فیلڈ مارشل کی ڈائریا
اور اب خود ساختہ ۔ تمام پاکستانی میڈیا کو ان ڈائریوں کی ڈائریا لگی ہوئی ہے۔
مسلمان ویسے بھی جابر مسلمان حکمرانوں سے محبت کرنے والی قومیں ہیں۔ کہنے لگے’تیرے جانے کے بعد تیری یاد آئي۔‘ پاکستان میں تو ہر گھر کا بڑا مرد ایک فیلڈ مارشل ایوب بنا ہوتا ہے۔
در حقیقت یہ ایوب خان ہی تھے جنہوں نے ریاستی غنڈہ گردی متعارف کروائي۔ انکے ویسٹ پاکستان کے گورنر نواب آف کالا باغ، جو کہتے تھے کہ انکی ایک مونچھ ’لاء تو دوسری آرڈر ہے‘ اور کمشنر مسرور حسن خان نے ریاستی دہشت قائم کر رکھی تھی۔
مشرقی بنگال کے بنگالیوں کے خلاف باقی ملک کے عوام میں نفرت کے بیج ایوب خان نے ہی بوئے۔ سندھیوں، بلوچوں اور مہاجروں کے خلاف تعصب اور امتیاز بھی انہی کے دور میں پروان چڑھا۔ لالوکھیت سمیت کراچی کے لوگوں کو انکے برخوردار کیپٹن گوہر ایوب کی قیادت میں جشنِ مرگ انبوہ آج بھی یاد ہوگا۔ ’مہاجروں کیلیے آگے سمندر ہے‘ جیسا تاریخی جملہ بھی ایوب خان ہی کا تھا۔
قومی چمچہ گیری کا کلچر بھی انکی حکومت میں متعارف ہوا جب راشدی جیسے لوگوں نے ایوب خان کو بادشاہ بنکر بیٹھ جانے کا مشورہ دیا تھا۔ بھٹو تب انکی بیسک ڈیموکریسیز یا ’بی ڈی‘ نظام کے سب سے بڑے وکیل بنے ہوئے تھے۔ انہوں نے فاطمہ جناح کے خلاف صدارتی انتخابات میں دھندلیاں کروائیں۔ تب ایوب خان کے بیٹے کے سسرال سمیت بائيس سرمايہ دار خاندان ہی اصل پاکستان ٹہرے تھے۔ انکے خلاف لوگ اتنے سنک ہوگئے کہ انہوں نے مباشرت کو ’ون یونٹ‘ کا نام دے دیا۔
اور آخر میں جب چینی چار روپے سیر اور چائے مارکیٹ سے غائب ہونے لگی تولوگوں نے انسان کے سب سے پرانے وفادار اور دوست جانور پر اس فوجی آمر کا نام رکھ کر اسے چلتا ہونے پر مجبور کیا۔
یہ بھی متھ ہے کہ وہ ملاؤں کے دشمن تھے۔ انہوں نے کئي فتویٰ فروش ملا خریدے ہوئے تھے جو قرآن سے آیتیں نکال نکال کر انکا ترجمہ انکی حکومت کے حق میں اور اپوزیشن (خاص طور مجیب بھاشانی اور غفار خان) کے خلاف کیا کرتے۔ وہ اقتدار عوام کو منتخب کرنے کے بجائے ایک اور رنگیلے جنرل کو منتقل کرکے گئے جنہوں نے انکے بنگالیوں کے خلاف خونی خواب کو شرمندہ تعبیر کر دکھایا۔
تاریخ نے بھٹو کو موقع دیا تھا کہ وہ ایوب اور یحیٰ کیخلاف عوام کے حقوق غضب کرنے کے مقدمات اور ریفرنسز کھلی عدالتوں میں لاکر جنرلوں کی شخصی اقتدار کی شہوت کو ہمیشہ کیلیے ختم کر دیتے۔