| بلاگز | اگلا بلاگ >>

چاند ماری

وسعت اللہ خان | 2006-10-26 ،15:20

ماہرینِ فلکیات نے انسان کو چاند پر اتار دیا، مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کرنے میں وسائل جھونک دئیے۔ ہبل دوربین کو خلا میں بھیج کر نت نئی کہکشائیں دریافت کرلیں۔
blo_wusat_moon_150.jpg

سورج کی تھری ڈی تصاویر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پلوٹو کو نظامِ شمسی کی برادری سے نکال باہر کیا گیا۔

مگر ایک فلکیاتی سوال ایسا ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں اور سوال یہ ہے کہ پاکستان میں بارہ اسلامی مہینوں میں سے صرف رمضان اور شوال کے مہینوں کا چاند سب سے پہلے صوبہ سرحد کے ضلع مردان یا صوابی یا چارسدہ میں کیوں دکھائی دے جاتا ہے اور اس سے متصل علاقوں میں کیوں نظر نہیں آتا؟ اور ایک متصل علاقے مالاکنڈ ڈویزن میں چاند اس وقت کیوں نظر آتا ہے جب اسلام آباد میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کو نظر آتا ہے۔

تو کیا مردان، صوابی اور چارسدہ کسی ایسے جغرافیائی زاویے پر ہیں جہاں چاند پہلے دکھائی دے جاتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر ان علاقوں میں باقی دس اسلامی مہینوں کے چاند پہلے کیوں نظر نہیں آتے۔

مردان میں ایک گاؤں ہے شہباز گڑھی جسے گلیاڑہ بھی کہتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے بقول اس گاؤں کے آس پاس چرس کا دم لگانے والوں کے کچھ تکئے پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ جو بزرگ بے وقت چاند کے اعلان سے تنگ ہوتے ہیں ان کا پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا یہ شہادت گلیاڑہ سے تو نہیں آئی ہے۔

سوات کے شہر منگورہ میں مقیم میرے ایک پرانے مقامی دوست کا خیال ہے کہ یہ مسئلہ آج سے نہیں تقسیمِ ہند سے پہلے کا ہے، جب صوبہ سرحد کے ان اضلاع میں خدائی خدمت گاروں یا پختون قوم پرستوں کا زور شروع ہوا اور یہ قوم پرست خود کو سیاسی اور ثقافتی لحاظ سے افغانستان کے قریب محسوس کرتے رہے۔ لہذا جب افغانستان میں رمضان اور شوال کا چاند نظر آ جاتا ہے تو صوبہ سرحد کے ان تین اضلاع میں بھی کسی نہ کسی علاقے سے چاند دیکھنے کی شہادت آجاتی ہے۔

جبکہ صوبے کے دیگر اضلاع اور بقیہ پاکستان میں چاند کا نظر آنا ضروری نہیں ہے۔ اس مرتبہ بھی چاند دیکھنے کا اعلان چارسدہ سے ہوا اور وہ بھی ایسے وقت جب پشاور میں صوبائی رویت ہلال کمیٹی نے اس وقت تک کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا تھا۔

جس طرح شرعی عدالت میں گواہ کی اہلیت کا کوئی اخلاقی معیار مقرر ہے کیا چاند کی شہادت دینے والے کے لئے بھی کوئی معیار ہے؟ اگر ہے تو میرے علم میں نہیں ہے۔

کراچی میں موجود میرے ایک فلکیاتی ماہر دوست کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا ایک حل یہ بھی ہے کہ آئندہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس اسلام آباد کی بجائے مردان، صوابی یا چارسدہ میں بلا کر دیکھا جائے کہ کمیٹی کو بھی وہاں چاند نظر آتا ہے یا نہیں۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 17:00 2006-10-26 ,اے رضا، ابوظبی :

    وسعت اللہ خان صاحب، عيد مبارک!
    حيرت ہے کہ اتنا سيدھا سادہ حل کسی کو سوجھا کيوں نہيں آج تک۔ يقيناً يہی کرنا پڑے گا۔ خُدا جزائے خير دے آپ کے دوست کو، اُنہوں نے تو کمال کرديا ہے۔


  • 2. 17:12 2006-10-26 ,مسرور بنگش :

    جب تک لوگوں کی مذہبی زندگی ميں رياست ٹانگ اڑاتی رہے گی يہ مسائل بڑھتے جائيں گے۔ جب پاکستان اور اس کی ہلال کميٹياں نہيں تھيں تب بھی عيد ہو جايا کرتی تھي۔ اگر ايک علاقے کے لوگ ايک دن پہلے عيد کرنا چاہتے ہيں تو باقی ملک کيلے کيا پريشانی ہے؟ حيرت تو يہ کہ خود کو سيکولر کہلانے والے لوگ بھی اس بابت ميں ملاؤں کی طرح زبردستی کی مذھبی يکرنگی نافذ کرنے پر تل جاتے ہيں۔

  • 3. 17:49 2006-10-26 ,shahidaakram :

