نہ ہاتھی ہے نہ گھوڑا ہے
’نہیں نہیں، یہ میرا پہلا روڈیو نہیں‘ صدر جارج واکر بش نے حالیہ وسطی مدت کے انتخابات میں اپنی ریپبلیکن پارٹی کی شکست کے حوالے سے وائیٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران کہا۔
کاؤ بوائے کنٹری یا ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے صدر بش کی طرف سے استعمال کردہ لفظ ’روڈیو‘ شمالی امریکہ کی وہ کاؤ بوائے سپورٹس ہے جو کاؤ بوائے کسی اڑیل گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر کھیلتا ہے۔ اس کھیل میں گھوڑا اسے نیچے گرانے کی کوشش کرتا ہے اور کوئی کوئی کاؤ بوائے یا کاؤ گرل ہی ایسے اڑیل گھوڑے کو زیر کر پاتے ہیں۔
میں نے ایک ایسی روڈیو اپنی ایک پسندیدہ فلم ’بروک بیک ماؤنٹین‘ میں بھی دیکھی تھی- ’ہرمرد اور عورت کے اندر کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں ایک بروک بیک مائونٹین ضرور ہوتا ہے‘ میں نے تب سوچا تھا۔
ایکسکیوز می۔ بات جارج بش ، ریپبلیکن پارٹی اور وسطی مدت کے انتخابات کی نکلی تھی لیکن ایک گے فلم پر جا پہنچی۔
ویسے بات کوئی زیادہ نہیں دور نکلی کیونکہ حالیہ وسطی انتخابات اور دونوں مقابل پارٹیوں کا گے ایشوز سے تعلق تو جڑا ہی ہوا تھا۔
صدر بش فوجوں کے کمانڈر انچیف سے زیادہ ایک رزمیہ شاعر لگے جو اپنی فوجوں کی ہر دم پیشقدمی اور فتوحات در فتوحات بتاتے تھے۔ بالکل انیس سو اکہتر کے ریڈیو پاکستان کی طرح۔ لیکن امریکی جمہوریت اور آئین کا کمال ہے کہ ہارنے والی حکمران پارٹی خندہ پیشانی سے شکست قبول کرلیتی ہے اور صدر اس نینسی پیلوسی کے ساتھ مل کر کام کرنے کی بات کرتا ہے جس نے اسے جھوٹا اور شہنشاہ ننگا کہا تھا، نہ کہ اسے جاوید ہاشمی بناتا ہے جس کی ضمانت سپریم کورٹ بھی نہ اٹھائے۔
اگر پیارے پاکستان میں حکمران پارٹی(جوکہ پارٹی نہیں بس حکمران ہی ہوتا ہے) انتخابات ہار جاتی تو وہ ’حالات کی خرابی‘ کا بہانہ بناکر مارشل لاء لگاتی یا پھر جیتنے والوں پر بنگال کی طرح چڑھ دوڑتی!
تبصرےتبصرہ کریں
اچھا فکر انگيز اور ذرا ہٹ کے لکھا آپ نے۔ درست لکھا آپ نے حکمراں قبيلے کے بارے ميں۔ مجھے تو يہ کيفيت نظر آتی ہے کہ ۔۔
گھوڑے پر ہودہ رکھا اور ہاتھی پر زين۔
بھلا ايسی صورتحال ميں کہاں بہتری کی اميد نظر آئے گی۔ جس ملک کے حکمرانوں کا اس کی بقا پر يقين ہی نہ ہو اور جو ہر آن امريکہ کو اپنی اولادوں کا مستقل وطن بنانے ميں کوشاں رہتے ہوں، وہاں عوامی بہبود اور قومی ترقی کے خواب کيسےشرمندہ تعبير ہوسکتے ہيں ؟
گزری ہے ہر ايک موجِ ستم ميرے ہی گھر سے
ہر عہد کے اعمال کا ميزان ہوں ميں بھی
واہ حسن صاحب کیا خوبصورت بلاگ لکھا ہے جو عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ بہت اچھے۔
حسن مجتبی صاحب ، میرے لئے تو آپ کے نام میں بھی ایک یادوں کی تلخ لڑي ہے۔ آپ کی تحریر دل کے تار چھیڑ جاتی ہے۔ طاقتور کو بھی کسی ضابطے کا پابند ہونا چاہئے اور جو کسی ضابطے کا پابند نہیں ہوتا تو طاقتور تو ہو سکتا ہے مگر بہادر نہیں ہو سکتا۔ عین جوانی میں بوڑھے باپ سے لتر کھاتا ہوا فرمانبردار بیٹا کمزور تو ہے مگر بہادر بھی تو ہے کہ نہیں۔ اور آگر ایک طاقتور بیٹا اپنے باپ کو نیچے گرا کر اُپر چڑہ جائے تو؟ کیا کسی کو اس کے طاقتور ہونے میں شک ہے؟ کاش کوئی ان طاقتور لوگوں کو جاپان کے بشی اور مسلمانوں کے مجاہد کا اخلاق پڑھا دے۔
