| بلاگز | اگلا بلاگ >>

جرمن، فرانسیسی اور ہندی

اسد علی | 2006-10-14 ،12:43

میں جنوبی ایشیا کا رہنے والا ہوں لیکن خطے کے کسی ایک ملک کی زبان بھی نہیں جانتا۔ تھوڑی بہت ہندی پڑھ لیتا ہوں لیکن وہ بھی لندن آ کر میں نے خود سیکھی۔
blo_asad_lang_150.jpg

ہندی ظاہر ہے کہ سب سمجھتے ہیں لیکن اس کے رسم الخط سے تقریباً سب ہی ناواقف ہیں۔ بلکہ پنجاب میں سرحد کے پار رہنے والے ایک دوسرے کی لکھی ہوئی پنجابی بھی نہیں پڑھ سکتے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ کمی دور کر دی جاتی اور علاقے کے ادب سے بھی واقفیت پیدا ہوتی لیکن کہاں۔۔۔ہم میں سے بہت سوں کو شیکسپیئر انگریزی میں پڑھا دیا گیا لیکن مقامی شعرا کو ان کی زبان میں پڑھنے کا موقع نہیں ملتا۔

لاہور میں جرمن اور فرانسیسی سیکھنے کے اچھے مواقع تھے اور فیشن بھی تھا لیکن وہاں کبھی خیال ہی نہیں آیا کہ قریب ہی چند کلومیٹر کے فاصلے پر کچھ اور زبانیں بھی بولی جاتی ہیں اور یہ لوگ ہم سے زیادہ قریب ہیں، اور کُچھ یہی حال پڑوسیوں کا بھی تھا۔

یورپ میں اس کمی کا احساس شدید ہونے کی ایک وجہ بہت سے ایسے لوگوں سے ملاقات اور دوستی ہے جو اس برِّ اعظم کی ایک سے زیادہ زبانیں جانتے ہیں اور انہیں یہ سیکھنے کا سکول میں بھرپور موقع ملتا ہے۔ اس سے یقیناً یورپ میں ہم آہنگی بڑھانے میں مدد ملے گی۔ کئی انگریزوں سے ملاقات ہوئی جو فرانسیسی، جرمن، ہسپانوی، اطالوی یا یونانی میں سے کم سے کم ایک زبان ضرور جانتے ہیں۔

ہمیں تو خیر پاکستان کی زبانیں بھی نہیں سکھائی گئیں جنوبی ایشیا تو دور کی بات ہے۔ اگر کسی سندھی، بلوچی، پٹھان کو اردو نہ آتی ہو تو میں اس کا ہم وطن ہوتے ہوئے بھی اس سے بات نہیں کر سکتا۔ کراچی سے میٹرک کرنے کی وجہ سے سندھی کا امتحان دیا تھا لیکن ایک سال میں کوئی کتنا سیکھ سکتا ہے۔

اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ ہمارے طالب علموں کا بھی حق ہے کہ ان کو بنگالی، تیلوگو، تمل، کنڈا، سنسکرت، پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو سیکھنے کا موقع ملنا چاہیے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 14:06 2006-10-14 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    محترم اسد چودھری صاحب ، سلام عرض
    اچھا لگتا ہے کہ آپ دنيا کو جوڑنے اور اسے ايک کرنے کی مسلسل کوشش ميں لگے ہوئے ہيں ۔۔ خدا آپ کو اور ہمت دے اور آپ اپنے مقصد ميں کامياب ہوں ۔۔
    آپ کا کہنا کافی حد تک درست ہے ، زبانيں آنی چاہيۓ يہ فاصلے دور کرتيں ہيں اور اس بات کو انگريز بھی محسوس کرتے ہيں اکثر جب ہم ايشيائی ڈاکٹر اردو يا ہندی ميں گفتگو کرتے ہيں تو ہمارے ساتھی ڈاکٹر کہتے ہيں کہ کاش ہم بھی سمجھ سکتے کہ آپ لوگ کيا بات کررہے ہيں ۔۔ آپ لوگ لکی ہيں کہ ہماری اور اپنی دونوں زبانيں جانتے ہيں ۔
    اردو نے تو خود کئی زبانوں کے ملاپ سے جنم ليا اور اتنی وسعت ہے اس زبان ميں کہ اب تک نئی زبانوں کے الفاظ اس ميں سماۓ جارہے ہيں ۔
    آپ نے تذکرہ کيا کہ پاکستان ميں علاقائی زبانيں نہيں سکھائی جاتيں مگر اردو بھی تو اس انداز سے نہيں سکھائی گئی جس انداز سے سکھانے کا حق تھا، انگريزی کے ساتھ بھی يہی ہوا، کافی بڑی ڈگريوں کے حامل افراد مناسب طرح سے لکھ نہيں سکتے ۔۔ پھر تين اور چھ مہينوں ميں روانی سے انگريزی بلوانے والے اداروں نے تو جلتی پر تيل کا کيا ۔
    ۔۔ ضرور زبانيں سيکھيں ان سے رابطے بہتر ہوتے ہيں ، دوسرے لوگ خوش ہوتے ہيں اگر آپ ان کی زبان ميں بات کريں ۔ مگر محبت و پيار کی کوئی زبان نہيں ہوتی ، کوئی زبان نہيں ہوتی دنيا کے تمام لوگ ايک طرح سے مسکراتے ہيں اور ہنسنتے ہيں اور روتے بھی ايک طرح سے ہيں ۔
    ايسے ہی اپنے پن کے ساتھ لکھتے رہيں ۔
    دعا گو
    سيد رضا
    برطانيہ

