'ریپلیکنز کی اوبامہ'
سارہ پیلن ریپبلیکن پارٹی کی باراک اوبامہ ہے اور امریکہ کا پہلا کالا صدر بل کلنٹن تھا- 'میں نہیں کہتا کتابوں میں لکھا ہے، یارو!'
سارہ پیلن ریپبلیکن پارٹی کی باراک اوبامہ ہے اور امریکہ کا پہلا کالا صدر بل کلنٹن تھا- 'میں نہیں کہتا کتابوں میں لکھا ہے، یارو!'
کہتے ہیں کہ لالچ بری بلا ہے۔ لیکن فی زمانہ یہ بات آنکھ بند کرکے کہی جاسکتی ہے کہ مقابلہ بری بلا ہے۔ پس منظر اس کا یہ ہے کہ گدشتہ ہفتے سے پاکستان کے ٹی وی چینلز پر یہ مقابلہ شروع ہوگیا ہے کہ امریکی انتخابات کی کونسا چینل کتنی کوریج کرسکتا ہے۔
دہشت گردی کے بھی کئی روپ ہیں۔ جس دن سے میں نے جنوبی یارکشائر، ڈونکاسٹر کے رہائشی جیمز ہاؤسن اور اس کی سولہ ماہ کی بیٹی ایمی کی کہانی پڑھی ہے میں بری طرح خوفزدہ ہوں۔
میرا ایک پاکستانی دوست نیوجرسی میں سیاہ فام اکثیریتی علاقے میں بزنس کرتا ہے اور ایک ٹیپیکل سفید فام اکثیریتی علاقے میں رہتا ہے۔
افغانستان میں موجودگی کے دوران سارا وقت یہ سوچتا رہا کہ آج کل زیادہ حالات کہاں خراب ہیں افغانستان میں یا پاکستان میں؟
افغانستان اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ویسے شاید یہ جملہ تو اس کے لیے گزشتہ تیس برسوں سے بولا جا رہا ہے لیکن اس وقت اس کی اہمیت قدرے مختلف ہے۔
طالبان اور امریکی فوجیوں دونوں کا اب مہمان بن چکا ہوں۔ طالبان صرف پاکستانی ہی نہیں بلکہ افغان طالبان کی بھی مہمان نوازی کا شرف حاصل ہوچکا ہے۔ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ اعزاز کی بات ہے یا نہیں لیکن اتنا کہہ سکتا ہوں کہ شاید اس سے نہ صرف میری غیرجانبداری بلکہ فریقین کو قریب سے جاننے کی کوشش اور خواہش ظاہر ہوتی ہے۔
وہ گھر جب بنا توگھر کے مالک نے اُسکی دیواریں مظبوط بنانے میں کوئی کسر نہیں چُھوڈی۔
مگر وہ ابھی گھر کی دہلیز پر تھا کہ وہ انتقال کرگیا ۔ایک طرف اُن کے جانے کا غم تو دوسری طرف گھر کو بچانے کی فکر چند روز تک افرادخانہ کو ستاتی رہی۔
سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں میں مزدوروں سے نجی کمپنیاں جو سلوک کرتی ہیں اس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں کئی مرتبہ آواز بلند کرچکی ہیں۔ لیکن ان ریاستوں میں استحصال زدہ مزدوروں کو نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے۔
افغانستان کے صوبہ کنڑ میں وادی نڑی دو ماہ کی طویل خاموشی کے بعد آج صبح میدان جنگ بن گئی۔
جب خواہش خبر بن جائے، خواب سیاسی تجزیے کے طور پر پیش کیے جانے لگیں، ہر ٹی وی چینل پر چلتی پٹی قسمت کا حال بتانے لگے اور جب حالات حاضرہ کے پروگراموں میں ماموں ستارہ شناس کو بلایا جانے لگے تو عام آدمی کیا کرے؟
جب دنیا کی عظیم جمہوریت اور سیکیولر بھارت فرقہ واریت (گجرات)، نسل پرستی (مہاراشٹر) اور ریاستی تشدد (کشمیر) کی پستیوں سے بھی نیچے گرا ہوا ہو اس وقت اس کے سائنسدانوں کا چاند پر مشن میری نظر میں اسے پھر بلند/ مہان کر دیتا ہے۔
کنڑ میں وادی نڑے میں قائم امریکی فوجی اڈے پر دو دن سے ہوں۔
انیس سو سینتالیس میں کشمیر پر قبائیلی حملوں اور پھر بھارتی فوج کی آمد کے نتیجے میں ہونے والی مختصر جنگ کے بعد جب جہلم ویلی یا راولپنڈی روڑ پر تجارت اور بعد میں آمد و رفت بند ہوئی تو نایاب ہونے والی ضروری اشیا میں گلابی رنگ کی ایک معمولی سی شے بھی شامل تھی۔ اسے پاکستانی 'نون' کہا جاتا تھا۔
'ایک گھر کے مالک کے پاس ایک کتا تھا۔ ایک رات ایک چور نے گھر میں گُھسنے کی کوشش کی۔ کتے نے بھونکنا شروع کر دیا۔ چور نے اسے خاموش کرنے کے لیے گوشت کا ایک ٹکڑا پھینکا۔ کتے نے گوشت کھانے سے انکار کر دیا۔
اپنے پچھلے بلاگ میں میں نے رضی الدین صاحب کا ایک خط پیش کیا تھا جنہوں نے اپنے اور اپنے خاندان پر ظلم کی بات کی تھی۔ اس پر بہت لوگوں کے ای میل آئے اور انہوں نے اپنے دکھ اور غصے کا اظہار کیا۔
جلال آباد سے شنوک ہیلی کاپٹر میں آدھی رات کو صوبہ کنڑ میں بوسٹک کے فوجی اڈے پر لایا گیا ہوں۔ اس دو پروں والے ہیلی کاپٹر کو پاکستان میں تین برس قبل امدادی سرگرمیاں تو کرتے تو دیکھا تھا لیکن میدان جنگ میں آج مشاہدے کا موقع ملا۔
