| بلاگز | اگلا بلاگ >>

وکھری ٹائپ کی آمریت

حسن مجتییٰ | 2006-11-19 ،11:54

یہ بات اب کافی پرانی ہو چکی ہے کہ فوجی ڈکٹیٹیر جنرل ضیا ءالحق پاکستان میں عورتوں کیخلاف شاید اتنے ظالمانہ اور امتیازی قوانین نہیں لاتے اگر اس وقت ان کی سب سے بڑی حریف بھٹو خواتین سیاست میں نہیں ہوتیں۔ شاید یہ بات کبھی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے بھی کہی تھی۔

لیکن وہ ہزاروں اور لاکھوں گمنام چاہے نامور خواتین اور کچھ مرد بھی تھے جنہوں نے جنرل ضیاءالحق کے عورت دشمن قوانین کے خلاف سخت مزاحمت کی تھی۔

لاہور میں ویمن ایکشن فورم کے ایک جلوس پر پولیس نے سخت لاٹھی چارج کیا تھا جس میں شریک حبیب جالب کو بھی چوٹیں آئی تھیں۔ جالب نے اس پر ایک فی البدیھ نظم بھی لکھی تھی :

’بڑے بنے تھے جالب صاحب پٹے سڑک کے بیچ
گالی کھائی لاٹھی کھائی گرے سڑک کے بیچ‘

انیس سو اسی کی دہائي میں کراچی کی ایک حدود عدالت نے ایک اندھی عورت کو زنا کے الزام میں نفاذ حدود کے تحت کوڑوں کی سزا بھی دی جس سے کافی تہلکہ مچا تھا اور اسکے خلاف شدید ردعمل بھی ہوا تھا جس سزا کو بعد میں شاید اپیلیٹ کورٹ نے منسوخ کر دیا تھا۔ فروری نواسی سے ابتک انگنت عورتیں حدود کی زنا انفورسمینٹ کے تحت قید و بند کی شکار ہوئیں۔

اور اس آمر شخص جس نے پوری قوم پر گیارہ سال تک اقتدار بالجبر کیا اس پر کسی جج، قاضی یا مفتی نے کوئی حد نہیں لگائي۔

ابکے آمریت بھی وکھری ٹائپ کی ہے کیونکہ’ سب سے پہلے پاکستان‘!


تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 17:34 2006-11-19 ,shahidaakram :

    حسن صاحب بلاگ جيسا بھی ہے مجھے تو صرف اس بات سے غرض ہے کہ اس وکھری ٹائپ کی آمريت سے کس کو فائدہ پہنچا اور کس کو نقصان ہوا۔ حبيب جالب نے اگر لاٹھی چارج کے جواب ميں کچھ کہا يا وہ اندھی عورت جسے کوڑوں کی سزا ملی يہ سوچے سمجھے بغير کہ کوئی اندھی عورت، اب کيا کہوں کہ کہتے ہوئے غصے کے ساتھ ساتھ يہ احساس بھی ہو رہا ہے کہ عورت قرون اُولٰي سے آج تک ايسے ہی قوانين کی بھينٹ چڑھتی رہی ہے ليکن جو مذاق اقتدار کے ساتھ کيا گيا ہے اُس بے انصافی کی داد تو دينی ہی پڑے گی کہ جبر خواہ اقتدار کے ساتھ ہو يا انسان کے ساتھ جبر ہی کہلاتا ہے۔ اسے کوئی بھی درد مند دل رکھنے والا کبھی اچھا نہيں کہہ سکتا۔ ظلم ہر صورت ظلم ہی کہلائے گا، اس کو کوئی اور نام کيسے ديا جا سکتا ہے۔ ليکن ہمارے ملک کی آتی جاتی آمريّتوں کے لئے يہ کوئی انہونی نہيں ہے۔ کاش کہ کوئی اس جبر کے ہاتھوں پِسنے والوں کے کچلے مسلے دلوں کو ٹٹول کر ديکھے کہ زخم زخم دلوں کے ساتھ جينا کيسا لگتا ہے ليکن بات وہی ہے
    سب سے پہلے پاکستان
    اللہ پاکستان کو سلامت رکھے
    دعا گو
    شاہدہ اکرم

  • 2. 19:24 2006-11-19 ,اے رضا ، ابوظبی :

    سلام کے بعد گذارش ہے کہ اس موضوع پر آج تک لکھا ہوا آپ کا ہر لفظ بجا ہے ليکن سن ستر کی کوتاہي دوہرائی نہ جائے، اس کا ’فُول پرُوف‘ بندوبست نظر آتا ہے۔ وہ دن آج کا دن، نہ نو من تيل ہوا ہے کسي ايک گروہ کی ملک گير کاميابي کي شکل ميں اور نہ ہي عوامي حکومت کي رادھا ناچي ہے دوبارہ ...اُس کے بعد۔

  • 3. 22:34 2006-11-19 ,فدافدا :

