکہ
سرگودھا، پاکستان
میں بش، القاعدہ اور طالبان کو ایک ہی گروپ میں سمجھتا ہوں اور وہ ہے انسانیت کے دشمن۔ شاید آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔
شميم صاحب سلام مسنون،
بے شک گلوبلائزيشن کی تحريک شروع بہت پہلے ہوئی تھی مگر اس کے اثرات اب ديکھنے ميں آرہے ہيں۔ پورے دس سال لگے عالمگيريت کو جاننے پرکھنے اور جھيلنے ميں !!!!! مگر مجھے نہيں لگتا کہ اب بھی يہ ہنڈريڈ پرسنٹ ممکن ہوپائے گا چاہے اوبامہ کے رشتے دار پوری دنيا ميں ہی نہ بسے ہوں
ليکن گلے کاٹنے والوں کا جو معاملہ ہے اس کا ميں نہيں سمجھتا کہ دنيا والوں يا دنيا سے کوئی تعلق رہا ہوگا۔ ان محترم لوگوں نے تو جنت ميں جانے کا گويا ويزا لے رکھا ہے اور شايد اسی زعم ميں دھڑلے سے سر کاٹے جاتے ہيں۔ يہ جاننے کی زحمت گوارا کيے بغير کے جس خدا کے حوالے سے ايسی حرکتيں کي جا رہي ہيں اسی نے از خود زمين پر فساد پھيلانے والوں کو سخت وعيديں دے رکھی ہيں۔
يہ کيوں نہيں سمجھتے کہ ان کی حرکتيں انتہائی خبيثانہ ہيں اور اسلام کو بدنام کرنے کا باعث بن رہی ہيں۔ ميں نے خود ديکھا ہے ٹی وی پہ کہ کيسے لوگوں کا گلا ريتا جاتا ہے اور اس انتہائی انسانيت سوز حرکت کے دوران کيسے يہ لوگ انسان نہيں جانور لگتے ہيں۔
امريکی فوج کی سفاکی پر ہم تنقيد کرتے ہيں اور ان کے خفيہ حراست خانوں ميں ہونے والے مظالم پر پوری دنيا ميں ہنگامے ہوتے ہيں ليکن اسلام کے نام پر اگر اس طرح کی دہشت مچائی جاتی ہے تو پھر سوال يہ ہے کہ ہم ميں اور ان ظالموں ميں فرق ہی کيا رہا۔
رہی بات انتخابات سے پہلے اسامہ يا کسی اور کے خوفناک اور دل کو دہلانے والے بيانوں کے نہ آنے کی تو يہ آپ کو بخوبی پتہ ہوگا کہ اسرائيل کی مرضی کے بغير امريکہ ميں پتہ بھی نہيں ہلتا۔ ابامہ نے جب تبديلی کا نعرہ لگايا تھا تو تبھی يہ بات سمجھ ميں آگئی تھی کہ ان دیکھا پاليسی ساز اب تبديلی چاہتا ہے۔ ابامہ کے حوالے سے خوش فہمی يا نيک توقعات احمقانہ ہی کہلائينگی اور يہ وقت بتادے گا۔
خيرانديش
سجادالحسنين، حيدرآباد، دکن
مجھے تو لگتا ہے کہ سی آئی اے نے اسامہ بن لادن اور طالبان کو ملازمت سے برخاست کردیا ہے۔ امریکہ اورمغربی دُنیا میں تو یہی رواج ہے کہ جب ملازمین کی ضرورت نہ رہے یا کمپنی خسارے میں جارہی ہوتو نچلے درجے کے ملازمین کی اکثریت کو ملازمت سے فارغ کردیا جاتا ہے۔ شاید مالی بحران کی وجہ سے امریکہ اسامہ بن لادن اورطالبان کو تنخواہیں دینے کے قابل نہیں رہا اب اس کے بعد یا تو اُنہیں 'lay off' مل گئ ہے یا پھر اسامہ اورطالبان نے Quit کردیا ہے۔
والسلام
محمد سلطان ظفر
مسی ساگا، کینیڈا
دين ملا في سبيل الله فساد
عارف شميم صاحب بات تو اپنے بہت اچھی کی ليکن گلے کاٹنوں والوں کے پيچھے جوسازش ہے اس کا بہت کم لوگوں کو معلوم ہے جن کو ہے وہ کچھ کر نہيں کر سکتے جو کر سکتے ہيں وہ کرتے نہيں-
ليکن مختصرا ميں يہ کہوں گا کہ
امريکہ نے افغانستان اور عراق ميں اپنا انجام ديکھ کر پاکستان پر براہراست حملہ کرنے کے بجائے پاکستان کے دو اہم طاقتوں(فوج اوردينی مدارس کے طلباجو ہر وقت اپنے جان دينے کيليے تياربيھٹيں ہيں جس کو تيار کرنے کيلئے نہ خرچ کے ضرورت ہوتی ہے نہ ٹریننگ کي) کو آپس ميں ٹکرا کرپاکستان کو بغير جنگ کے ختم کرنے کا منصوبہ بنايا ہے- يہ سب کچھ اس منصوبے کا حصہ ہيں جس کو پرويزمشرف نے عملي جامہ پہنايا اور زرداري اس منصوبے کو آگے بڑھا رہے ہيں-
