قائد بھی شرمندہ
کئی مہینوں سے میں نے لکھنے کا روزہ رکھا ہوا تھا۔ خود کش دھماکے اتنے ہو رہے تھے کہ وطن کے خیال سے بھی بارود کی بو آتی تھی اور اتنی کہ متلی ہونے لگتی۔ بینظیر کا قتل ہوا، اسلام آباد، لاہور ، وزیرستان، سوات اور ملک کے کئی دوسرے شہروں میں کشت و خون ہوا پر پھر بھی قلم نہ اٹھایا۔ دل ہی نہیں چاہا۔ لیکن قائدِ اعظم کے مزار پر ایک نوبیاہتا خاتون کی عصمت دری کی خبر کے بعد متلی روکنا ممکن نہیں رہا۔
’مزارِ قائد پر نوبیاہتا عورت کے ساتھ زیادتی‘۔ جتنی مرتبہ بھی یہ خبر پڑھوں اتنا ہی زمین میں گڑتا چلا جاتا ہوں۔ لگتا ہے کہ قائد کے مزار کے پاس ہی کہیں زمین پھٹ رہی ہے اور میں اور میرے جیسے اس میں دھنستے جا رہے ہیں۔
کیا یہ کم تھا کہ انجانے خود کش بمبار سکولوں کے بچوں کو مار رہے تھے اور فوجی اپنے ہی ملک کے معصوموں اور شدت پسندوں کو بلا کسی تفریق کے ختم کر رہے تھے کہ اب مزارِ قائد پر ایک معصوم لڑکی کو دو دن تک زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ قائد کے لیے اس سے زیادہ شرمندگی کی اور کیا بات ہو گی۔ قائد یا رہنما نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ جنہیں انہوں نے راستہ دکھایا وہ انہیں کے مزار پر یہ تک کر گزریں گے۔
ٹھیک ہے کہ مزارِ قائد بھی ایک مزار ہی ہے اور جس طرح قبرستانوں اور دیگر مزاروں پر جرائم پیشہ افراد اپنے گھناؤنے کاروبار کرتے رہتے ہیں اس طرح اِدھر بھی انسان بدل تو نہیں جاتے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ قائد کا مزار ایک عام مزار نہیں بھی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں اس ملک کا بانی دفن ہے۔ اور ملک کے بانی سے ہی تو ملک کا کردار سامنے آتا ہے۔ مزارِ قائد درندگی کا مظاہرہ کرنے والوں نے قائد کے فرمان ’ فخر، اخلاقی بلندی، بے لوث خدمت، اور ذمہ داری کے احساس کے فروغ کے لیے آنے والی نسلوں کا اچھا کردار بنائیں‘ کا کیا مطلب نکالا ہے۔
دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس جگہ ہوتا رہا جہاں چوبیس گھنٹے مسلح گارڈ رہتی ہے۔ بھاری بوٹوں والے فوجی ہر وقت وہاں چوکس کھڑے رہتے ہیں۔ یہ کیسی چوکسی ہے کہ وہاں دو دن تک ایک معصوم لڑکی کے ساتھ زیادتی ہوتی رہی اور ملک کے محافظوں کو پتا بھی نہ چلا۔ نہ کسی کی جان محفوظ ہے اور نہ ہی کسی کی عزت۔
تبصرےتبصرہ کریں
اس طرح کے مواقع پر ہمیں طالبان جیسے طرزِ انصاف کی ضرورت ہے۔
حسن بھائي! کس کس چيز کا رونا روئيں، کس کس بات پر جگر کو پيٹيں، کس کس مسّلے پر کوسنے ديں؟ قائد کے شہر اور ملک ميں انکی قبر کے سائے ميں روز کيا کچھ نہيں ہوتا۔ کچھ عرصے بعد مزار قائد بھی ملک ميں واقع ديگر مزاروں کی طرح ہوجائے گا۔