عورت اور سکھ کیڈٹ
کراچی میں بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار پر ہر چار چار ماہ کے بعد باری باری بری، فضائی اور بحری فوج کے آٹھ کیڈٹ بطور محافظ ڈیوٹی دیتے ہیں۔ اس مرتبہ پچیس دسمبر کو بانی پاکستان کی سالگرہ کے موقع پر پہلی بار بری فوج کی چھ خواتین کیڈٹس اور پہلے سکھ کیڈٹ کو بطور گارڈ متعین کیا گیا۔
اس خبر کو تمام اخبارات اور چینلز نے نمایاں جگہ دی لیکن اس طرح کی سرخیوں سے یہ واقعہ تاریخی سے زیادہ دلچسپ خبر میں تبدیل ہوگیا کہ مزارِ قائد پر پہلی مرتبہ خواتین اور سکھ کیڈٹ کی تعیناتی۔
خواتین اور سکھ کیڈٹ کا ایک ساتھ تذکرہ اس ذہن کا عکاس ہے جس کے تحت پاکستان میں سیاسی، سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر جب بھی حقوق کی بات کی جاتی ہے تو خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا تذکرہ ایک سانس میں کیا جاتا ہے۔ مثلاً حکومت نے پارلیمنٹ میں خواتین اور اقلیتوں کی نشستیں بڑھانے کا فیصلہ کرلیا۔ خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا ہرقیمت پر تحفظ کیا جائے گا۔ حکومت خواتین اور اقلیتوں کی فلاح و بہبود پر سنجیدگی سے توجہ دے رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ضیا الحق کے دور میں چونکہ ہر بیان میں اسلام کا تذکرہ لازمی تھا لہذا یہ کہا جاتا تھا کہ اسلام خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا ضامن ہے۔ پاکستان میں خواتین اور اقلیتوں کو شریعت کے مطابق پوری آزادی ہے۔
اسلام خواتین اور اقلیتوں سے فراخدلانہ سلوک پر زور دیتا ہے وغیرہ وعیرہ۔
جنرل مشرف کے دور میں چونکہ اسلام سے ہر بات کو شروع کرنے کے بجائے روشن خیالی اور اعتدال پسندی سے شروع کرنے کا چلن ہے اس لئے چاہے میرانی ڈیم کا افتتاح ہو یا کراچی سے دوبئی تک کروز شروع کرنے کا خیر مقدم۔ ہر قدم روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا مرہونِ منت دکھایا جارھا ہے۔اور مزارِ قائد پر ایک سکھ اور چھ خواتین کیڈٹس کی تعیناتی بھی روشن خیالی کی فتح کے طور پر بیچی جارہی ہے۔
پاکستان میں ہر دور میں حکومتوں نے ٹھوس اقدامات سے زیادہ مارکیٹنگ سلوگنز پر توجہ دی ہے۔ جو شے ایوب خان نے سبز انقلاب کے نام پر بیچی وہی شے یحیی خان نے نظریہ پاکستان، بھٹو نے عوامی راج، ضیا الحق نے شریعت اور جنرل مشرف نے روشن خیالی کے برانڈ نام سے بیچی ہے۔
کیا ہی اچھا ہو اگر آئین میں ایک سطر کا اضافہ کردیا جائے تو ہر حکومت کو مارکیٹنگ کی کرتب بازی سے فرصت مل جائے۔ پاکستان کا ہر شہری بلا امتیازِ عقیدہ و جنس پاکستان کے ہر سیاسی اور انتظامی عہدے پر فائز ہونے کا اہل ہے۔
کیا روشن خیال صدر مشرف آئین میں مذکورہ سطر کا اضافہ کرنے کی جرات فرمائیں گے؟
تبصرےتبصرہ کریں
کون جيتا ہے تيری زلف کے سر ہونے تک
مکرم و محترم وسعت اللہ خان صاحب! آپ کا سوال بہت ہی مشکل ہے? اگر اس کا جواب ہاں میں ہو تویہ قائد اعظم کا پاکستان بن جائے گا۔ یہی تو وجہ تھی ہندوستان سے الگ ہونے کی کہ ہندو، مسلمانوں کو مساوی حقوق نہیں دیں گے۔
اب ذرا زمینی حقائق کا جائزہ لیں: ایوانِ صدر سے بیان جاری ہوتا ہے کہ ’مولوی حضرات پریشان نہ ہوں۔ ایوان صدر میں کسی قادیانی کو ملازمت نہیں دی گئی‘۔ واحد پاکستانی نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام جس شہر میں دفن ہیں اُس کا نام ربوہ سے تبدیل کرکے چناب نگر رکھ دیا گیا ہے کہ ’ربوہ کا ذکر تو قرآن میں آیا ہے‘۔ یہی ڈاکٹر صاحب جب ہندوستان گئے تو وزیراعظم اندراگاندھی نے اُنہیں بہت زیادہ عزت دی لیکن اس اعزاز کے باوجود ڈاکٹر صاحب نے پاکستان سے اپنی وفاداری برقرار رکھی اور ہندوستانی شہریت کی پیش کش ردّ کردی۔ مشرف صاحب اگر اقیلتوں کو برابر حقوق دینا چاہتے ہیں تو کم از کم ایک بار ڈاکٹر صاحب کی قبر پر جاکر حکومت پاکستان کی طرف سے پھول ہی چڑھا دیں۔ اگر خود نہیں جاسکتے تو کسی وزیر، مشیر، ڈی سی، پٹورای یا سپاہی کو اپنی نمائندگی میں بھجوادیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے (اوروہ یقینا ایسا نہیں کریں گے) تو وہ روشن خیالی اوربرابری کا دعویٰ کس منہ سے کرسکیں گے۔ مشرف صاحب کم از کم اتنا ہی کردیں کہ جماعت احمدیہ کے نمائدگان کو الیکٹرانک میڈیا میں، خود پر لگائے گئے الزامات کا جواب دینے کی ہی اجازت دے دیں۔
وسعت بھائي!