اگر اپنے ديکھا ہوگا جب بھی مذاکرات کی بات ہوتی ہے تو امريکہ کے جانب سے سبوتار کی جاتی ہے کيونکہ مذاکرات سے امريکہ کا ايجنڈا مکمل ہونے سے رہ جاتا ہے-
دوسرا يہ کہ حلات ايسے پيدا کئے گئے ہيں کہ کبھی فوج کو مظلوم بنايا جاتا ہے کبھی طالبان کو - جب فوج کے جانب سے بمباری ميں بےگناہ لوگ مارے جاتے ہيں تو طالبان مظلوم بن جاتی ہے کيونکہ سارے لوگ کہتے ہيں کہ اس طرح بے گناہ لوگوں کے موت سے ہی خودکش حملہ اور پيدا ہوتے ہيں تو جلد ہی ايک خودکش حملہ کيا جاتا ہے جس ميں بے گناہ لوگ مر کے فوج مظلوم بن جاتے ہيں جس سے لوگ پھر فوجی کاروائی کو جائز قرار ديتے ہيں-
مختصرا يہ کہ يہ سب کچھ ايک منصوبہ ہے پاکستان کے خلاف اور عالم اسلام کے خلاف-
ميرا شروع سے خيال تہا کہ اسامہ يہ کام اکيلا نہيں کر سکتاياکسي اورکے حکم پريہ سب کرتا ہے اب جب ميں نے بش کی آخری تقرير سنی جس ميں يہ کہا کہ دہشت گرد امريکہ ميں اقتدار کی منتقلی کے دوران بڑاحملہ کر سکتے ہيں يعنی اب ايک اور 11سبتمبر ہو گا اور نيا صدر اس کو جواز بنا کر دنيا کی اور مسلمانوں کی خاص طور پر لترول لگاۓ گا تو يقين ہو گياکہ اب تک جو ہوا وہ سب امريکہ کی مرضی سے ہوا اور آگے بہی ہو گا خدا مسلمانوں پر رحم کرے- آمين
عارف بھائ! بات گلے کاٹنےکی ھو يا آگ برسانے کی نتيجہ موت ھی ھے- ليکن ميں يہ نہيں سمجھ سکا- آپ لوگوں کو يہ دو تين سپاھی نظر آ رھے ھيں جو تنخواہ کے ساتھ ساتھ مالی طور مستحکم مستقبل وغيرہ اور دوسری طرف ھم عوام جو بغير کسی گناہ کے اس لڑائ ميں اپنے والدين ،بچے ، رشتہ دار اور گھر بار سب کچھ لٹا چکے، ميں تو کھتا ھوں اب وقت آ گيا ھے ھاتيوں کی لڑائ پر لکھنے سے پھلے ان بھيڑ، بکريوں کے بارے ميں کچھ لکھا کرو-
امريکی وار آن ٹيرر کا اصل مقصد خليجی رياستوں کو طاقتور ہمسايہ مسلم ممالک پاکستان ،ايران ،عراق وغيرہ سے متنفر اور دور رکھنا اور ان کے تيل کے وسائل تک رسائی تھی جو اسامہ کا ھوا دکھا کر بخوبی حاصل کيا جارہا ہے ورنہ اسامہ کو پکڑنا يامارنا اس بے ہودہ جنگ کے بغير زيادہ آسان تھا-
حامد انکل کچھ عقل کے ناخن ليں۔ اگر خليجی رياستوں کو ہمسايہ مسلم ممالک پاکستان، ايران، افغانستان سے متنفر کرنا وار آن ٹيرر کا مقصد ہوتا تو پھر خليجی رياستيں پاکستان کے معاشی بحران ميں اسکي مدد کرنے پر رضامند کيوں ہوتيں؟
اعوذبااللہ من الشک کا ورد ہی اس گڑبڑ سے نجات دے سکتا ہے حالانکہ مسلہ بالکل شفاف سادہ اور قابل فہم ہے۔ جنگ عظيم دوئم کے بعد سےکل تک کی دنيا روس امريکہ ميں بٹی تھی جس کے تيسری دنيا اور مسلمانوں نے خوب مزے ليۓ، آدھے ادھر آدھے ادھر دونوں کے ہاں پلتے رہے۔ اب جو وہ عہد لٹا اور روس بھی جی اٹھا گروپ بنکر۔ اتنی سی بات پر آپکو بس شک لگے ہے۔ ہمت کيجيۓ شيو اسپرے استری وستری کريئے اور نۓ عہد ميں قدم رنجا ہوکر ترقی يافتہ دنيا سے پينگ پانگ کھيلیئے۔ ہاں دل ميں ہرگز يہ نہ لايۓ کہ گورے گندے کالے پيارے ہيں اسلیئے کہ اب سب برابر ہيں۔ ہاں ذہانت ہی کام آتی ہے اسلۓ کسب کمال کيجيۓ کہ عزيزجہاں بن جایئے بالکل اوبامہ جيسے!