اوس گلی نہ جاویں۔۔۔۔
حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والے انٹرنیشنل جیورسٹس کمیشن کے مشن کے سربراہ دانو پرام کمار سوامی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے ساتھ جو کچھ آرمی ہاؤس میں ہوا، کسی بھی مہذب معاشرے میں اسکی کوئی مثال نہیں ملتی۔
میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ ہم مہذب معاشرہ تھے کب؟ لیکن پیارے پاکستان میں سارے قرائن ہمارےمعاشرے کے قرون وسطی میں ہونے اور ہماری حکومتوں کے وحشی پاگل ہونے کی چغلیاں کھاتے ہیں۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو بھلا کیوں پاکستان کی جیلوں میں سات ہزار دو سے زیادہ قیدی پھانسیاں پانے کے منتظر ہوتے؟ ایک ایسا ملک جو اپنے منتخب وزیر اعظم کو بھی پھانسی چڑہا دیتا ہے۔ کیا ہم اب بھی مہذب کہلائيں گے جہاں چودھری شجاعت خود ہی قانون بنکر ’پاک فوج‘ کو ناپاک کہنے والوں کیلیے گولی کی سزا تجویز کرتے ہیں۔ میں کہہ رہا ہوں کہ پاکستان اور اسکے عوام کو خطرہ ملا اور ملٹری سے ہے۔ جتنا جتنا ملا ملٹری پاکستان میں مضبوط ہوتے جائیں گے، جہموریت اتنی دور ہوتی چلی جائے گي۔
کیا کل کے اخبارت میں آپ نے وہ تصاویر دیکھیں جن میں کراچی سٹی کاؤنسل کے اجلاس میں حزب اقتدار ایم کیو ایم کے اراکین کواپنی پتلونوں سے پٹے (بیلٹ) نکال کر خواتین سمیت حزبِ مخالف کے اراکین کی پٹائي کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اب ایم کیو ایم والے اپنے مخالفوں کو کم از کم صرف پتلون کی بیلٹوں سے مارنے لگے ہیں!
چیف جسٹس کو آرمی ہاؤس میں نظر بند کیا جاتا ہے۔ ایک خاتون آمنہ بٹر پر سپریم کورٹ کے دروازے پر پولیس والے جسمانی و جنسی طور پر تشدد کرتے ہیں اور بینظیر بھٹو کیساتھ ڈیل کے نتییجے میں ایسے جرائم بھی جنرل مشرف کو معاف ہوجائيں گے! اسے کہتے ہیں ’بائي ون گیٹ ون فری‘
پہلے کہتے تھے ’بینظیر آئی ہے انقلاب لائی ہے‘، اب کے کہیں گے ’بے نظیر آئی ہے اور ڈیل لائي ہے‘۔ اب انقلابی رقاصہ اور تحریک نسواں کی شیما کرمانی کا کیا دوش کہ انہوں نے سندھ کے مردانہ شاونیت رکھنے والے وزیر اعلٰی سے ایوراڈ لے لیا۔ اب ہر کوئی تو احمد فراز نہیں ہوسکتا ناں!
تبصرےتبصرہ کریں
حسن صاحب! ويل ڈن!! کوئی واقعات کی کڑی پرونا اور تبصرہ کرنا آپ سے سيکھے۔ وطن عزيز سے دور رہ کر بھی حالات سے واقفيت آپکا لاثانی کمال ہے۔ توير تبصرہ تو لاجواب ہے جس نے بلاگ کو چار چاند لگا دئيے ہيں جس پر آپ مبارکباد کے مستحق ٹہرے ہيں
حسن بھائي جان! مشرف اگر فوج کو آئين کے مطابق اسکی ذمہ داريوں تک پابند کرا دے، 73 کا آئين کی بالا دستی قائم کرا دے، عدليہ کی خود مختاری اور ديگر اداروں کو بھی جس ميں مقنّنہ اور ايگزيگيٹو شامل ہے کو بھی فوجی اختيار سے آزاد کا دے تو بينظير بہت کامياب سياستدان ہيں ورنہ
’اوس گلی دے لوکيں بھيڑے ليندے پھائياں پا‘
جيسے بھٹو کو ڈالی تھی۔
شکر ہے کہ ایم کیو ایم والے بندوق سے بیلٹ تک آ گئے۔ یہ مہذب معاشرے کی سمت میں ایک قدم ہے۔