اسلام بجائے خود روشن خيال ، جديد اور اجتہاد کے ذريعے مسائل کا حل پيش کرنے والا مذہب ہے جور روز مرہ مسائل کا حل عقلي استدلال کے ساتھ پيش کرتا ہے جو صرف اسلام کا طُرہِ امتياز ہے۔ اس لئيے اسلام کو کسی طالع آزما آمر سے روشن خيالی کی سند لينے کی ضرورت نہيں ہے۔
ميں آپکی تحريريں بہت غور سے پڑھتا ہوں اور اسميں کوئی شک نہيں کہ آپ ہمارے معاشرے کی برائيوں کی نشاندھی بڑے احسن طريقے سے کرتے ہيں اور اسميں بھی کوئی شک نہيں کہ آپ نے پاکستان ميں مارکيٹنگ سلوگنز کا ذکر بھی درست کيا ہے مگر آپ کا يہ سوال کہ آيا ُجنرل مشرف پاکستانی آئين ميں پاکستان کے ہر شہری کو بلا امتیازِ عقیدہ و جنس پاکستان کے ہر سیاسی اور انتظامی عہدے پر فائز ہونے کا اہل قرار دينے، کی ايک سطر کا اضافہ کريں گے؟ جہاں تک پاکستان کے آئين کا ذکر ہے تو وہ اس بارے ميں بہت واضح ہے۔ مشرف يا کسی اور کو اسميں تبديلی کا کوئی اختيار اور حق حاصل نہيں اور پاکستان کے کليدی عہدوں پہ غير مسلم کی تقرری کے بارے ميں پاکستان کے آئين ميں بوجوہ کچھ جائز پابندياں ہيں اور پاکستان کا آئين بغير کسی منافقت کے نہائيت واضح انداز ميں اسکا اصرار کرتا ہے جبکہ مغرب سميت بہت سے ممالک کے آئين ميں رنگ ، جنس اور مذہب کی تفريق سے بالا سب کو برابر حقوق ديے گئيے ہيں مگر ہم سب جانتے ہيں کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور اور دکھانے کے اور ہوتے ہيں اور اسکا سب سے بڑا ثبوت بھارت ، برطانيہ اور امريکہ ميں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا گيا سلوک ہے جبکہ وہاں کے آئين کے مطابق مسلمان وہاں کے برابر کے شہری ہيں۔ بے شک پاکستان کے آئين ميں کليدی عہدوں پہ غير مسلمز کے لئے کچھ پابندياں ہيں وہ بھی محض اسليے کہ ايک مخصوص عقيدے کے کچھ لوگوں نے پاکستان ہی کے خلاف اپنے کليدی عہدوں کے اختيارات کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے سازشوں کے تانے بانے بُنے۔ اس کی وجہ سے پاکستان کے عوام کے حقيقی نمائيندوں نے باقاعدہ متفقہ طور پہ کافی غورو غوض کے بعدپاکستان کے آئين کے ذريعے محض پاکستان کي حفاظت کي غرض سے يہ پابندی لگائی جس کا يہ مقصد ہر گز نہيں کہ پاکستان ميں اقليتوں کے حقوق مسلم اکثريت سے کم تر سمجھے جائيں۔ ايک بات واضح رھےکہ اس پابندی سے اقليتوں کے بنيادی حقوق پہ کوئی آنچ نہيں آتی اور پاکستان ميں اقليتوں کے حقوق دنيا کے اکثريتی ممالک سے بہت بہتر ہيں اگر کہيں اقليتی فرقے کے کسی فرد کے حقوق کو ٹھيس پہنچتی ہے تو يہ بھی ذھن ميں رکھا جائے کہ مسلم اکثريتی طبقے کو بھی آئينی حقوق بجا طور پہ پورے نہيں مل رہے کہ يہ ايک جنرل مسئلہ ہے نا کہ کسي مخصوص اقليت کا مسئلہ ہے۔
