بگرام ائر بیس سے۔۔۔
کابل کے شمال میں بگرام کا فوجی اڈہ کی وجہ شہرت آج کل دو ہیں۔ ایک تو یہ افغانستان میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ ہے تو دوسری جانب یہاں بھی بدنام زمانہ قید خانہ ہے۔
یہاں اسے فتح کرنے بڑی تعداد میں پاکستانی جہادی آئے، القاعدہ اور طالبان کی مدد کے شک میں بڑی تعداد میں پاکستانی یہاں قید ہوئے لیکن امریکی قبضے کے بعد میں پہلا پاکستانی صحافی ہوں جسے یہاں آنے دیا گیا ہے۔
یہاں آنے کا ارادہ تو گزشتہ اگست میں گیارہ ستمبر کی برسی کے لیے خصوصی رپورٹ تیار کرنے سے کیا تھا لیکن اس کی امریکی فوجی حکام کی جانب سے منظوری اب آئی۔ امریکی اسے اپنی انگریزی کی اصطلاح میں 'امبیڈ' کہتے ہیں لیکن میں اسے 'اِن بیڈ' یعنی ہم بستری قرار دیتا ہوں۔
اس کی بڑی وجہ یہاں داخل ہونے سے قبل ہی آپ کو ممنوع حرکات کی ایک دس نکاتی فہرست مہیا کر دی جاتی ہے۔ آپ تصویر یا ویڈیو نہیں بنا سکتے، آپ فوجی حکام کی غیرموجودگی میں کسی کا انٹرویو نہیں کر سکتے اور وغیرہ وغیرہ بہت کچھ نہیں کر سکتے۔
اگرچہ بگرام پر سکیورٹی انتہائی حد تک کی ہے، جدید ترین بندوق سے مسلح گھومتے ہیں۔ لیکن آمد پر ایک خوشگوار احساس اس بات کا بھی ہوا کہ پاکستانی ہوتے ہوئے مجھے گیٹ پر لینے کے لیے آنے والی فوجی خاتون اور مرد نے نہ تو میری تلاشی لی اور نہ ہی میرے سامان کی۔
مجھے براہ راست میرے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ صحافیوں کے لیے مخصوص ان کمروں کو فوجی منتظمین نے 'ہوٹل کیلفورنیہ' کا نام دیا ہے۔ اس ہوٹل میں مجھے ملنے والے لکڑی کے اس ڈبے نما کمرے کا نام 'لاس انجیلیس' ہے۔ اس ہوٹل میں ٹی وی تو ہیں مگر ان پر آپ صرف فوجی چینلز دیکھ سکتے ہیں۔ یہ تو ان فوجیوں کی اپنے ملک سے محبت ہے کہ ایسے نام دیئے ہیں ویسے کیلفورنیہ جیسا یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔
یہاں بھی آمد پر کھانے کے اوقات اور دیگر معلومات پر مبنی ایک کاغذ تھما دیا گیا، جس کے آخر پر ایک عبارت نے کان کھڑے کر دیئے۔ لکھا ہے 'آپ کسی بھی وقت جب چاہیں چیک آوٹ کر سکتے ہیں لیکن آپ یہاں سے جا کبھی نہیں سکتے۔'
دو ہزار ایک کے بعد سے میں پہلے کوئٹہ اور پھر پشاور سے پاک افغان سرحد پر پیش آنے والے واقعات کی رپورٹنگ کرتا رہا ہوں۔ میرے یہاں آنے کا مقصد لاس انجیلیس کی سیر نہیں بلکہ اس سرحد کی دوسری جانب اتحادی افواج کی کارروائیاں دیکھ سکوں اور یہ جاننے کی کوشش کروں کہ پاکستان کے تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار اور افغانستان میں موجود تقریباً پچاس ہزار اتحادی فوجی آج تک کیوں اس سرحد کو بند نہیں کر سکے۔ کیا سرحد کے آر پار مسائل ایک طرح کے ہیں یا مختلف؟
اسی مقصد کے لیے کل صبح پانچ بجے مجھے بتایا گیا ہے کہ مجھے طیارے میں سرحد کے پاس کسی علاقے میں لے جایا جا رہا ہے۔ یہ جگہ کون سی ہے اور وہاں کیا ہو رہا ہے ان معلومات کا انتظار مجھے بھی ہے آپ بھی کریں۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترم ہارون رشيد صاحب، آداب! خاکسار کو آپکی رپورٹ کا شدت سے انتظار رہے گا ليکن ازراہ کرم اس خوش فہمی ميں نہ رہيۓ گا کہ راقم آپکی سرحدی رپورٹ کو آنکھيں بند کرکے سو فيصدی عين حقيقت سمجھ لے گا- وجہ اسکی يہ کہ ايک تو آپ 'صحافي' ہيں اور دوسری يہ کہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام جس ميں آپکی رپورٹ شائع ہونے کی توقع ہے، امريکہ کا سب سے بڑا اتحادی ہے اور پراپيگنڈہ کرنا اسکی مجبوری اور 'حب الوطني' کا تقاضا بھی کرتا ہے-
