فوج عوام مل گئے؟
’لگتا ہے فوج اور عوام آپس میں مل گئے ہیں‘ میرے ایک دوست نے انتخابات کے نتائج سنتے ہوئے کہا۔ واقعی سب سے بہتر انتقام ووٹ ہے، میں نے سوچا۔ بینظیر بھٹو کا قتل سندھ میں پی پی پی کو ووٹوں کی شکل میں ترجمہ ہوا ہے۔ جو اتھرو (آنسو) میاں نواز شریف نے ستائيس دسمبر کو بہائے تھے، پنجاب میں بھی لوگوں نے اسی کا جواب دیا ہے‘ ملک منظور کا کہنا تھا۔
صوبہ سرحد یا پختونخواہ میں باچہ خان کے ’ان آرمڈ پٹھان‘ یا غیر مسلح پٹھان نے خود کش بمبار کو شکست دے دی ہے۔ مولوی اور مفتی کا پتہ کٹ گیا۔
باقی دھاندلیاں بلوچوں، جنرل عبد القادر بلوچ اور تھر کے لوگوں کے ساتھ ضرور ہوئی ہیں۔ اندرون کراچی اور حیدر آباد کے لوگ تو اب بھی اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔
مسلم لیگ قاف جیسی جماعتوں کا وزن تب تک تھا جبتک فوج نے انکےسر پر دشت شفقت رکھا ہوا تھا۔ کنونشن مسلم لیگ تھی کہ مسلم لیگ قاف، وہ ایسی بیوائيں تھیں جنہوں نے ہر دور کے فوجی آمر سے نکاح کیا ہوا تھا۔ لاہور کے جیالوں نے نیا نعرہ ایجاد کیا ’تیل دیوو سیکل دی چین نوں، نکلو چوہدریو‘۔
لیکن جنرل ریٹائرڈ مشرف ہیں کہ اپنی شکست کے حوالے سے ’گور پیا کوئی ہور‘ پر مصر ہیں۔ پاکستان میں حسنی مبارک بننے کی خواہش رکھنے والے اس ’آپے شاہ‘ کو کاسٹرو سےسبق سیکھنا چاہیے۔
عوام نے برجوں کو گرا کر دکھا دیا لیکن برجوں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس دفعہ بھی زرداری، نواز شریف اور اے این پی کے لالے اپنی اپنی دیہاڑی بنانے کے چکر میں ہونگے کہ اچھی تاریخ کے۔
کیا پاکستان کی فوج المعروف اسٹبلشمینٹ واقعی عوام میں گھل مل گئی ہے یا کچھ عرصے کیلیے اپنی امیج بلڈنگ مشقوں پر نکلی ہوئی ہے؟
اس بارات کے اصل دولہا تو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور ان کے رفقا ججز ہیں جنکی بحالی کی بات پی پی پی جیسی جماعت کیلیے اگرچہ مگرچہ چنانچہ میں پھنسی ہوئی ہے۔
’پاکستان کے عوام نے اس سے پہلے خوشی کی آخری خبر کب سنی تھی بھلا؟‘ کوئي صاحب پوچھ رہے تھے۔ کل ساری رات لیاری میں لیوا (بلوچی رقص) تھا‘ انیس فروری کی صبح کراچی سے میرے ایک دوست نے فون پر بتایا تھا۔
کیا پاکستانی عوام کی یہ خوشی اتنی ہی ہوگی جتنی اسکول میں کسی مشکل پیریڈ کے بعد بچے کو ریسیس میں ملتی ہے، میں نے سوچا۔
تبصرےتبصرہ کریں
حسن صاحب، اتنی خوشی بھی غنيمت ہے، مجھے تو اگر کسی يار دوست سے ايک عدد مفت سگريٹ پينے کو مل جائے تو ميرے ليے يہی بہت خوشی کی بات ہوتی ہے اور ميرا دن چنگا گزر جاتا ہے۔ موجودہ وقت سے جتنی بھی خوشی ملے اسی کو غنيمت جان کر زندگی کے دن گزارنا ايک فن ہے ورنہ مادہ پرستی کے اس دور نے انسان کی اصلی خوشی جسے ’روحانی خوشي‘ کہا جاتا ہے، چھين لی ہے۔
بہت اچھے۔ میں ہمیشہ تو آپ سے اتفاق نہیں کرتا لیکن کبھی کبھی ضرور۔ سو بہت خوب۔ اب مشرف نے کہا کہ چیف جسٹس تھرڈ ریٹ آدمی ہیں تو بہت دکھ ہوا۔ آخر مشرف ہمیشہ ایک گینگسٹر کی طرح کیوں بات کرتے ہیں۔
بہت خوب حسن بھائی لیکن اگر اندرونِ کراچی و حیدرآباد کے لوگ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے رہے تو بیمار ہی رہیں گے۔
اور سندھ کے باقی لوگ کس کے لونڈے سے دوا لے رہے ہيں؟ مجتبی صاحب کا متعصب ذہن چھپائے نہیں چھپتا۔
محترم بھائی حسن مجتبٰی صاحب۔