  • 2. 15:18 2006-10-14 ,اے رضا، ابوظبی :

    مُحترم اسد علی چوہدری صاحب

    ايک اور دلچسپ موضوع کے ساتھ خوش آمديد!
    ہماری بےنيازيوں کي طويل فہرست ميں ، خُود اپنی علاقائی زبانوں سے ناواقفيت بھي شامل ہے ، جس کا آپ نے ذکر کيا ہے- لندن کے نواح ميں ايک پبلک اسکول ميں زيرتعليم ميرے کمسن بھتيجے، انگريزي کے علاوہ اپنی پسند کي ايک يُورپی زبان پڑھنے کے پابند ہيں - بظاہر يہ دُورانديشانہ قدم ، يُورپی يُونين کي اگلي نسلوں ميں قريبی روابط پيدا کرنے کی نيت سے ہے - افسوس ہمارے ہاں علاقائي زبانوں کے تناظُر ميں بھي کسي کو ايسا کوئي خيال نہيں آيا ... ليکن آپ ايسا ہرگز مت کيجيۓ گا-
    اگر يورپ کے زميني سفر کا صحيح لُطف لينا ہے تو فرانسيسي اور جرمن ، دونوں ہي زبانيں ضرور سيکھيۓ گا اور پھر ہميں اپنے تجربات سے آگاہ کرنا مت بھُوليۓ گا -

    دعاگو
    اے رضا

  • 3. 18:43 2006-10-14 ,shahidaakram :

    اسدصاحب ايک تعميری بلاگ لکھنے کے لیئے ميں آپ کو مبارکباد ديتی ہوں ،واقعی آپ نے بالکل صحيح کہا۔ بات پھر گھوم پھر کر اسد صاحب وہيں تک آجاتی ہے کہ ہم لوگ کوئی بھی کام اُس وقت تک نہيں کرتے جب تک اشد مجبوری نا ہو ہاں شوق کی بات دوسری ہے ،ورنہ کچھ بھی سيکھنا ايک اچھا عمل ہے وہ زبان ہو يا کوئی بھی کام ليکن ہم ہر کام کرنے سے پہلے اُ س کے اپنے ذاتی فائدے اور نقصانات کو ہی ديکھتے ہيں جاب کی ضرورت ہو يا کہيں جا کر رہنا ہو تب ہی ہم کوئی کوشش کرتے ہيں ،ميں آپ کو اپنی ايک چھوٹی سی مثال دوں ميں نے قرآن پاک بھی ترجمے سے پڑھ رکھا ہے اور عربی اور اسلامک سٹڈيز پسنديدہ مضامين ميں شامل تھے سو گريجوئيشن تک عربی کااور مير ا ساتھ رہا اُس کے باوجود جب ہم سعوديہ گۓ تو ميری ساری عربی صفر ہو گئی جب ائر پورٹ پر مقامی لوگوں کی زبان کے سامنے مجھے اقامہ کے لفظ کی بھی سمجھ نہيں آئی وجہ يہ ہے کہ زبان آنا ايک بات ہے اور اہل زبان کی طرح آنا ايک دوسری بات ہے ليکن آپ يقين مانيں صرف ايک مہينے کے اندر اندر ميں نا صرف مقامی لوگوں کی گفتگو سمجھنے کے قابل ہو گئی بلکہ اپنے ہاں کے لطيفے بھی اُن کو عربی ميں ترجمہ کر کے سنانے لگی اور طريقہ يہ تھا کہ اپنی مصری پڑوسن سے ہر لفظ اُنگلی رکھ کر پوچھتی تھی کہ اسم يعنی نام اور بہت جلد سب بالکل ٹھيک ہو گيا وجہ صرف ضرورت تھی کہ اردگردکوئی اپنی زبان والا نہيں تھا تو مجبوری کہہ ليں ياکچھ بھی کہ انسان ذرا ايسی ڈھيٹ چيزہے کہ جب تک بہت مجبور نا ہو کچھ بھی سيکھنے کے لیئے تيار نہيں ہوتا ديکھ ليں آپ نے ہندی کے سيکھنے کی بھی وجہ اپنی ذاتی کوشش ہی بتائی تو بات صرف اور صرف شوق کی ہے حالانکہ کچھ بھی سيکھنا ايک انتہائی خوبصورت عمل ہے کہ انسان اپنی ساري زندگی کچھ نا کچھ سيکھتا ہے شرط شوق اور لگن ہے اور بس،ورنہ بندہ ايک انسان ہوتے ہوئے بھی بے زبان ہو گا،شکريہ اتنا معلوماتی بلاگ لکھنے کے لیئے
    دعا گو
    شاہدہ اکرم

