’چور دے پتر بیلٹ باکس خالی ہے‘
’چور دے پتر ٹول باکس خالی ہے‘ پاکستان میں ٹرکوں بسوں پر لکھی ہوئی یہ لاجواب تحریر جس کی بھی تخلیق ہے کیا خوب شاہکار ہے۔ پاکستان کے چوروں کے لیے چوکیدار جیسی تحریر۔
جہاں صرف ایک وھیل جیک، اسکریو ڈرائیور، پانے پلاس کی بات نہیں۔ چرایا ہوا ملک، چرائی ہوئی دھرتی، چرایا ہوا پانی، چرایا ہوا آئین، چرائی ہوئی حکومت اور چرائے ہوئے انتخابات ہیں۔
’چور دے پتر بیلٹ باکس خالی ہے۔‘ کیا نہ اچھا ہو کہ پاکستان میں وردی والی سرکار کے سائے میں آنیوالے عام انتخابات میں یہ لکھا جائے۔ اب پتہ نہیں کہ آنیوالے انتخابات میں لوگوں کو گم کرنے کی ’ہیوی قومی ڈیوٹی‘ پر مامور فرشتوں سے لگے ہاتھوں ووٹوں کے ڈبے بھرنے کا بھی کام لیا جاتا ہے۔
لیکن گذشتہ دنوں پاکستان میں کراچی اور کوٹری کے ضمنی انتخابات جس ’شفافیت، صفائی اور غیر جانبداری‘ سے ہوئے اس پر پاکستان کے عوام کو پیشگی مبارکباد کہ اگر اس رفتار سے عام انتخابات ہوئے تو ان کی جان فوجی آپے شاہی سے جلد ہی چھوٹ جائے گي۔
’سسی پلیجو کہتی ہے کہ لوگ انہیں آنکھیں مارتے ہیں۔ اگر وہ اتنا ہار سنگھار کر کے وہاں جائيں گي تو دیہات کے لوگ جنہوں نے اپنے درمیان کبھی کوئي دُھلی اجلی عورت دیکھی نہیں وہ اگر انہیں دیکھتے ہیں تو یہ کہتی ہیں وہ انہیں آنکھیں مارتے ہیں!‘ یہ جملہ کسی سڑک چھاپ پاکستانی مرد کا نہیں بلکہ سندھ کے مرد آہن وزیر اعلٰی ارباب غلام رحیم کے ملفوظات ہیں جو انہوں نے حالیہ ضمنی انتخابات کے موقع پر حزب مخالف کی خاتون رکن اسمبلی کے لیے پریس میں کہے ہیں- ویسے تو چودھری اور وڈیرہ ریت کا بھالو ہے لیکن وردی پوش حکمران کی ٹیکے پر’مرد آہن‘ بن جاتا ہے۔ جیسے تتلی کے پروں کو جیٹ کا انجن۔ پاکستان کے لوگو! مبارک ہو کہ آپ اعتدال پسند اور روشن خیال پاکستان جیسی گاڑی پر سوار ہیں جس کا سٹیرنگ ’ڈرنک ڈرائیور‘ کے ہاتھ میں ہے۔ بس کہتے رہیں چور دے پتر ٹول باکس خالی ہے کہ ہر بھٹو کے ساتھ ایک کوثر نیازی اور ہر مشرف کے ساتھ ایک محمد علی درانی ہوتا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
جناب حسن مجتبیٰ صاحب ، آپ کی رائے سو فیصد عوامی رائے ہے اور میں عوام ان لوگوں کو کہہ رہا ہوں جو کٹھ پتلیاں نہیں بلکہ اپنا ذہن استعمال کرنا جانتے ہیں۔ جو اپنے چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات اور جھوٹی انا کی خاطر کسی نہ کسی نام نہاد لیڈر سے جڑے ہوئے ہیں وہ ہر گز نہیں۔ آپ نے چور دے پتر کا استعارہ بہت اچھا استعمال کیا اور میرے خیال میں ان چوروں کے دن تب ہی گنے جا سکیں گے جب عوام باشعور ہوں گے اور پھر راج کرے گی خلق خدا۔۔۔۔۔۔اللہ کرے ہماری موجودہ نسل ہی وہ دن دیکھ سکے جب پیارے پاکستان میں آزادانہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے ذریعے حقیقی عوامی نمائندے پارلیمنٹ میں آئیں۔
چرايا ہوا ملک؟ برائے کرم امريکہ ميں بيٹھ کر اس قسم کے جملے لکھنے سے پرہيز کریں۔ ویسے بھی سانڈياگو ميں بيٹھ کر صرف خبروں اور ياداشت کی بنياد پر اوبڑو اور مير پور کے متعلق لکھنا کچھ ہضم نہيں ہوتا۔ سانڈياگو کی کسی گلی محلے کے متعلق لکھا کريں تاکہ ہماری معلومات ميں بھی اضافہ ہو۔
بقول حبیب جالب
وارے نيارے ہيں بے ضميروں کے
دن پھرے ہيں فقط مشيروں کے
اپنا خيال رکھيے۔ آپ پر ميری سات پشتيں قربان۔
سبھی بھول گئے حرف صداقت لکھنا
اک ہميں ياد ہے حرف بغاوت لکھنا