آپ کا مضمون ہے کہ جان بہ لب مريض کی تشخيص مرض مگر اک اک حرف رلاتا ہے۔ گنے کی آنکھ ہو يا زير تبصرہ مضمون ہر نقطہ حرف جملہ پڑھنے کے بعد چاند گرھن کے جزوی اور کہيں مکمل نظر آنے کی خبر پڑھی۔ ميرے ديس کا چاند تو مستقلاً گہنا گيا۔ چاند اور زمين کے درميان وردی آ گئی اور تاريکی بڑھتی گئی بقول غالب
کہوں کس سے میں کہ کيا ہے شب غم بری بلا ہے
مجھے کيا برا تھا مرنا، اگر ايک بار ہوتا
پچھلے ساٹھ سالوں ميں کئی مرتبہ يہ سانحہ ہوا کہ وردی والوں نے شب خون مارا۔ ايک مرتبہ ظلم کيا ہوتا تو بھی شائد مريض کہ بچنے کے آثار ہوتے مگر ہماری شب غم تو ساری زندگی پر محيط ہے۔ آپ کی تحرير پڑھنے کے بعد مسائلِ سياست ميں آپ کا درجہ غالب کی شاعری جيسا لگتا ہے۔ جنہوں نے اپنے بارے ہی فرمايا کہ
يہ مسائل تصّوف يہ ترا بيان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
آپ بھی وليوں سے کم نہيں۔ کاش ہمارے چارہ گر آپ کے بين السطور پيغام کو سمجھ سکيں۔ وطن کا ذرہ ذرہ پکارتا ہے کہ
اب مجھ پر نزاع کا عالم ہے تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہيں
ڈر لگتا ہے ’وار اگينسٹ ٹيرّر‘ کا بوجھ جان ليوا نہ ہو جائے۔
سانحہ سخت ہے اور جان عزيز۔۔۔
بہت اچھا لکھا گیا ہے۔ اس طرح اور بھی لکھنا چاہیے۔
اللہ تعالی سے دعا ھے کے وہ پاکستان اس کی عوام اور ان کی امنگوں کو اپنی حفاظت ميں رکھے ـ آمين ـ افواج پاکستان کو اب جنرل کيانی کی سربراھی ميں يہ فيصلہ کرنا ھے کہ وہ ايک شخص کی اقدار کی خواھش کے تابع رھينا چاھتے ھيں يا عوام کے ووٹ کی موافقت کرنا چاھتے ھيں ـ اللہ تعالی ان کو درست فيصلہ کرنے کی توفيق عطاء فرماۓ ـ آمين ـ
مکرمی و محترمی
ڈکٹیٹر مشرف نے، اگر سب کو یاد ہو، قوم سے ایک اور وعدہ کیا تھا، کہ اگر اسمبلیوں میں ان کے مخالفیں اکثریت میں آگئے، تو وہ مستعفی ہو جائیں گے۔ لیکن وہ مشرف ہی کیا، جو وعدہ پورا کر دے۔ ڈکٹیٹر کے دل میں وہ محاورہ ہے، کہ ’عزت آنے جانے والی چیز ہے، بندہ ڈھیٹ ہونا چاہیے۔‘
اپنے ملک، اپنی قوم، اپنے لوگوں، اپنے لیڈروں، اپنے فوجیوں، اپنے کرنیلوں، اپنےجرنیلوں، اپنے قائدوں، اپنے علماء، اپنے اساتذہ کا تمسخر اڑا کر خوش ہونے والے۔۔۔ خود ذخیرہ اندوزی کر کے مہنگائی کا رونا رونے والے، بجلی چوری کر کے مہنگی بجلی کی شکایت کرنے والے، ٹیکس چوری، بجلی چوری اور پانی چوری کر کے ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ گراں فروشی اور جعل سازی کر کے حکومت کو برا بھلا کہنے والے، چور کو ذہین، ڈاکو کو دلیر اور قاتل کو طاقت ور کہہ کر ملک میں غنڈہ راج کا واویلا کرنے والے، شرابیوں، جواریوں، منشیات فروشوں اور ناجائز اسلحہ والوں کو تھانوں اور جیلوں سے نکال لانے والوں کو سیاست کی کرسی پر بٹھا کر ان سے بھلائی کی توقع کرنے والے ۔۔ہم کون ہیں ؟!
’عطار کا لونڈا‘ تو اردو کا محاورہ ہے، اس میں تعصب کہاں سے آگیا؟ ہو سکتا ہے پڑھنے والے کی آنکھ میں تعصب موجود ہے۔ ویسے بات تو حسن بھائی نے خوب کہی ہے۔ جیتے رہو حسن!
حسن صاحب
فوج اور عوام مل گئے ہیں۔ آپ کے دوست اور آپ کے منہ میں گھی شکر۔ کاش يہ معجزہ 60 سال پہلے ہو چکا ہوتا، تو ميرے ملک کا يہ حال نہ ہوتا جو ہو چکا ہے۔ کاش اب ہوش کے ناخن لیں اور اپنے عوام اور ان کے نمائندوں کے خلاف سازشیں بند کر ديں۔
عطار کے لونڈے والا محاورہ ھمارے سياست دانوں اور امريکہ کے تعلقات پر بھی صادق آتا ھے۔
بالکل صحيح بات!
اور کس عطار کے پاس جائیں کہ يہی چند حکيم ملتے ھيں؟