    وکھرے دور دي وکھرياں گلاں۔ پہلے تحريکيں جمہور سازی کرتی تھيں اب دہشت گردی کرتی ہيں۔ پہلےلوگ عدم تشدد کرتے تھے اب خودسوزی کرتے ہيں اور زيادہ تير بہدف جہاد خود سے بم باندھ کر کرتے ہيں۔ يعني سب سے اعلٰي جنت جانب پرواز کرتے ہيں۔ مسلماني کا فرض اردگرد لوگوں کو ساتھ اڑا کر پورا کرتے ہيں۔ وکھرے دور دي وکھري گل اور تاريخ بھي حيران، سوچتي ہے کہ دہشت گردوں کا اتنا غصہ طيشں اور نفرت کس واسطے محفوظ کروں؟ کيا جانوروں کی اگلی نسليں لکھنا پڑھنا جانتی ہونگي؟

  • 4. 4:35 2006-11-20 ,عمر دراز :

    صاحب جی استعمار کبھی کسی شکل میں اور کبھی کسی شکل میں اپنا زور آزماتا ہے۔ استعمار کبھی بھی آپ کی فائدے کی بات نہیں کرتا بلکہ شاید اس مداری کی طرح جو گاجر دکھاتا رہتا ہے اور ڈنڈا مارتا رہتا ہے۔ یقیناً یہ قانون اس وقت بھی صاحب حثیت کو تحفظ فراہم کر رہا تھا اور آج بھی کرے گا۔ یہ قوم پیدا ہی اس لیے ہوئی ہے کہ محکوم رہے۔ بلکہ شاید یہاں کوئی قوم ہی نہیں۔

  • 5. 5:06 2006-11-20 ,جاويد اقبال ملک :

    آپ کا خوبصورت بلاگ پڑھا۔ ہمارے ملک کی يہی بد بختی ہے کہ ہماری فوج سرحدوں پر کم اور ايوانوں ميں زيادہ وقت گزارنے کی خواہش مند رہی ہے اور اسی وجہ سے ہمارے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اور يہ نقصان ہمارے آمروں نے ہی پہنچايا ہے۔ بس انہوں نے کچھ نہ کچھ سامنے رکھ کر وقت پاس کرنا ہوتا ہے۔ کسی نے اسلام کا نعرہ بلند کيا، کسی نے جہاد کا نعرہ بلند کيا اور کوئی انتہا پسندی کے خاتمے اور لبرل ازم کے فروغ کيلئے کام کرنا چاہتا ہے۔ ملک کو روشن خيال ملک بنا کر عظيم تر بنانا چاہتا ہے۔ اصل بات يہ ہے کہ جن کا کام ہے ان کو کرنے نہيں ديا جارہا اور ايوانوں کے اندر اور باہر سب ذمہ دارياں ايک فرد واحد کرنا چاہتا ہے۔ بس يہی ہماری بدبختی ہے۔

  • 6. 14:27 2006-11-21 ,عمار خاں :

    جناب! دیکھا جائے تو دنیا میں ہر شخص ہی انتہا پسندی کا شکار ہے۔ ترقی پسند مذہبی لوگوں کو انتہا پسندی کا طعنہ دیتے ہیں اور ترقی پسند ہونے کا دعوا کرنے والے بھی کچھ کم انتہا پسند تو نہیں۔ ہر چیز کی ایک حد ہے، چاہے وہ دین ہو یا روشن خیالی۔ کچھ لوگ دین میں انتہا پسند بنے ہیں اور کچھ روشن خیالی میں انتہاپسند۔ کسے سمجھایا جائے؟ آمریت پھر آمریت ہے۔

  • 7. 16:27 2006-11-21 ,ملک ايم ايس خان :

    کب تک لوگوں کو آمر آمر اور ڈکٹيٹر ڈکٹيٹر کہہ کہہ کر ضيا ءالحق جيسے کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کرتے رہو گے۔ لوگ سب جانتے ہيں کہ بھٹو کيا تھا اور ضياء کيا تھا۔ اس ليے اگر زيادہ موازنہ کرنا ہے تو لوگوں کو دکھاؤ کہ حکومت کے دوران کس نے ملک کو کتنا لوٹا اور حکومت کے بعد کس کی کتنی پراپرٹی نکلي۔

  • 8. 18:24 2006-11-21 ,محمد سرفراز :

    جناب محترم حسن مجتبٰی صاحب آپ نے کمال کا موضوع ديا مگر اس پر لکھنا شائع بھی ہوگا؟ شکريہ

  • 9. 17:52 2006-11-22 ,Imran Khan :

    حسن مجتبي صاحب آپ کبھی باجوڑ کے مدرسے پر بمباری کے موضوع پر بھی بلاگ لکھنے کی کوشش کیجیے۔ کیا فرماتا ہے آپ کا نظریہ اس بارے میں۔

  • 10. 10:56 2006-11-23 ,jehanzeb :

    اگر آپ عام پاکستانی کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ہم پر ایک ڈکٹیٹر ہی حکومت کر سکتا ہے کیوں کہ ہم ایک کرپٹ، غیر منظم اور خود اپنے اور دوسروں کے لیے مشکلات پیدا کرنے والے لوگ ہیں۔ ہم صرف ڈنڈے کی زبان سمجھ سکتے ہیں۔ ہمیں آزادی مل گئی تو ہم یہاں قتل وغارت شروع کر دیں گے اور اگر ہمیں دبا کر رکھا جائے تو ہم اچھے اور امانت دار رہیں گے۔ یہ ہے ہماری ذہنیت اور اس لیے ہم پر ایسے حکمران حکمرانی کر رہے ہیں۔

˿ iD

˿ navigation

˿ © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