  • 4. 19:14 2006-10-14 ,محسن عباس چودھری ٹورانٹو کينيڈا :

    جناب اسد چودھری صاحب
    آپ بالکل بجا فرماتے ہيں کہ زبانوں کا سيکھنا انتہائی ضروری ہے۔ مگر ہم پاکستانی بيچارے کيا کريں ۔ اپنے ملک ميں رہتے ہوئے ہميں بھائی بھائی کا دشمن بنا ديا گيا اور دوسرے صوبوں کی زبان سيکھنا تو دور کی بات ہم اپنے صوبوں کی زبانيں صرف اس لیئے نہ سيکھ سکے کہ ہم ايک دوسرے کے خلاف نفرتوں اور کدورتوں سے بھرے دل لیئے پھرتے ہيں۔ کاش تمام صوبائی زبانيں تمام صوبوں ميں سکھائی جاتيں تاکہ آنے والی نسليں ان زبانوں کی وجہ سے ايک دوسرے کے قريب آسکيں۔
    ملک ميں يا ملک سے باہر مجھے اس وقت سخت کوفت ہوتی ہے جب بہت سارے پاکستانی لوگ تعارف کراتے ہی نام کی بجائے مجھے يہ پوچھتے ہيں کہ `ميرا تعلق پاکستان کے کس شہر سے ہے`۔
    مگر مجھے اپنی ساری عمر کے دوران ايک بھي بھارتي ايسا نہيں ملا جس نے دوسرے بھارتی سے دوران تعارف پہلا سوال يہ کيا ہو کہ آپ بھارت کے کس شہر سے تعلق رکھتے ہيں۔
    مجھے کينيڈا ميں سکھوں کے فلمی ميلے ميں ايک سردار جی ملے ۔ ان کے دو بھائی تقسيم ھند کے دوران بچھڑ گۓ تھے ۔ سردار جی نے بھارت جا کر سکول کی زندگی ميں قدم رکھتے ہی پہلا کام يہ کيا کہ آردو سيکھنا شروع کردی اور آج تک ان کو اپنے بھائيوں کی تلاش کرنے ميں اردو زبان نے بڑا ساتھ ديا ہے اور ان کو اردو مواد کا مطالعہ کرتے ہوئے کسی کی محتاجی نہيں کرنی پڑتي۔
    ويسے آپس کی بات ہے کے ہمارے صوبے پنجاب ميں سکولوں ميں پنجابی زبان کی کوئی کتاب نہيں ہے اور نہ ہی کوئی مضمون۔
    مجھے اپنی سوسالہ دادی اماں کی بات آج بھی ياد ہے کہ `جے پنجابی بھل جاؤ گے ککھاں وانگوں رل جاؤ گے`۔
    بوڑھے سردار جی اور دادی اماں کی باتوں ميں حقيقت ہے زبانيوں کا سيکھنا اور سکھانا معاشروں کی ترقی مي اہم کردار ادا کرتا ہے۔

