| بلاگز | اگلا بلاگ >>

مغرب سے شکایت نہیں

اصناف:

نعیمہ احمد مہجور | 2006-12-25 ،13:08

میری اس بات پر شاید آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا کہ ہم مغرب کو کتنا بھی کوسیں، مغرب ہمارے دل و دماغ پر نہ صرف چھایا ہوا ہے بلکہ ہماری تہذیب، زبان یا ثقافت اس کے اثر میں رچ بس گئی ہے۔

مجھے اس سے کوئی شکایت نہیں۔ شکوہ ہے تو اپنے لوگوں سے کہ وہ مغرب کے اثر میں اتنا ڈوب گئے ہیں کہ انہیں اپنی زبان، اپنی وراثت اور انپی دنیا سب دقیانوسی اور جاہل لگتی ہیں۔
ایک بڑا مشہور قول ہے کہ جو قوم اپنی زبان، اپنی تہذیب اور اپنے لوگوں سے نفرت کرتی ہے اس کا زوال عنقریب ہوتا ہے اور مجھے اپنے بارے میں کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔
مغربیوں کی ایک بات پر مجھے فخر ہے کہ یہ جہاں بھی جاتے ہیں تو اپنی زبان اور اپنی تہذیب ساتھ لے کے جاتے ہیں اور وہاں کی زبان اور تہذیب سیکھ کے آتے ہیں۔
ان کے مقابلے میں جب ہم مغرب میں جاتے ہیں پہلی ضرب ہماری زبان پر پڑتی ہے۔ ان کی زبان سیکھنا اہم ہے مگر ہم اس کے لیے اپنی زبان کی قیمت ادا کرتے ہیں اور جان بوجھ کر اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ بھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اپنے دیس میں اب بیشتر لوگ انگریزی سیکھنے کے چکر میں اپنی زبان میں بات کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔ مانا کہ کمپٹیشن کے اس دور میں انگریزی بولنا لازمی ہے مگر اپنی زبان کو بھولنا بھی ٹھیک نہیں۔
سیاست دانوں کو اپنی زبان میں بات کرنے سے شرم آتی ہے۔ ایسا کئی بار میرے ساتھ ہوا جب بعض سیاستدانوں نے اپنی زبان میں بات کرنے سے معذرت کی۔
کشمیر میں ہمارے سیاست دان تشخص اور کشمیریت کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں مگر ان کے سارے بچے کشمیری میں بات نہیں کرتے بلکہ ماں کے دودھ میں بھی اب کشمیری کی بو موجود نہیں رہی۔
ہم شاید اس غلط فہمی میں ہیں کہ ہمارے ملکوں پر ہماری حکومتیں ہیں۔ میری بات پر یقین کریں ہمارے ذہنوں، زبانوں اور دلوں پر مغرب اور مغربی تہذیب کی حکومت ہے اور اس اثر سے ہم اپنی قومیں خوب سے خوب تر بنا سکتے تھے مگر کاش ہم میں اپنی وراثت کو بچانے کی تہذیب ہوتی۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 16:42 2006-12-25 ,انعام اللہ :

    جی ہاں! پاکستانی عوام کے مقبول ترین لیڈر (امریکی ادارے کیمطابق) جنرل پرویز مشرف دہلوی ہونے کے باوجود جو اردو بولتے ہیں وہ ہم سب کیلئے روشن مثال ہے

  • 2. 18:24 2006-12-25 ,اے رضا - ابوظبی :