مجھے ڈ ر ہے کہ کسی اہم شخصيت کا يہ بيان نہ آ جائے کہ پاکستان کا دورہ کرنے والے انٹرنیشنل جیورسٹس کمیشن کے مشن کے سربراہ دانو پرام کمار سوامی کو گولی مار دی جائے۔
حسن بھائی، حبيب جالب مرحوم نے سمجھانے کی کوشش کی تھی:
نہ جا امريکہ نال کڑے
ايہ گل نہ ديويں ٹال کڑے
ايہنے قتل آزادی نوں کيتا
ايہنے ايس دھرتی دا لہو پيتا
ايہنے کٹوايا بنگال کڑے
نہ جا امريکہ نال کڑے
ايہ روس دے نال لڑوندا اے
اينويں لوکاں نوں مرواندا اے
سانوں تيرا بڑا خيال کڑے
نہ جا امريکہ نال کڑے
گل ٹھيک ای کہندا ’ساقي‘ وی (جام ساقي)
کتے چلا نہ جائے باقی وی
کر راکھی ديس سنبھال کڑے
نہ جا امريکہ نال کڑے
پھر اگر کسی کو سمجھ نہ آۓ کيا کيا جائے۔
حسن صاحب، ہم سب ايک ہی طرح کے سسٹم کے ڈسے ہُوئے ہيں جہاں سب کُچھ صرف اور صرف کُرسی کے لیۓ ہوتا ہے۔ دوستياں، دُشمنياں ،رشتے، محبتيں سب ايک ہی قلم سے نامزد اور يک جُنبشِ قلم نامنظور۔ ہاں اگر کُچھ منظور کيا جاتا ہے تو عہدہ ، پوزيشن بس اس سے آگے اور کُچھ بھی نہيں۔ حالانکہ اسی عہدے اور پوزيشن نے ان بڑے لوگوں کو کوئی خاص خوشياں نہيں ديں اور حيرت ہوتی ہے کہ پھر بھی اسی عہدے اسی پوزيشن کے لیۓ مرے جا رہے ہيں۔ کبھی ڈيل کر کے يہ لوگ باہر چلے جاتے ہيں اور کبھی ايسی ہی کسی ڈيل کی صُورت ميں واپسی کے در کھولے جاتے ہيں۔ ايسے ميں حسن صاحب بے چاری شيما کرمانی کس گنتی ميں آتی ہيں، ايک ايوارڈ ہی تو ليا ہے کوئی صدارت کی پيشکش تو قبول نہيں کر لی۔ اب ڈاکٹر آمنہ کو کس نے کہا تھا کہ وہ پاکستان آ کر حقُوق نسواں کی بات کريں کہ يہاں تو حقُوق کی بات کرنا ہی جُرم ٹھہرا کُجا ايک اتنے بڑے مسئلے ميں اپنی ذات کو اُلجھانا۔ خير انديش
ميں نے اب تک حسن جيسا عظيم قلمکار زندگی ميں نہ ديکھا نہ سنا
ميں تو فراز کی زبان ميں بے نظير کو يہی کہوں گی ’کہا تھا اس شہر کو نہ جاؤ ، اب اپنی آنکھوں سے ديکھ آئے تو رو رہے ہو ، وہاں نئے لوگ بس گئے ہیں‘۔ تو ميری جان بےنظير!! سمجھ جا ؤ کہ اب تمھارے پاس فوج کے ہاتھوں مزيد بےعزت ہونے کی گنجايش نہيں، نہ ہی مزيد جانيں ہيں کہ ان بھڑيوں کے سپرد کردو ۔۔۔ اس گلی نہ جاؤ۔
حسن مجتبی صاحب! میں تو آپ کے بلاگ پر آپ کو داد دے سکتا ہوں اور بلاگ پر تبصرہ کرنا نہیں چاہتا کیونکہ مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ ان سیاستدانوں کو کیا ہو گیا ہے؟ اچانک یو ٹرن لے لینا ان کی عادت ثانیہ بن چکا ہے۔ میرا خیال ہے ان حضرات پر تبصرہ کرنا بالکل فضول ہو گا۔اللہ ان کو ہدایت دے۔
آداب عرض جناب! آپ کی صحافت کيا کہنے۔ آپ نے حکومت کو آئینہ دکھايا ہے۔اس ميں امريکہ کا ذکر برے الفاظ ميں کيوں؟ ہميں اپنے اندر بھی غور سے ديکھنا چاہیے۔ 1857 ميں جہاديوں کے ہاتھ دلی ميں ايشيائ نسل کے مسيحوں کا قتل عام ہم نے امريکا کے کہنے پر کيا تھا؟
اپنے اندر جھاتی پا تينوں رب وی نظريں آوے گا
دوجے دے گھر نوں اگ لانويں کد تک توں خير مناويں گا
پاکستان ميں يہ سب کچھ ميڈيا کی بدولت ممکن ہوا ہے کہ آئی سی جے کے نمائندوں نے جو کچھ بھی کہا صحيح کہا۔ اب مشرف پاکستان پر رحم کرے اور اپنی روشن خيالی کے ساتھ الوداع ہو۔