    وسعت بھائی سب سے پہلے تو آپ کو متنازعہ عيد مبارک ہو کہ جب بھی ہوئی ہو تو گئی يعنی دير آيد درست آيد۔ ليکن جو حليہ آپ نے عيد کے طلوع و غروب ہونے کابيان کيا ہے اُ س کو سوچ کر ايک عجيب سی حالت طاری ہو رہی ہے۔ کاش کہ جو کچھ آپ نے لکھا ہے پورا ملک اس پر عمل کرے اور ہمارے صوبہ سرحد کی تقليد کرتے ہوئے ايک ساتھ چاند ديکھ کر ايک ساتھ عيد کر لينی چاہيئے ورنہ کوئی بعيد نہيں کہ يہ ايک ايک دو دو دن کا فرق بڑھ کر اس دفعہ جيسے تين تين عيدوں کا تہوار بن گيا ہے کچھ مدت بعد عيد الاضحٰي اور عيد الفطر دو مختلف تہواروں کی بجائے ايک تہوار نہ ہو جائے۔ اس طرح دونوں کو ايک تہوار بنا کر ايک بہت بڑے موضوع سے بھی بچا جا سکتا ہے اور عام عوام کے وقت کو بھی ايک بڑی مشکل سے نکالا جا سکتا ہے جو کچھ لوگوں کے لئے نہيں سب کے لئے حقيقت ميں مصيبت بن جاتی ہے جيسا کہ آج ہم عيد کے چوتھے دن بچوں بڑوں کو سکول اور آفس وغيرہ روانہ کر چکے ہيں۔ پاکستان ميں آج عيد کا دوسرا دن منايا جا رہا ہے جيسا کہ سب کے علم ميں ہے عيد کے لُغوی معنی خوشی کے ہوتے ہيں تو جيسے بھی ہو اس خوشی کو مل کر خوشی سے طے کر ليں تو اچھی بات ہے۔ آپ کے فلکياتی ماہر دوست کی بات بھی دل کو لگتی ہے کہ روئيت ہلال کميٹی والوں کو اگر اسلام آباد کی بجائے چارسدہ، مردان يا صوابی بلا کر آزمائش کر لينے ميں کيا حرج ہے اور ہو سکتا ہے چاند صاحب کو بھی کوئی اعتراض نہيں ہوگا دِکھائی دينے ميں چاہے يہ شہادت گلياڑہ سے ہی کيوں نا آئی ہو۔ فکر کر کے بھی کيا ہونے والا ہے کہ يہ تو اب ہر سال کا مسئلہ ہے اور حل عام عوام کے پاس کيا ہوگا۔ جو کچھ کرنا ہے حکومت کی ہی ذمے داری ہے۔ دعا يہی ہے کہ کوئی مستقل حل نکلے۔

  • 4. 18:32 2006-10-26 ,جاويد گوندل :

    وسعت بھائي اللہ آپ کو خوش رکھے۔ يہ نکتہ بہت اہم ہے کہ اس مسئلے کا کوئی حتمی حل نکالا جانا چاہيئے تا کہ ملک ميں ايک ہی دن عيد ہو اور يکجہتی کا اظہار ہو سکے۔ ہم رمضان اور چاند رات پہ يوں سر پھٹول کر کے باقی دنيا کو جگ ہنسائی کا موقع تو خود مہيا کر رہے ہيں۔ جو لائق تحسين بات نہيں۔ اللہ آپ کا زور قلم سلامت رکھے، آمين۔

  • 5. 19:02 2006-10-26 ,Sajjadul Hasnain :

    جناب پہلے تو ميں آپ کو عيد کی مبارکباد دے دوں اور ساتھ ہی ساتھ بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے اسٹاف اور مستقل قارئين کو بھی تہ دل سے عيد سعيد کی پر خلوص مبارکباد پيش کرتا ہوں اور اس کے بعد آپ کو بتادوں کہ پاکستان ہی نہيں ہندوستان ميں بھی يہ مسئلہ برقرار ہے۔ برقرار ميں نے غلط کہا بلکہ ازل سے ہی جب رمضان کی عيد کا مسئلہ آتا ہے تو ملک کئي ٹکڑوں ميں بٹ جاتا ہے اور عيد دو دن ہوتی ہے۔ اس سال بھی يہی ہوا حيدرآباد ميں عيد بدھ کو منائی گئی جبکہ حيدرآباد کے دو تين پڑوسی ضلعوں ميں رويت ہلال کا دعوٰی ٹھوک ديا گيا اور عيد منگل کو منالی گئي۔ اور تو اور پڑوس کی رياستوں، ٹامل ناڈو اور کرناٹک ميں بھی بڑے تنازعوں کے بعد منگل کو يعنی انتيس روزے ہی ميں عيد کا اعلان کرديا۔ دہلی والوں کو نہ جانے کيا سوجھی کہ گيارہ بجے رات رويت کا اعلان کرديا اور لکھنؤ والے اس سے دو ہاتھ آگے بڑھ کر صبح تين بجے عيد منانے کا اعلان کرديا۔ اب يہ پلينيٹوريم والے لاکھ اپنی کم فہمی کے دعوے کرتے رہيں اور ناسا والے کروڑہا ڈالر خرچ کر کے خلاوں ميں سر پٹکتے رہيں۔