جلال آباد کے فوجی اڈے پر تمام دن گزارنے سے محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ یہیں ہو رہا ہے۔
جب سے بگرام آیا ہوں قارئین کی جانب سے میرے بلاگز پر کافی دلچسپ اور تنقیدی نکات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کوئی میری رپوٹوں کے ذریعے میری غیرجانبداری کو چانچنے کی دھمکی دے رہا ہے تو کوئی افغانستان کے مسائل کا حل تمام فریقین کو مذاکرات کے ذریعے امن کی راہ پر لانے کی تجویز دے رہا ہے۔،
مجھے بعض درگاہوں کے بیرونی دروازوں پر ٹنگے اُس بورڑ سے اتنی کوفت ہوتی ہے جن پر لکھا ہوتا ہے "خواتین اور غیر مسلم اندر داخل نہیں ہوسکتے"۔
سنہرے حروف میں لکھے ان الفاظ کو پڑھ کر میں کئی روز تک اپنے آپ کو نہ جانے کیوں کوستی رہتی۔
کابل کے شمال میں بگرام کا فوجی اڈہ کی وجہ شہرت آج کل دو ہیں۔ ایک تو یہ افغانستان میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ ہے تو دوسری جانب یہاں بھی بدنام زمانہ قید خانہ ہے۔
کل رات کابل میں تعینات پاکستان کے نائب سفیر آصف درانی کی جانب سے یہاں کام کر رہے چند پاکستانی دوستوں کو اپنی رہائش گاہ پر دی جانے والی دعوت میں شرکت کی۔ ان میں سینئر پاکستانی بینکرز اور تاجر شامل تھے۔
گجرات میں ایک لڑکی پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرنے کے بعد گریڈ سترہ میں تعینات ہو گئی۔ بظاہر اس میں کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن جب ماحول کا جائزہ لیا جائے تو یہ ایک کامیابی سے کم نہیں۔
اقوامِ متحدہ نے بدھ پندرہ اکتوبر کو ہاتھ دھونے کا پہلا عالمی دن منایا۔ اقوامِ متحدہ کا منشا تو خیر آلودہ ہاتھوں سے لگنے والی بیماریوں کے بارے میں آگہی بڑھانا اور صابن کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔ لیکن اقوامِ متحدہ کا نظریہ بہت محدود ہے۔ ہاتھ بھلا صابن سے ہی تھوڑا دھلتے ہیں۔
مسلمان ملکوں میں امریکہ سے متعلق آج تک جتنے رائے عامہ کے جائزے کرائے گئے ہر بار یہ بات ظاہر ہوئی کہ بیشتر مسلمان امریکہ مخالف ہیں اور اپنے لوگوں میں امریکی اثر کو زائل کرنے میں ہمیشہ کوشاں دکھائی دیتے میں۔
چند برس پہلے تک مشہور تھا کہ پاکستان سے بیس کیلومیٹر کے فاصلے پر آباد اسلام آباد رقبے میں واشنگٹن کے آرلنگٹن قبرستان سے آدھا ہے مگر خاموشی آرلنگٹن سے دوگنی ہے۔
اس وقت میرے پاس ایک خط ہے جو پاکستان کے ایک شہری نے حکومتِ پاکستان کو مخاطب کر کے لکھا ہے۔ خط میں اس شخص کا کرب اور غصہ تو صاف عیاں ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کی بے بسی بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ خط کا عنوان ہے 'ہمارے کام دیکھو انجام خود نظر آ جائے گا۔'
صدر آصف علی زرداری کے منہ میں شکر کے اور بھی کارخانے جب انہوں نے کہا کہ بھارت کبھی پاکستان کا مخالف نہیں رہا۔ کاش ایسا ہوتا پر ایسا نہیں۔ سنگین تاریخی حقیقت، اور بدقسمتی برصغیر کے لوگوں کی یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کا آپس میں بیر اینٹ اور کتے کا رہا ہے۔
پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لاین سٹیٹ ہے اور گذشتہ سات برسوں میں اس مہم میں جتنا اسکا خون بہا ہے اور جتنی اسکی سبکی ہوئ ہے اسکا اندازہ صرف اور صرف ان لوگوں کو ہے جو قبایلی علاقوں میں اب آسمان کی جانب ٹکٹکی لگاۓ بیٹھے رہتے ہیں کہ کوئئ اور ڈرون ان پر مزایل نہ گراۓ۔
گولی آسٹریا میں چلی اور اس کی گونج تقریباً آدھی دنیا میں سنائی دی۔ جی ہاں آسٹریا۔ہنگری کے بادشاہ آرچ فرانز فردینند کو ایک سرب قوم پرست گیوریلو پرنسٹپ نے 1914 میں ساراژیو میں گولی ماری اور اس کی سزا لاکھوں لوگوں کو بھگتنا پڑی۔
مانچسٹر میں چند روز قبل ایک دعوت کے دوران میرے ایک عزیز نے ٹی وی پر مباحثے میں شریک اپنے علاقے کے ایک سیاستدان کی کافی تعریف کی۔ اس سیاستدان کو عزت دار اور خاندانی قرار دیا گیا اور اس دلیل پر سب سے زیادہ زور دیا گیا کہ 'وہ دشمنیوں والے بندے اور ان کی اکثر لڑائیاں رہتی ہے'۔
˿ © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے
اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