    محترمہ نعيمہ احمد مہجور صاحبہ
    تسليات کے بعد عرض ہے کہ چينی ، جاپانی ، کوريائی ، عرب ، ايرانی اور ترک معاشروں ميں بھي مغربي تمدن کم و بيش وارد ہو ہي چکا ہے ليکن اپني زبان کسي نے ترک نہيں کی جس کی بظاہر دو وجوہات نظر آتي ہيں:
    1- قديم ثقافت پرفخر -
    2- زبان کا تدريس کے علاوہ کاروبارِ زندگي کي تمام ضروريات بقدرِ احسن پوري کرنےچلے آنا -
    ہمارے ہاں رياضی کيميا اور طبعييات سميت جملہ نصابی کتب ان عربی اصطلاحات پر مبنی ہيں جن کا ہماري روزمرہ بول چال سے کوئي واسطہ نہيں - جامع اور بليغ قومي زبان کا يہ خِلا ، بآساني دستياب انگريزي پُورا کر ديتي ہے -
    زبان کی يہ کمزوری ، ہميں چيني ، جاپاني ، مصري يا ايراني قديم تہذيبوں جيسي کسي مضبوط قومي شناخت کی عدم موجودگی ميں ، فقط مغرب ہي نہيں ، بلکہ گردونواح کي کسي بھي چيز سے بہت جلد متاثر کر جاتي ہے - اس کي ايک مثال ہمارے ہاں شادي بياہ کی نئي رسومات ہيں - خدا نہ کرے کہيں وہ حال ہوتا ہو کہ ...
    خدا ہی ملا ، نہ وصالِ صنم
    اِدھرکے رہے ، نہ اُدھرکے رہے
    خيرانديش
    رضا
    ابوظبی

  • 3. 20:41 2006-12-25 ,محمد ايوب خان :

    نعيمہ جی آداب!
    يہ سب اس ليۓ ہو رہا کيونکہ ہم لوگ احساس کمتری کے شکار ہيں- مغرب اپنی روايات کو ترقی ديکر ترقی کر رہا ہے جبکہ ہم روايات سے نفرت کرکے دوسروں صرف زبان اور فيشن ميں نقالی کرکے ترقی کے خواب ديکھتے ہيں- ہمارے ارباب بست و کشاد کے نزديک ترقی اور خوشحالی کا راز ميراتھن ريس اور حقوق نسواں کی آڑ ميں بے حيائ اور عريانيت ميں مضمر ہے- تعليم کو مہنگا کر کے 80% غريب آبادی کو جاہل رکھ کر سمجھا جا رہا ہے تعليم ہوگی اور ملک ترقی کريگا- اور جو تھوڑا بہت پڑھ لکھ گۓ ہيں وہ بيچارے بھی چلے ہنس کی چال اور اپنی بھی بھلا بيٹھے - زوال کب کا آچکا ہوتا مگر ابھی بھی کچھ لوگ باقی ہيں شمع فروزاں جلاۓ بيٹھے-

  • 4. 22:16 2006-12-25 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    محترمہ نعيمہ احمد مہجور صاحبہ ، آداب
    آپ نے دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ ديا۔ساری باتيں بالکل کھری اور سچي ۔
    سوچيۓ ، انگريزي ميں کيا ہے جو ہماری زبان ميں نہيں !؟
    انتہائ افسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنی زبان سے کترا کر دوسری زبان کے غلام ہوۓ جا رہے ہيں ۔ ميں کتنے ہی ملکوں کی سير کر آيا مگر ميں وہاں انگريزی کو صرف رابطے کی زبان ہی ديکھا ، خاص طور سے يورپی ممالک ميں ۔۔ ہندو پاک ميں اپني زبان کوٰ ٰ ہنگلش ٰ ٰ بنا ديا گيا ہے شايد سو سالہ غلامی کا نتيجہ ہے يا احساسِ کمتری ہے ۔ ميں جب انگلينڈ سے پاکستان جاتا ہوں تو لوگ مجھ سے انگريزی نما اردو ميں بات کرنے کی کوشش کرتے ہيں اور ميں صرف اردو بولتا ہوں تو وہ حيران ہوتے ہيں اور مجھے ان سے ذيادہ حيرانی ہوتي ہے کہ ايسا کيوں ہے !؟
    لندن ميں انگريز اردودان جناب ميتھيو ميرے سالے کی شادی ميں آۓ اور انتہائ خوبصورت اردو ميں گفتگو کررہے تھے اور ہمارے لوگ انگريزی ميں ۔۔ ہالی وڈ کے اداکار اور ادکارائيں بات صرف انگريزی ميں کرتے ہيں اور فلميں صرف ہندی ميں ۔۔۔ تمام ملکوں کہ صدور اور وزراۓ اعظم غير ملکی دوروں ميں اپنی زبانوں باتيں کرتے ہيں اور ہمارے انگريزی ميں مکمل دسترس نہ ہونے کہ باوجود انگريزی ہی ميں تقريريں ، انٹر ويو اور پريس کانفرنسيں کرتے ہيں ۔۔ آخر کيوں!؟
    يہ آپ جيسے لکھنے والوں کا امتحان ہے اور کام ہے کہ اردو زبان و تہذيب کی حفاظت کريں اور لوگوں تک اس پيغام کو پہنچائيں کہ اپنی جڑوں سے جڑے رہيں ورنہ نجانے ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اپنی زبان اور تہذيب بتا اور دکھا بھی پائيں گے کہ نہيں !؟ کہيں ايسا نہ ہو کہ صرف چند اہلِ درد ہرسال ٰ ٰ مجلسِ ترحيم بيادِ اردو ٰ ٰ کا انعقادکرتے نظر آئيں۔۔۔
    نيازمند
    سيد رضا