  • 6. 5:58 2006-10-27 ,بابر سلطان خان :

    جی ہاں، وسعت صاحب !
    چاند کی شہادت دينے والوں کے لئے بھی گواہی کے معيار مقرر ہيں۔ يہ الگ بات ہے کہ اس معيار پر پورا اترنے والوں کی نگاہ اس قدر کمزور ہو چکی ہوتی ہے کہ ان کو برسوں چاند نظر نہيں آ سکتا۔

  • 7. 9:00 2006-10-27 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    ہميشہ کی طرح ايک خوبصورت اور فکر سے بھرپور تحرير۔ چاند نظر آنے يا نہ آنا کا مسئلہ نجانے کب حل ہوگا۔ بس وسعت صاحب ميری چاند رات تو ٹھيک رہی مگر اس سال کا روزِ عيد انتہائی عالمِ خوف و پريشانی ميں گزرا کيونکہ ميں صبح ہی صبح عيد کی نماز کو جارہا تھا کہ انتہائی خطرناک کار کے حادثے سے دوچار ہوگيا اور کافی زخمی ہوگيا۔ خاص طور سے الٹا بازو شديد زخمی ہوگيا اور بڑا فريکچر ہوگيا۔ تيزی سے ہسپتال پھنچايا گيا اور ہنگامی بنيادوں پر بازوں اور کلائی کا آپريشن کيا گيا اور چوبيس گھنٹے نگہداشت ميں رکھ کر رخصت کرديا گيا۔ چھوٹے زخم آہستہ آہستہ بھر رہے ہيں مگر کلائی اور بازو کے زخموں کو مندمل ہونے ميں وقت لگے گا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے محفوظ رکھا اور سيدھا ہاتھ بالکل ٹھيک ہے۔ اس وجہ سے رابطے ميں آسانی ہے۔ آپ سے اور آپ کا بلاگ پڑھنے والے تمام قارئينِ کرام سے درخواست ہے کہ اس ناچيز کی جلد صحتيابی کے لئے دعا فرمائيں۔اپنا بہت خيال رکھيئے گا۔

  • 8. 11:32 2006-10-27 ,جاويد اقبال ملک :

    آپ نے اپنی روايت کے مطابق بہت ہی خوب لکھا ہے - اگرچہ ان دنوں اس موضع پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اس مرتبہ ساری دنيا ميں ہماری بہت جگ ہنسائی ہوئی ہے اور ہم اميد کرتے ہيں کہ حکومتی سطح پر اس مسئلے کا حل نکال ليا جائے گا۔

  • 9. 12:30 2006-10-27 ,arif hasan :

    واہ خان صاحب آپ نے ایک بار پھر میدان مار لیا اور ایک نازک مذہبی مسئلے کا بہترین حل دے دیا، خوش رہیں۔

  • 10. 14:00 2006-10-27 ,مياں آصف محمود، ميری لينڈ، يو ِ ايس ِاے :

    جناب وسعت اللہ خان صاحب خدا آپ کی طرح حکمرانوں کی نظر ميں بھی وسعت پيدا کرے۔ ويسے تو آئے دن نئے چاند چڑھاتے رہتے ہيں۔ آپ کی تجويز بہت مناسب ہے۔ مہنگائی نے دن ميں تارے تو دکھا دئے اور بڑھی تو شايد چاند بھی نظر آ جائے۔

  • 11. 15:14 2006-10-27 ,وسيم :

    بات تو ايسی ہے کہ دل کرتا ہے بہت کچھ کہوں ليکن کيا کريں
    وسعت اللہ بھائی اب اپنے ديس ميں ہر بات تھوڑی دير سے ہوتی ہے۔ اگر آج دوسرے کہکشاں سے باہر جانے کی سوچ رہے ہيں تو کوئي بات نہيں ہم کل تک تو چاند کا فيصلہ کر ہي ليں گے۔ يہاں جس کی لاٹھی اس کی بھينس کا قانون ہے۔

  • 12. 15:47 2006-10-27 ,شکيل احسن :

    آپ تو سرحد کے کم تعليم يافتہ علاقوں کے چاند سے پريشان ہيں۔ ہم يہاں شمالی امريکہ جيسے تعليم يافتہ خطہ ميں تين مختلف دن پہلی رمضان کا چاند ديکھتے ہيں۔ ساری بات يہ ہے کے اسی چاند پر سياسی مُلاح اپنی اہميت دکھا سکتے ہيں چاہے يہ تفريق ملت کا باعث بن جائے۔

  • 13. 6:20 2006-10-28 ,عمر دراز :

    صاحب بات سیدھی سی ہے۔ اگر آپ اختلاف رائے کے جائز طریقوں پر پابندی لگا دیں گے۔ اور لوگ قومی فیصلوں میں احساس شرکت سے محروم ہوں گے تو پھر جس کا جدھر زور چلے گا اپنا زور دکھائے گا۔ مولوی کا زور مسجد میں چلتا ہے ڈرائیور کا گاڑی میں اور ٹریفک پولیس کا روڈ پر۔

˿ iD

˿ navigation

˿ © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