اسپين کے مسلمان کو مسجدقرطبہ ميں نماز اجازت نہيں۔ امريکہ ميں مسلمان کانگريس ممبر کو قرآن پر حلف کی اجا زت نہيں۔ امريکی آئين کسی ايسے شخص کو صدر امريکہ نہيں بننے ديتا جسکی جائے پيدائش امريکہ نہ ھو۔ پھرسرکار آپ کون؟ جو پاکستان کے آئين ميں تبديلی چاھتے ھيں۔ پھلے اکثريت کو حقوق دلوائیے پھر اقليت کے حقوق کا تقاضہ کيجيے۔
جناب وسعت اللہ خان صا حب حسب سابق آپ نے دريا کو کوزے ميں بند کر ديا ہے۔ شکر يہ
محترمی ومکرمی وسعت اللہ خان صاحب
اسلام عليکم ! کے بعد عرض يہ ہے کہ آپ کا ايک اور خوبصورت بلاگ پڑھا دل کو بہت ہی اچھا لگا۔ ہمارے ہر دلعزيز صدر محترم جنرل پرويز مشرف کوخواتين کے مسائل میں خاص دلچسپی ہے۔ انہوں نے مزار قائد پر بھی اسی لیے خواتين کيڈ ٹس ميں دلچسپی لی۔ حقوق نسواں بل، خواتين فورس، فوج ميں خواتين، اسمبلی ميں خواتين، خواتين کی حقوق نشستيں، ضلعی سطع پر خوتين کونسلرز، خواتين کو ہر شعبہ زندگی ميں خصوصی اختيارات، ميڈيا پر خواتين کی حکمرانی، نوٹوں پر خاتون کے دستخط، وزارت خارجہ ميں خاتون ترجمان، نو بجے کا خبر نامہ سميرا ملک ، تسنيم اسلم ، حنا ربانی کھر جیسی خواتين نيوزکاسٹر کا دوپٹے کے بغير روشن خيالی کی اعلٰی مثال وغیرہ وغیرہ۔ بس ديکھنا يہ ہے کہ آئندہ وزيراعظم بھی کيا خاتون ہی ہوں گی يا کوئی اور تبديلی متوقع ہے۔
بہت ادب کے ساتہ عرض ہے کہ پاکستان اسلامی ملک ہے بی بی سی نہیں۔ اسکو ایسے ہی رہنے ديں۔ ہميں کسی اور سے نام نہاد روشن خيالی کا سبق لينے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے لیے اسلام کافی ہے۔
وُسعت بھائی ہميشہ کی طرح ہٹ کر موضوع چُنا ہے آپ نے اور کتنی عجيب بات ہے ہم نے کبھی غور ہی نہيں کيا کہ خواتين اور اقليّتيں در حقيقت شايد ايک ہی چيز ہيں۔ اب يہ بلاگ پڑھا تو جہاں چودہ پندرہ طبق روشن ہُوئے وہيں يہ واضح بھی ہوا کہ قرُون اُوليٰ سے آج تک جيسے عورت کا استعمال يا استحصال جاری ہے۔ لیکن شايد ہماری خود کی ہی حس ماری گئی ہے يا مظلوم اور بے چاری بننے کی عادی ہو گئی ہیں۔ دوسرا رُخ جو آپ نے دکھايا وہ يقينآ بے حد عجيب اور مضحکہ خيز ہے ہم لوگ ’کم مُکانے‘ والی بات ہي کيا کرتے ہيں۔ ہميشہ ايک ہی دفعہ ميں دو باتيں جمع کر ديتے ہيں اور اس طرح کئی دفعہ بہت سے دلچسپ باتيں جنم ليتی ہيں جيسا کہ آپ نے لکھا کہ مزار قائد پرايک سکھ اور چھ خواتين کيڈٹس کی تعيناتی۔ سب باتوں کو چھوڑ کر ميں اس بلاگ کی آخری لائن سے سو فيصد متفق ہوں کہ پاکستان کے ہر شہری کو بلا امتيازِ عقيدہ و جنس پاکستان کے ہر سياسی اور انتظامی عہدے پر فائز ہونے کا حق ہے۔ آپ کی بات بے شک درُست ہے ليکن کياآپ يہ بتانا پسند فرمائيں گے کہ ہمارا یہ پسنديدہ بلاگ حکومت پاکستان کا کونسا اہل عہدے دار پڑھتا ہو گا۔