عربی اونٹ
پاکستان میں جب بھی حکومت یا حزبِ اختلاف کو کوئی آئینی یا قانونی مشکل درپیش ہو تو فوراً یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اس طرح کی صورتحال جب بھارت میں پیدا ہوئی تھی تو انہوں نے اس مسئلے کا یہ حل نکالا تھا۔
مثلاً حکومتی وکلا اور ترجمان ان دنوں یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اگر صوبہ سرحد کی اسمبلی ٹوٹ بھی گئی تو صدارتی الیکٹورل کالج پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بھارت میں بھی ایک مرتبہ صدارتی انتخاب ایک ریاستی اسمبلی ٹوٹنے کے باوجود ہو چکا ہے۔
اب یہ سننے میں آ رہا ہے کہ حکومت بھارت کی طرز پر اس بارے میں قانون سازی پر غور کر رہی ہے کہ صدر کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنانے کے عمل کو قابلِ مواخذہ قرار دیا جائے۔ کیونکہ صدر وفاقی یکجہتی کی علامت ہوتا ہے۔
بھارت میں ایک اور نظیر بھی ہے، یعنی تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کی مدتِ ملازمت کسی صورت میں تین برس سے زیادہ نہیں ہوگی۔
پچھلے ساٹھ برس کے دوران انڈیا میں بری فوج کے پچیس اور ائرفورس اور نیوی کے اکیس سربراہ مقرر ہوئے۔
اس کے برعکس پاکستان میں ساٹھ برس کے عرصے میں بری فوج کے تیرہ، فضائیہ کے اٹھارہ اور نیوی کے سترہ سربراہ مقرر ہوئے۔ ان ساٹھ برس میں سے بھی بتیس برس بری فوج کے چار فوجی سربراہوں کے زیرِ سایہ گزرے۔ جبکہ انڈیا میں ساٹھ برس کے دوران بری فوج کے پچیس سربراہوں کی اوسط مدتِ قیادت ڈھائی برس سے کم بنتی ہے۔
پاکستان میں بری فوج کے سربراہان کی مدت میں توسیع کے لیے ہمیشہ یہ دلیل دی گئی کہ ملکی و علاقائی و بین الاقوامی حالات ایسے ہیں کہ کمانڈ اینڈ کنٹرول میں تسلسل رہنا چاہیے۔
اگر پنڈت نہرو بھی یہ دلیل مان جاتے اور پاکستان کی دیکھا دیکھی بری فوج کے حاضر سروس کمانڈر ان چیف جنرل کری اپا کو وزیرِ دفاع بنا لیتے تو سوچیے کیا ہوتا۔
تو کیا نہرو جی کو عربی کے اونٹ والا محاورہ معلوم تھا؟