امیر ملک کی تنہائی
ابھی میں اس سے دس منٹ بھی نہیں ملی تھی کہ اس نے اسّی برس کی داستان زندگی چند لمحوں میں بیان کی اور مجھےاس بات کا خوب احساس ہوا کہ تنہائی کا کرب کتنا شدید ہوتا ہے۔
وہ دوسری عالم گیر جنگ کی نہ صرف چشم دید گواہ تھی بلکہ جنگ نے اس کی خوشحال زندگی کو ایسے لوٹا کہ اس غم کو وہ کبھی نہیں بھول پائی۔
اسے یاد ہے کہ اپنے پانچ معصوم بچوں کے ساتھ کتنی راتیں اس نے مکان کے تہ خانے میں گزاری تھیں۔ بچے بھوک اور افلاس کے مارے یخ بستہ سردی میں کیسے ٹھٹھرتے رہے اور سرکاری راشن کے چند ٹکڑوں کے سہارے کتنے دن زندہ رہے۔ مگر اس نے ہمت نہیں ہاری اور پانچ بچوں کی تعلیم وتربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
آجکل اس کے بچے اپنے خاندانوں سمیت برطانیہ کے امیر علاقوں میں آباد ہیں اور لاکھوں کما رہے ہیں مگر خود وہ ایک اولڈ ہوم میں رہتی ہیں کیونکہ بچوں کے عالی شان محلوں میں اس کے لیے ایک کونا یا بات کرنے کے لیے دس منٹ کی فرصت بھی نہیں۔
میں نے جب اس سے کہا کہ میں ہر جمعہ کو آپ کے ساتھ دو گھنٹے گزاروں گی تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے جیسے اسے یقین ہی نہیں آ رہا ہو کہ میں سچ کہہ رہی ہوں۔
تبصرےتبصرہ کریں
نعيمہ جی
دل کانپ گيا آپ کا يہ بلاگ پڑھ کے نہايت ہی مختصر بات مگر کرب کی ايک طويل داستان گويا سمندر کوزے ميں بند ہے - سچ کہا اس خاتون ن۔ايک ماں اپنے بچوں کی پرورش کے لۓ کيا کچھ نہيں کرتی مگر يہی اولاد جب بڑی ہوجاتی ہے تو اسے ماں ايک فضول سی چيز لگتی ہے !! مگر کتنی عظيم ہوتی ہيں وہ ماءيں جو اولاد کی اتنے بڑے جرم اور نا قابل معافي گناہ کے باوجود ہر پل انہيں نہارنے کے لۓ بے تاب رہتی ہيں اور ہر پل ناکامی انہيں ايک اور کرب سے دوچار کرديتی ہے وہ سوچتی ہيں کہ کاش ميرا بيٹا کچھ پل ميرے ساتھ بھی ہنس بول لے مگر کتنی بد نصيب ہے وہ اولاد جن کے والدين ايک اولڈ ايج ہوم ميں پل پل مرتے ہيں
نعيمہ جی دنيا ايسی المناکيوں سے اٹی پڑی ہے آپ کس کس کا دکھ بانٹتی پھرينگی مگر ايک بات ہے آپ نے اس عظيم ماں سے ہر ہفتے دو گھنٹے ساتھ گذارنے کا وعدہ کرکے انہيں جو خوشی فراہم کی ہے اور اپنے لۓ سکون کا جو سامان فراہم کيا ہے شاءيد ہی دنيا کی کوئی دولت فراہم کرسکے
سجاد الحسنين حيدرآباد دکن
محترمہ بہن نيمہ احمد مہجور صاحب
اسلام و عليکم بڑھاپے کی اور تنہائی کی تکليف کا اندازہ تو خود اس کيفيت کے شکار کے علاوعہ کس کو ہو گا- مگر آپ جيسے تحرير فرماتی ہيں تو ميں نے جانا کہ يہ ميرے دل ميں تھا- ليجيۓ آپ کے پڑھنے سے ميرزا غالب ياد گۓ جو فرما گۓ-کاو کاوِ سخت جانیہاۓ تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوۓ شیر کا
خدا نے آپ سے انسانوں سے جہان کو قايم رکھ ہوا ہے ورنہ تو ہے جرم ضعيفی کی سزا مرگ ِمفاجات-
محترمہ نعيمہ مہجور صاحبہ
ماں جانور کی ہو يا انسان کی ، لگتا ہے مخلوق کي بقا و پرورش کے لۓ خالق نے اُس کا دل ہي کچھ ايسا بنا ڈالا ہے جو بلا شرط و اميدِ صلہ لازوال محبت کرتا ہے -
وہ معمرخاتون اپني جواني ايسي نالائق اولاد پر قربان کرنے کي بجاۓ اسے کسي يتيم خانےميں چھوڑ کے آزاد بھي ہوسکتي تھيں ليکن کيسے کرتيں ... آخر ماں بھي تو تھيں -
قدرت کے رنگ نرالے ہيں - کہيں ناشناس پر لطف و عنايات ہيں تو کہيں عمر بھر کي تپسّيا کا صلہ ... مزيد تپسّيا !
خدا آپ کو اس لطف و رحم پر اجر عظيم عطا فرماۓ
دعا و سلام کے ساتھ
رضا