افغانستان میں امن اب خواب ہو چکا ہے لیکن مجھے امید کی کرن نظرآتی ہے۔ وہاں تمام گروپوں کو ایک دوسرے کے ساتھ سمجھوتہ کرنا چاہیے۔ ہمیں طالبان سمیت کسی بھی گروپ کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ سعودی عرب کی حالیہ کاوش ایک مثبت قدم ہے جس سے دیر پا امن قائم ہو سکتا ہے۔ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے کوششوں میں پاکستان کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ ہارون یہ آفتاب احمد ہے
۔ اب امریکہ میں ہوں۔ پہچانا۔ تمہارا فربنٹیر پوسٹ کا اور جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کا دوست۔
مجھے لفظ ’جہادی‘ پر اعتراض ہے۔ یہ غلط اصطلاح ہے۔ اصل اصطلاح مجاہد یا مجاہدین ہے۔ براہ مہربانی جہادی کی غلط اصطلاح مت استعمال کریں۔
ہارون رشيد صاحب سلام مسنون
شکر ہے کہ بلاگ لکھنے والوں ميں آپ کا بھی اضافہ ہوا ہے اور اس سے اس کالم ميں دلچسپی بڑھتی جائے گی۔
بہت دنوں کی بات ہے شاہ زيب جيلانی صاح نے بھی گوانتا نامو جيل کا دورہ کيا تھا جيل کے حوالے سے وہ بہت ساری سنسنی خيز باتوں کا انکشاف کرنا چاہتے تھے ان کے ابتدائی بلاگ سے تو ايسا ہی لگ رہا تھا مگر افسوس کہ وہ ايسا نہيں کرپائے۔ انہوں نے صرف وہی باتيں بتائيں جو پہلے ہی منظر عام پر آچکی تھيں ہاں انہوں نے جيل اور بيرکوں کے اندر کا ماحول جو پيش کيا تھا وہ ہمارے لیے نئی معلومات تھيں۔
مگر مجموعی طور پر انہوں نے مايوس ہی کيا تھا مگر خدا را آپ ايسا نہ کريں کوشش کريں کہ رپورٹ ايسی ہو کہ ايڈيٹر کی قينچی سے بچی بھی رہے اور ہميں اندر کی بات سمجھ ميں بھی آجائے سب سے پہلے تو آپ کو يہ بات بتانی ہے کہ ڈاکٹر عافيہ جيسی اور کتنی ے بس لاچار و مظلوم خواتين ہيں جو اس قيد خانے ميں بند ہيں ديکھيے اب کيا ہوتا ہے
آپ کے اگلے بلاگ کا بے چينی سے منتظر
سجادالحسنين حيدرآباد دکن
میں ہارون سے اہم سوال کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستانی ہمارے ملک افغانستان کو کیوں تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ یہ کہیں گے پاکستانی یہاں جہاد کرنے آتے ہیں تو یہ جہاد کرنےکسی اور ملک کیوں نہیں جاتے۔ کیا جنت صرف افغانستان میں ہیں اور جگہ پر نہیں۔
محتر م سايکو صاحب پٹھانوں پر تبصرہ کرنے کا شکريہ- ويسے موڈريٹر صاحب کی نظر ہمارے ہی تبصروں پر پڑتی ہے- افغانستان کی بدقسمتی يہ ہے کہ پہلے روس نے فتح کرنے کی کوشش کي(تو کيا وہ مزاحمت غلط تھي) پھر پاکستان نے طالبان تخليق کيے اور اب امريکہ- گلہ امريکہ اور روس سے نہيں ليکن اپنے پڑوسی ملک کے ليے طالبان کے نظام کو پسند کرنے والا خود طالبان سے خوف زدہ کيوں؟
محترم رشید صاحب مجھے امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ ہمیں معلوم ہے کہ بگرام میں کیا ہو رہا ہے۔ فرق صرف ملک کا ہے۔ امریکہ میں گوانتانامو ہے، یہاں بگرام ہے، اور عراق میں ابو غریب۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔
حليمہ جی يہ سوال تو ہم پاکستانيوں کو تو اس افغان قوم سے کرنا چاہيے جو 1980کي دہائی ميں پاکستان ميں جنت ڈھونڈنے آ گۓ تھے- ہم نے تم لوگوں کو پناہ دی اور بدلے ميں ہميں کلاشنکوف اور ہيروئين کا کلچر؛ پيسے کھانے کے طعنے ديۓ۔ افغان صدر کا خاندان آج بھی پاکستان ميں رہتا ہے اب ميں پھوچھتا ہوں کہ کل اور آج بھی پاکستان کے علاوہ کوئی اور ھمسايہ ملک تم لوگوں کو گھاس تک نہيں ڈالتا۔کيا جنت صرف پاکستان ميں ہی ہے؟
حلیمہ صاحبہ کا جواب بلال صاحب نے بڑی خوبصورتی سے دیا بلکہ میرے دل کی بات کہہ دی بلال صاحب نے ۔ بہت خوب شکریہ
آداب حليمہ صاحبہ! روسيوں کو پاکستانيوں نے نہیں بلايا تھا۔ آپ کے سياستدانوں کی غلطياں تھيں۔ اللہ ہمارے سياستدانوں کو عقل دے۔ آمين!