  • 5. 22:23 2006-12-25 ,shawn :

    عجيب بات ہے جو آپ نے زبان کے بارے ميں ارشاد فرمائی پے شک ايسے لوگ ہيں جو اپنی زبان بولتے جا رہے ہيں مگر بہت سارے ايسے بھی ہيں جو آج بھی اپنی زبان اور تہذيب کو امريکہ و برطانيہ جيسے ملکوں ميں بھی اپنائے ہوے ہيں مگر ہم لوگوں ميں ايک اور بات عجيب ہے سب کو ايک ہی ترازو ميں تولنا ايک ہی جيسا سمجھنا

  • 6. 9:20 2006-12-26 ,Ishrat Kamal :

    نعيمہ صاحبہ کا مضمون موجودہ حالات کی عکاسی کرتا ہے۔ درحقيقت ہمارا نظريہ بدل گيا ہے ،ہماری سوچ بدل گئ ہے ،ہماری فکر ميں تضاد پيداہوگياہے۔اور ہم اپنی زبان وثقافت کے لحاظ سے احساس کمتری ميں مبتلا ہيں۔نيزہمارا سماج ومعاشرہ بہی مغربيت ميں غرق شدہ لوگوں کو اعلی تصور کرتا ہے ۔يہ ہماری تبديلی فکر کی دليل ہے اور ہماری تہذيب وثقافت کے زوال کا سبب ہے اورتھذيب وثقافت کا زوال ہمارا زوال ہے۔ بقول شاعر: قوت فکروعمل پہلے فنا ہوتی ہے ۔تب کسی قوم کی شوکت پر زوال آتاہے

  • 7. 9:43 2006-12-26 ,ارشدصديق :

    نعيمہ جی کاش کوئ ھميں اپنی اصليت سکھانے والا پيدا ہو جاتا
    نہ انگريزی زباں ميری نہ ہے اردو زباں ميری
    ميری کوئ مادری زباں نہيں گونگی تھی ماں ميری

  • 8. 13:43 2006-12-26 ,shahidaakram :