  • 5. 21:12 2006-10-14 ,Mian Asif Mahmood :

    بھای اسد علی چوہدری صاحب سب سے بڑی تو پيار کی زبان ہے جوآپ کو آتی ہے اور بہت اچھی آتی ہے۔ میرے خيال ميں اس کے ذمہ دار ہمارے حکمران اور با اثر طبقہ ہے جس کوشروع دن سے يہ خطرہ کہ اگر قوم صرف پڑھ ہي گئی تو حقيقي آزادي مانگ لے گی آپ تصور کريں کہ فارسی اور عربی بھی عام سکولوں کے اختياری مضمون کے طور پر بھی نہیں پڑہائي جاتی کہ بوستان کو گلسان سعدی کے اور قرآن کے سمجھنے سے کچھ معاملہ فہمی آہي جاتی ہے۔

  • 6. 5:38 2006-10-15 ,جاويد اقبال ملک :

    ڈیئر اسد بھائی اسلام علیکم،
    آپ نے وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے بلاگ لکھا ہے اور مجھے بہت ہی اچھا لگا ہے۔
    آپ نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ ہم لوگ انگلش کو سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اپنی زبانوں کو بھول چکے ہیں۔ شاید ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ صوبوں کی زبانیں سیکھنا ضروری نہیں ہے یا پھر ان کی اہمیت نہیں ہے۔

  • 7. 7:29 2006-10-15 ,جاويد گوندل :

    محترم چوہدري صاحب !
    طالب علموں کے علاوہ ، بيورو کريٹس، سياستدانوں، سول اداروں کے اعلی عہديداروں، قومي اخبارات کے مديرانِ کرام ، اليکٹرانک ميڈيا کے موڈ ريٹرز ، اديبوں اور صحافيوں کو بھي اپني مادري زبان کے علاوہ پنجابی، سندھی، بلوچي، اور پشتو ميں سے کم از کم ايک زبان کو ضرور سيکھنا چاہيئے جس سے الگ الگ حلقوں اور دائروں ميں بٹے معاشرے ميں ايک دوسرے کی زبان سمجھنے سے دوسروں کے رہن سہن اور ثقافت سے آگاہی ہوگي اور آپس ميں باہمی احترام پيدا ہوگا، ايک دوسرے کو سمجھنے ميں آسانی ہوگی ايسے ميں زبانيں پُل کا کام ديتی ہيں - ساتھ ساتھ ہميں عربي اور فارسی جو ہماری ہمسایہ اور مسلم زبانيں ہيں يہ بھی سيکھنی چاہيں اس سے ربطِ اُمت بھي مذيد بہتر ہوگا - عام آدمی کو بھی ، پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو، سرائيکي ، مکراني ، کشميری لداخی وغيرہ ميں سے کم از کم کسي ايک زبان کی سوجھ بوجھ کی کوشش کرنی چاہيے تا کہ ربطِ ملت بہترہو اور اس کے لئيے ضروری ہے کہ ايجوکيشن اتھارٹيز اور صوبائی حکومتيں دوسروں صوبوں ميں اپنی زبان سکھانے کے لئيے تعاون و بندوبست کريں اور بنکوں اور بڑے بڑے مالی و کاروباری اداروں کو اُنکی پبلسٹی کے بدلے فنڈ وغيرہ مہيا کرنے کے لئيے ترغيب دے جاسکتی ہے اور ہمارے ہاں جو بے مقصد قسم کي ورکشاپس پہ اتنے وسائل ضائع کيے جاتے ہيں اِن وسائل سے ايک دوسرے کے رہن سہن اور ثقافت وغيرہ سمجھنے کے لئے ورکشاپس قائم کی جانی چاھيئں بہرحال طريقے بہت ہيں مگر خلوصِ نيت بنيادی شرط ہے-
    بنگالی، ہندي ، گجراتی ، آسامي ، مرہٹي ، تيلگو، تامل، کنڈا اور سنسکرت وغيرہ کی بابت عرض ہے کہ بنگالی ہم نے تب نا سيکھی جب سابقہ مشرقی پاکستان ہمارا حصہ تھا اور اب ناممکن نہيں تو مشکل ضرور ہے- اورہندی کی آپ کوئی بھی سائٹ کھول کر ديکھ ليں اُس پہ پاکستان کے خلاف زہر بھرا ہوگا ايسے ميں ہندی سيکھنے کی ترغيب دينا بہت مشکل ہے کيا فائدہ جب اعتماد کا رشتہ ہی قائم نا ہو؟ ہندی ، اردو بولنے اور سننے ميں ايک جيسی ہيں اور ايک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان اور بھارت ميں پانچ سو ملين کے لگ بھگ اردو ، ہندی لوگ بولتے ہيں جو چينی اور انگريزی کے بعد دنيا کی تيسری بولی جانے والی بڑی زبان ہے مگر بھارت نے عام فہم اُردو زبان کو نستعليق رسم الخط کی بجائے پانچ ہزار سالہ قديم ناگری رسم الخط ميں لکھنے کو رائج کر کے ُہندي، کا نام دے کر جس تعصب کا مظاہرہ کيا اس سےجہاں دونوں ملکوں کے عوام ايک دوسرے کی زبان لکھنے پڑھنے سے محروم ہو گئے وہيں پاکستانی عوام ميں ہندی سے الرجی عام ہوئی اور يہی حال اُس پار پنجابی کو گورو مکھی رسم الخط ميں لکھنے کو رائج دے کر پنجابی کے ساتھ کيا گيا اور آپکے علم ميں ہوگا جب دلوں ميں دوری ہو تو لوگ دوسرے ممالک کی زبانيں تو سيکھ ليتے ہيں مگر اڑوس پڑوس کي علاقائي زبانيں جانتے ہوئے بھی بولنا گوارا نہيں کرتے اس ضمن ميں يوروپ کے کئی ممالک کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں ايک علاقائی زبان جاننے والے دوسرے علاقے کی زبان کو کم تر جانتے ہيں يا پسند نہيں کرتے وجہ صرف ان علاقوں کا ماضی يا حال ميں سياسی حريف ہونا ہے جبکہ بھارت اور پاکستان ميں يہ صورتحال بدرجہ زيادہ شديد ہے
    دعا گو
    جاويد گوندل، بارسيلونا-اسپين