حسن صاحب حقيقت اور مزاح کا حسين امتزاج ہے آپ کا آج کا يہ بلاگ، جسے پڑھ کرسمجھ ميں نہيں آرہا کہ کيسے اور کيا ردعمل اپناؤں؟ کہ حقيقی زندگی ميں بھی ہم لوگ ايسے ہی ہيں جبھی تو بے چارے بس ڈرائيور اپنے دل کا حال ٹرکوں کے پيچھے ہی لکھ کر خوش ہو ليتے ہيں۔ مرد آہن کی تشريح بھی ايک ايسی ظالمانہ تشريح ہے جس پر دل دُکھی ہی ہوا ہے کے بعض اوقات لوگ ريتيلے ٹيلے ہونے کے باوجود تھوڑے سے سہارے سے کيسے پورے پہاڑ بن جايا کرتے ہيں اور ايسے ميں کُچھ بھی کہنے کی شايد کُھلی چُھوٹ مل جايا کرتی ہے۔ سو ارباب اقتدار ہوں يا ارباب غُلام رحيم ان کے ملفوظات کو کون چيلنج کر سکتا ہے يعنی جو چاہے آپ کا حُسن کرشمہ ساز کرے کے مصداق ہم باوجود اس کے کہ ايک بلند بانگ کُرسی پر بيٹھے ہيں ليکن اندر سے تو وہی ہيں نا ہر بات ميں عورت کو ہی الزام دينے والے کہ بھئی تم کيوں بناؤ سنگھار کر کے نکلتی ہو۔ اصل بات يہ ہے کہ ايک تو حزب مُخالف دوسرے جب مُخالف فريق بندی ہو تو کُچھ بھي کہا جا سکتا ہے۔ اب ٹول باکس خالی ہو يا بھرا ہوا بيلٹ باکس کے بھرے ہونے کی يقين دہانی کروانی ضروری ہونی چاہيئے ورنہ مصاحبوں کی باز پُرس سے کيسے بچ پائيں گے وہ درانی صاحب ہوں يا نيازی صاحب، شايد وقت کی ضرورت ہوتے ہوں گے کہ يہ روايت تو پُرانی ہے اور شايد يہ old is gold والی بات ہی دل کو لگتی ہوگی يعنی کمبل کو ہم تو چھوڑتے ہيں کمبل ہميں نہيں چھوڑتا۔ اصل دُکھ يہ ہے سو کيا کيا جاۓ؟ کہ اگر ہم کٹھ پُتلياں نہ ہوتے تو کيا ہوتے بات ہے سوچنے کي۔
جناب آپ نے بہت اچھا لکھا ہے مگر چرایا ہوا ملک، چرائی ہوئی دھرتی، چرایا ہوا پانی، چرایا ہوا آئین، جيسے الفاظ آپ کو ذيب نہيں ديتے۔ کيونکہ اسی ملک، دہرتي، پاني، آُئين کی آبياری سے ہی آپ آج حسن مجتبی ہيں۔
ويسے بھی اگر آپ کی رائے درست مان لی جائے تو آپ اس چرایا ہوا ملک، چرائی ہوئی دھرتی، چرایا ہوا پانی، چرایا ہوا آئین، والے ملک کے لئے کيوں پريشان ہيں خواہ مخواہ کيوں قلم کے نشتر لگا کر خود کو اور ہم جيسوں کو کڑنے پر مجبور کرتے ہيں۔ ويسے بھی جہاں آپ رہتے ہيں وہاں تو سب کچہ آزاد ہے۔ آپ پاکستان کی فکر کيوں کرتے ہيں، آزادی انجوائے کريں۔
حضرت بہت خوب لکھا آپ نے، گويا کہ
” آتے ھيں غيب سے يہ مضاميں خيال ميں ”
حضرت جن باتوں کی طرف آپ نے اشارہ کيا ہے اسے سمجھنا آسان بات نہيں۔ رہی بات وزير اعلی ارباب غلام رحيم کی تو يہ پہلی مرتبہ نہيں کہ انہوں نے کوئی ايسی بات کہہ دی ہو۔ يہ سندھ کے دوسرے مسخرا نما وزير اعلٰی ہيں جو شرافت و سند ھ کی اعلٰی اقدار سے ہٹ کر اقتدار کے نشے ميں يا ’اصلی تے وڈے‘ نشے ميں بر سر عام يا ميڈيا پر ايسی بے ربط بلکہ بے تکی باتيں کرتے ہيں۔ اس بات پر کسی کو بھی حيرت نہيں ہونی چاہئيے کيونکہ اسی قبيل کے ايک اور وزير اعلٰی مرحوم جام صادق بھی ’جام‘ چڑھا کر ايسی ہی باتوں پر مبنی انکشافات فرماياکرتےتھے۔ ارباب صاحب تو حلف اٹھانے کے بعد ہی کہہ چکے ہيں کی ’جام‘ کی روح ارباب ميں آچکی ہے۔ رہی بات آپ کے موقف سے اختلاف کرنے والوں کی۔ يہ آپکی بڑائی ہے کہ آپ نے ان آراء کو تبصروں ميں جگہ دی ہے۔ دراصل يہ ہم سب پڑھے لکھے افراد کا الميہ ہے کہ ہم ہر شے کو کسی اور پس منظر ميں ديکھتے ہيں۔ جس بات کو بنياد بنا کر آپ نے يہ بلاگ تحرير کيا ہے اس حوالہ سے طاقتور اقتدار کی بندر بانٹ کرنے والے يہ دھوکہ دے رہے ہيں کہ ’شفاف‘ انتخابات کے انعقاد کے ليے شفاف بيلٹ بکس فراہم کئيے جائيں گے۔ دراصل ہم تو تنگ آچکے ہيں يہ سن سن کر کے آزادانہ غير منصفانہ غير جانبدارانہ انتخابات منعقد ہوں گے۔ ايسا ہی ہوتا ہے ہے کسی حد تک انتخابات منصفانہ جانبدارانہ اورآخری وقت بہت ہی آزدانہ اور سب سے آخر ميں شفافيت کا تڑکا لگا کر نتائج مرتب کئے جاتے ہيں۔