’چیف جسٹس‘ سے نا آشنا
اب سے کئی برس پہلے جب پاکستان میں حکومت اور عدلیہ کی ایک اور جنگ ذرائع ابلاغ اور قوم کے اعصاب پر چھائی ہوئی تھی تو لاہور ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس راشد عزیز خان کی عدالت میں ایک بوڑھے شخص نے مجھ سے
چیف جسٹس کی طرف اشارہ کر کے پوچھا تھا کہ وہ کون ہے؟ میں نے جواب دیا کہ چیف جسٹس۔ اس نے پھر پوچھا کہ وہ کیا ہوتا ہے؟
یہ اس وقت کی بات ہے جب نواز شریف کی حکومت اور اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے درمیان تنازعہ عروج پر تھا۔ ذرائع ابلاغ کا زیادہ تر وقت اور جگہ اس موضوع کی نظر تھے۔
لفظ ’چیف جسٹس‘ سے نا آشنا وہ بوڑھا شخص اپنے مسئلے کے حل کے لیے لوگوں سے مشورے لیتا ہوا اپنے گاؤں سے لاہور داتا دربار اور وہاں سے ہائی کورٹ کے گیٹ تک پہنچ گیا، جہاں عدالت کے ایک اہلکار نے اسے چیف جسٹس کی عدالت تک پہنچا دیا جہاں لوگوں سے براہ راست درخواستیں بھی قبول کی جاتی ہیں۔
وہ بوڑھا شخص کتنے فیصد عوام کی نمائندگی کرتا تھا یہ تو وثوق سے نہیں کہا
جا سکتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام آبادی کے بہت بڑے حصے کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے بحالی کو قانون کی بالا دستی کی طرف اہم پیش رفت کہا جا رہا ہے۔ اس تنازعے کے دوران وکلاء نے ملک بھر میں بہت بڑی تحریک چلائی جس کو بھرپور عوامی حمایت حاصل تھی۔
یہ کامیابی کتنی دُور رس اور مؤثر ثابت ہوگی اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ جج، وکیل اور عدالتی نظام کے دیگر جُز اس نظام کو کس حد تک معاشرے کے تمام طبقات کی پہنچ میں لاتے ہیں؟ کوئی بھی زبان بولنے والا شخص، ان پڑھ یا پڑھا لکھا، امیر یا غریب اس سے مستفید ہو سکے گا یا نہیں اور کیا لوگ عدالتی فیصلوں پر اندھا اعتبار کر سکیں گے؟ اس کے لیے ایک بار وکلاء اور ان تمام لوگوں جو جسٹس چودھری کی بحالی کی تحریک میں فعال تھے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
تبصرےتبصرہ کریں
بہت خوشی ہوئی آپ کا بلاگ پڑھ کر۔ پہلی دفعہ آپ نے اتنا اچھا لکھا۔ خدا آپ کے ہاتھ ميں مزيد برکت ڈالے۔
بہت خوشی ہوئی آپ کا بلاگ پڑھ کر۔ پہلی دفعہ آپ نے اتنا اچھا لکھا۔ خدا آپ کے ہاتھ ميں مزيد برکت ڈالے۔۔۔
اسد بھائي
اسلام وعليکم
اس بوڑھے کو شايد چيف جسٹس کا پتہ نہ ہوگا کہ اس وقت چيف جسٹس ايسے انصاف نہ کرتے تھے جيسے ہمارے بلکہ سب کے چيف جسٹس افتخار محمد چوہدری کرتے رہے۔ جن کو درخواست دينے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ وہ خود بخود نوٹس لے کر مظلومين کی داد رسی کر ديتے ہيں اور انصاف کا بول بالا ہوتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ کروڑوں نے ان کی بحالی کے لیے دعا کی۔ جلوس نکالے اور بيسيوں نے جان کی قربانی دي۔
ميا آصف محمود
امريکہ
آداب عرض! آپ نے بہت اچھي تصوير اجاگر کي پاکستان ميں اک عام آدمی اور عدالتی نظام کے درميان رشتے کي۔ يہ سچ ہے کہ پاکستان ميں چيف جسٹس کے عہدے کا عام آدمی کو علم ہی نہيں ليکن موجودہ حالات کی وجہ سے عدليہ کے بارے ميں آبادی کے بہت بڑے حصے کو خاصی واقفيت ہو گئی اور عوام اپنی جيت پر بہت نازاں بھی ہيں۔ اصل امتحان تب ہو گا جب عام آدمی انصاف مانگے گا، اسے ملے گا يا نہيں۔ عام آدمی ميں انصاف حاصل کرنے کا اعتماد بھی پيدا ہوا ہے۔ اعتماد برقرار رہے اس کا انحصار عدليہ پر ہے۔ کاش ايسا ہی ہو۔
شکريہ