    نعيمہ جی اس بلاگ کو پڑھ کر جہاں دماغ کی چُوليں ہلی ہيں وہاں يہ بات بھی دماغ کے کسی کونے ميں پوری شدو مد کے ساتھ جاگتی ہے اور آج نہيں ہميشہ سے يہ سوال ميرے دماغ ميں بھی اُٹھتا تھا جسے آج آپ نے برملا کہہ ديا يعنی
    ميں نے يہ جانا کہ گويا يہ بھی ميرے دل ميں ہے
    کہ ہم پر حکومت کرنے والے حکومت کر کے جا بھی چُکے ليکن ہمارے ذہنوں ميں غُلامی کا جو بيج بو ديا گيا تھا وہ وقت کے ساتھ تناور درخت بن کر پھل پُھول چُکا ہے اور جانے والے جانے کے بعد بھی ہم پر اُسی زور وشورسے حکومت کر رہے ہيں اپنی عقل مندی کی وجہ سے کيونکہ وہ جانتے تھے کہ جو عادتيں ہم ان کو ورثہ بنا کر دے گۓ ہيں يہ لوگ اُن سے دستبردار کبھی نہيں ہوں گے کيونکہ جو بات يا چيز جڑ وں ميں بيٹھ جاۓ وہ آسانی سے نہيں نکلتی يہی مسئلہ زبان اور تہزيب کا بھی ہے کاش کہ ہم اپنی ثقافت اور تہزيب کسی اور کے سامنے پيش کر پاتے گو حقيقت يہ بھی ہے کہ آج پوری دُنيا ميں surviveکرنے کے لۓ انگلش زبان ہی ذريعہء اظہار ہے ورنہ دُنيا کے ساتھ چلنا ايک مُشکل مرحلہ ہو جاۓ ليکن اس سب کے ساتھ اگر ہم اپنی روايات کو مدّنظر رکھ کر باقی سب کام کريں تو يہ ايک زيادہ خُوش کُن بات کہلاۓ گی ليکن شايد باقی اور باتوں کی طرح ماڈ رن ازم کے چکر ميں مغرب کی اندھا دُھند تقليد کو ہی کاميابی کی کُنجی سمجھے بيٹھے ہيں جو ايک سراب ہے ، اور سراب کبھی حقيقت نہيں ہُوا کرتے بات ہے سمجھ کے اُلٹ پھير کی ليکن کيا کريں يہ بھی شايد آج کی کوئ مجبوری رہی ہو گی باقی دوسری مجبوريوں کی طرح کی کہ زبان اختيار کرنا کوئ بُری بات نہيں اپنی تہزيب اور روايات سے ہٹنا ايک ديگر بات ہے ايک شعر شايد موقع محل کی مناسبت سے ہے يا نہيں ليکن اس وقت پتہ نہيں کيوں کہنے کو دل چاہ رہا ہے
    لگے مُنہ بھی چڑانے ،ديتے ديتے گالياں صاحب
    زباں بگڑی تو بگڑی تھي، خبر ليجيۓ دہن بگڑا
    دعائيں سب کی بہتری کے لۓ
    دعاگو
    شاہدہ اکرم

  • 9. 16:29 2006-12-26 ,محمد سلطان ظفر :