حسن صاحب ميں نے پہلے بھی کہا تھا کہ آپ کے بلاگ آپ کے تبصروں ہی کی طرح شاندار ہوتے ہيں۔ آج کے بلاگ نے بھی يہ بات ثابت کردی۔ آپ نے گھوڑا اور ہاتھی کی بات کر کے مجھے محمد رفيع کے اس گانے کی ياد دلادی جس ميں کہا گيا تھا کہ خدا کے پاس پيدل ہی جانا ہے۔ گانے ميں تلقين جھوٹ نہ بولنے کي کی گئی تھی۔ مگر تاريخ شاہد ہے کہ مسلمان ہر چيز سے ڈرتا ہے سوائے خدا کی ذات کے يقين نہ آئے تو مسجدوں ميں پنج وقتہ نمازوں کے دوران صفيں گن ليجيے۔ معاف کيجيے گا آپ نے بات امريکی انتخابات کی کی اور ميں آپ کو محمد رفيع کے گانے سے نماز کی صفوں کی جانب کھينچ لے گيا۔ بہرحال بات ہورہی تھی امريکی اخلاق اور پاکستانی حکمرانی کی مگر امريکی اخلاق کے پس منظر ميں جو چالاکی چھپی ہوتی ہے شائد وہ ہم مشرقيوں کا وطيرہ نہيں ہوتی ورنہ ہم بھی کام کے آدمی ہوتے۔
اگر پاکستان ميں بھی امريکہ کے ہارے ہوئے لوگوں کی طرح شکست تسليم ہونا شروع ہو جائے تو پھر يہ سياست تو نہ ہوئی مہذب لوگوں کا کھيل ہوا اور پھر تو مزا ہی نہیں آئے گا۔
آپ کا خوبصورت بلاگ پڑھا بہت پسند آيا۔ واقعی امريکہ ميں يہ بات تسليم کرنا پڑے گی کہ وہاں حقيقی جمہوريت ہے۔ ہمارے ملک والا نظام نہيں ہے۔ يہاں پر تو کمزور جماعتيں انتخابات سے پہلے ہی دھاندلی کا رونا شروع ہو جاتی ہيں۔ اگر منصفانہ انتخابات ہو ہی جائيں تو پھر بھی کوئی تسليم کرنے کو تيار نہيں ہوتا اور جس طرح بنگلہ ديش ميں ہو رہا ہے اسی طرح ہوتا ہے۔ توڑ پھوڑ کا سلسلہ شروع ہو جا تا ہے اور نتيجتاً ’بڑے بوٹوں والی سرکار ‘ آ جاتی ہے اور پھر ڈنڈے کا دور شروع ہو جاتا ہے۔ يوں ہم راہ راست پر آ جاتے ہيں۔
میری رائے میں بی بی سی اردو ایک بہترین سروس ہے۔
آپ کا بلاگ پڑھا، آپ کا انداز اتہائی منفرداور اعلٰی ہے۔ سچ کو بڑے سليقے سے بيان کرتے ہيں۔
امريکہ کا ثانی ابھی تک کہاں؟ تین سو سال ميں دنيا پر دنيا بدلتے آيا ہے۔ اسی کے لئے تو ’نشان يہی ہے زمانے ميں زندہ قوموں کا کہ صبح و شام بدلتی ہيں انکی تقديريں‘۔ بے شک صدر بش اول وثانی نے امريکي غيرت اور عظمت کو چار چاند لگا کر اپنا حق ادا کر ديا۔
حسن صاحب بات انتخابات کی ہو تو دلوں کے ساتھ ساتھ وہ بندے جو اليکشن ميں تيز دھار والی تلوار پر چل رہے ہوتے ہيں بے چارے سے ہو جاتے ہيں اور پھر ايسا عجيب وقت بھی آتا ہے جب آنے والے لمحوں کے انتظار ميں بے چارے اتنے بڑے بڑے لوگ پاگل ہو رہے ہوتے ہيں اور پھر اگر اچانک صورت حال ايسی تبديل ہو جائے جيسا کہ بش بہادر کے ساتھ ہوا تو حالت ايسی ہی ہوا کرتی ہے کہ روڈيو اور ريڈيو ميں زيادہ فرق نہيں دکھائی ديتا۔ دکھ تو ہر حال ميں ہوتا ہی ہوگا ہارنے والے کو بس ہر ايک کا طريقہ کار مختلف ہوتا ہے۔ کوئی اپنی ہار نا چاہتے ہو ئے بھی چارو ناچار قبول کر ليتا ہے اور کوئی اپنی شکست کا بدلہ کسی سے کبھی کہيں چڑھائی کر کے لے ليتا ہے۔ بات ہے سمجھ کي، ہميں کيا پتہ ہم کوئی اليکشن ميں تھوڑي کھڑے ہوئے کبھي۔ پتہ نہيں آپ کو بات سمجھ ميں آتی نہيں يا ايسے ہی دل پشوری کر رہے ہيں، اور اگر سمجھ ميں نہيں آرہی سچ مچ تو جاويد ہاشمی سے کيوں نہيں پوچھ ليتے براہِ راست۔ مجھے پکا پتہ ہے وہ آپ کو بالکل صحيح بتاتے۔ پھر کيا خيال ہے کب پوچھيں گے؟
دعا گو
شاہدہ اکرم