  • 8. 7:51 2006-10-15 ,عبدالہادی حيران :

    آپ کی بات سو فيصد صحيح ہے مگر کاش حکمرانوں ميں بھی اتنی عقل ہوتی کہ اس بات کو سمجھ جاتے- ان پٹھو حکمرانوں کا تو خيال ہے کہ پشتو اور سندھی سيکھنے سے ملک ٹوٹ جائيگا- پسماندہ اور غلام حکمرانوں کی سوچ بھی پسماندہ اور غلامانہ ہوتی ہے

  • 9. 21:02 2006-10-15 ,sana khan :

    ہمارے اسکولز ميں سارا زورصرف انگلش پر ہی ہے جيسے جس نے انگلش نہيں پڑھی وہ گونگاسمجھو جب اردو کو ہی سيکنڈ لينگويج کی طرح پڑھاياجاتاہےتومقامي زبانيں تورہنے ديں ليکن اگرشوق ہو تو مشکل سے مشکل زبان آجاتي ہے بہت کم ہی ہم ميں سے ايسے ہونگے جنہيں پنجابي،سندھي،بلوچی اور پشتو آتی ہوں تو باقی زبانيں تو دور کی بات ہيں آنا

  • 10. 6:45 2006-10-16 ,جاويد اقبال ملک :

    محترمی و مکرمی اسد بھائی
    اسلام عليکم ! آپ نے بہت ہی خو بصورت انداز ميں زبانوں کی اہميت پر روشنی ڈالی ہے - يوں تو انسا ن کو چا ہیے کہ وہ جس قدر علم حاصل کر سکے کرے اور زبانوں پر عبور کا تعلق بھی علم سے ہی ہے- مگر ہم لوگ اپنی صو بائی زبانوں کو بھی وہ اہميت نہيں ديتے جو کہ دينی چاہيئے ميں تو نہ اردو پر عبور رکھتا ہوں اور نہ ہی پنجابی پر - صرف بولنے کا مطلب عبور نہيں ہوتا - دوسری زبانوں کو تو چھوڑيں ناں ، مگر ہماری بدبختی يہ ہے کہ ہميں سکولوں ميں پڑھائی ہی نہيں جاتی - ہميں تو بس انگريزی پڑھنی ہے - بی - اے تو کرنا ہے ناں ، آخر اليکشن بھی تو لڑنا ہے -

˿ iD

˿ navigation

˿ © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