    بد قسمتی سے مسلمان ممالک میں رہنے والے مسلمان مُنہہ سے اسلامی احکامات کو ہی اول و آخر قابل عمل شریعت قرار دیتے ہیں اور اس پر پورا ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن عملی طور پر ہر اس برائی میں مبتلا ہیں جو مغربی ممالک میں پائی جاتی ہیں۔ بلکہ مغرب کی تقلید میں ان سے بھی بڑھ گئے ہیں۔ نیزہر اچھے کام کو چھوڑ چکے ہیں، خواہ وہ قرآن میں درج ہو یا مغربی قوموں اپنا چکی ہوں۔
    اس کے برعکس مغربی اقوام ، خصوصاً عیسائی قوم کی اکثریت یہ اقرار کرتی ہے کہ توراۃ اور بائبل میں درج تعلیم صرف خیالی باتیں اور کہانیاں ہیں جن پر ایمان لانا اس لئے ضروری ہے کہ انسان کو نفسیاتی طور پر کسی نہ کسی چیز پر روحانی ایمان لانا ضروری ہے۔ اور اس تعلیم پر ایمان لانے کا یہ مطلب نہیں کہ اس تعلیم پر عمل بھی کیا جائے۔ بلکہ انسان عمل کے لئے آزاد ہے ۔ نیز انسان کے مذہبی ہونے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اتوار کے دن چرچ میں حاضری دے دی جائے۔
    اس لحاظ سے دیکھا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مغربی اقوام کم از کم منافق نہیں ہیں۔ وہ جس پر روحانی طور پر ایمان رکھتی ہیںاس کا اظہار بھی کرتی ہیں اور جس چیز پر عمل کرنا چاہئیں اس پر اپنی پسند کی مہر لگا کر اسے کرلیتے ہیں۔ جبکہ مسلمان قوم ، شدید ترین منافقت کا شکار ہوچکی ہے ۔ جس کا عمل اس کے ایمان سے بالکل الٹ ہے۔
    جب بھی کوئی ریسرچ سنٹر ، یونیورسٹی، کالج یا اسکول تعمیر کیا جاتا ہے تو ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگوں کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ علوم کے نئے اسرارورموز دریافت کئے جائیں۔ لوگ مختلف آراء اورتحقیقات پیش کریں اور نت نئے مضامین لکھیں تاکہ دوسرے لوگ ان کاوشوں سے فائدہ اٹھا کر ترقی کرسکیں۔ اگر آپ کسی فزکس کے ریسرچ سنٹر میں جائیں تو آپ کو ہر ایک شخص فزکس کے مختلف پہلوں پر غور کرتا دکھائی دے گا۔ لیکن ہر شخص کو مکمل آزادی ہوگی کہ وہ کسی دوسرے کے نقطہ نگاہ سے اتفاق کرے یا اختلاف۔ 1947میں آزادیِ پاکستان کا واحد مقصد اسلام کو صحیح معنوں میں تمدنی اور معاشرتی زندگی پر لاگو کرنا تھا ۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ ہر شخص کو اپنے علم اور عقیدہ کے بھرپور اظہار کے لئے مناسب پلیٹ فارم ملتا۔ ہمارے میڈیامیں اور اسکولوں اورکالجوں اور یونیورسٹیوں میںمذہبی مکالمے ہوتے۔ ہمیں یہ شعور اور تربیت ملتی کہ ہر شخص کی رائے کا احترام کرو اور اُسے حقارت کی نگاہ سے مت دیکھوتاہم عمل اُس پر کرو جو تمھاری اپنی رائے اور عقیدہ ہے۔ اگرچہ آج ہمارے میڈیا اور اسکولوں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مذہب کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے لیکن افسوس صدافسوس، کہ مناسب پلیٹ فارم سے نہیں بلکہ ایسے طریقہ سے جو ہر جگہ بدنامی کا باعث ہے۔
    اب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ ہم ہر اُس شخص کو قابل گردن زنی سمجھتے ہیں جو ہماری رائے سے اختلاف رکھتا ہو۔ ایک گردن کے جواب میں دو گردنیں کٹتی ہیں اور دو کے جواب میں تین۔اور یہ سلسلہ رکتا ہوا بھی نظر نہیں آرہا۔ ابھی وقت ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اب بھی اگرمذہب اور سیاست چند خاندانوں سے نکل کر عام لوگوں تک پہنچ جائے(جو ان کا اصلی مقام ہے) تو دینی و دُنیوی لحاظ سے مسلمان پوری دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھیں جائیں گے۔ انشاء اللہ۔

  • 10. 15:43 2006-12-29 ,سعيداللہ سعد ثمرباغ پاکستان :

    محترمہ نعيمہ صاحبہ
    اپنی مادری زبان سے محبت کرکے چين جابان جرمنی روس اور ديگر کئی ممالک نے ترقی و عروج کے منازل بڑی کاميابی سے طے کيے جبکہ ہم اب بھی انگريزی کی اے بی سيکھنے ميں الجھے ہوئی ہيں اور اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی تو ترقی کا خواب صرف خواب ہی رہے گا۔

˿ iD

˿ navigation

˿ © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