سفر ہے شرط
میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر ہوائی جہاز نہ ہوتے تو کیسا ہوتا؟ مختلف رنگ، نسل اور مذہب کے وہ لوگاور ان کی بستیاں جن کے اوپر سے ہم آناً فاناً گزر جاتے ہیں ہم انہیں زیادہ قریب سے دیکھ سکتے اور شاید دنیا میں غلط فہمیاں بھی کم ہوتیں۔
ہم اُن بہت سے خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز ہو سکتے جن کا اب ہم جہاز کی کھڑکی سے اندازہ ہی لگا سکتے ہیں۔ زمین کے بارے میں معلومات کے لیئے ہم صرف سکول کی کتابوں اور ٹی وی پروگراموں کے محتاج نہ ہوتے بلکہ کے دوران ہرگزرتے ہوئے میل کے بعد نئے نئے پھول پودے اور رنگ بدلتی زمین کو قریب سے دیکھ پاتے۔
کے دوران رات پڑنے پر مختلف ہوٹلوں میں دنیا کے مختلف خطوں سے آنے والوں کی باتیں سنتے، بدلے میں اپنے تجربات انہیں بتاتے اور آگے بڑھ جاتے۔ طرح طرح کے کھانے کھاتے۔
ہر سفر ایک تربیتی کورس ہوتا جس میں ہم زمین، انسانوں اور خود اپنے بارے میں کچھ سیکھتے۔ آج کی طرح نہیں کہ جیسے لندن سے اڑے ویسے ہی لاہور پہنچ گئے۔ کچھ اور نہیں تو سڑک کے ذریعے اس سفر کے دوران بیس مختلف طریقوں سے سلام کہنا ہی سیکھ جاتے۔ اس سفر کے دوران ہمیں کبھی خیال بھی نہیں آتا کہ ہم کوہ قاف کے اوپر سے گزرتے ہیں۔
جہاں ہمیں کتابوں کے ذریعے مخلتف ممالک کے بارے میں حقائق پتہ چلتے ہیں زمینی سفر کے ذریعے ہم ان ممالک کے باسیوں کو اس طرح جان سکتے جو صرف ملنے سے ہی ممکن ہے۔
المختصر یہ کہ اگر ایسا ہوتا جیسا میں اکثر سوچتا ہوں تو دنیا لکیروں میں بٹے نقشے کی بجائے ایک حقیقت کے روپ میں دکھائی دیتی۔ لندن سے لاہور کے ہوائی سفر میں ہم ہزاروں میل کا سفر کرتے ہیں لیکن حقیقت میں صرف دو شہروں تک محدود ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترم اسد چودھری صاحب ، سلام عرض ۔۔
کافی فلسفيانہ انداز ہے اس تحرير کا ۔۔ اچھا لگا ۔
ميں سمجھتا ہوں کہ سلام کرنا کسی سفر کا محتاج تو نہيں کہ سفر ہي ميں ہم ايک دوسرے کو سلام کہنا سيکھيں يا حال چال دريافت کريں ، اب ديکھيں ، ميری تحرير کا آغاز ہی سلام سے ہوا ہے ۔۔
آپ کا يہ کہنا با کل درست ہے کہ ہوائی جہاز کے سفر نے ان زمينی نظاروں کو ديکھنے کا موقع کم کرديا ہے مگر ہم آسمانی نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہيں اور اگر زيادہ بلندی نہ ہو تو زمين کئی نظاروں کے ساتھ جلوہ افروز نظر آتی ہے ۔
يہ ضرور ہے کہ لوگوں سے بات چيت کا موقع کم ملتا ہے ہر شخص اپنے اپنے کانوں ميں ہيڈ فونز لگائے سيٹ کے سامنے لگے ٹي وی کے چينلز بدلنے ميں مصروف رہتا ہے يا پھر کسی رسالے يا کتاب کے ورق پلٹنے ميں کوشاں ۔۔۔ مگر سچ تو يہ ہے کہ يہ بات زمينی سفر سے بہت زيادہ مختلف بھی نہيں ، ٹرين ميں بھی لوگ کانوں ميں آئی پوڈ يا ايم پی تھری کے ہيڈ فونز کسی ناول يا رسالے پڑھنے ميں مصروف رہتے ہيں ۔۔
دراصل سفر سب ايک طرح کے ہيں ، انسان خود ہی اپنے خول ميں ، اپنی ذات ميں بند رہنا چاہتا ہے وہ خود سلام سے گريزاں ہے ، حالانکہ ۔
طلسم خوابِ زليخا و دامِ بردہ فروش
ہزار طرح کے قصے سفر ميں ہوتے ہيں
۔۔آخری بات ، اگر يہ ہوائی سفر نہ ہوتا تو لاہور ميں رہنے والے ، اپنے پياروں سے کيسے ملتے ؟ ! سفر تو وسيلۂ ظفرہے ۔۔!
اپنا بہت خيال رکھيۓ گا ۔
دعا گو
سيد رضا
برطانيہ
آکاش کی نیلگوں فضاؤں کو قریب سے دیکھا ہے آپ نے؟ اگرہوائی جہاز نہ ہوتا تہ شاید ہم بادلوں کے بیچ سے تیرنے کا خواب من ہی میں لیئے دنیا سے لوٹ جاتے۔ ویسے آپ کو بتا دیں کے ہم حیدرآباد سے بنگلور کا بارہ گھنٹے کا سفر بس سے کرتے ہیں اور اس نو سو کلومیٹرکے سفر کے دوران ایک بار بھی ہم نے یہ نہیں سوچا کہ تیلوُگوُ والے کیسے سلام کرتے ہیں اور کرناٹک کا کنڑ کتنا الگ ہوتا ہے۔
اگر ہوائی جہاز نہ ہوتے تو ظاہر ہے B-52 بامبرز بھی نہ ہوتے اوراس B-52 نہ ہوتے، تو عراق اور جيسے دوسرے ممالک کو جمہوريت کيسے ايکسپورٹ کی جاتی ؟
بابر خان - العين
آپ کا فلسفہ سمجھ میں نہیں آیا
آپ کی باتيں حيران کُن حد تک درست ہيں۔ آپ کی تحرير پڑھتے ہوئے ميرے ذہن ميں ابنِ بطوطہ کا نام گونجتا رہا کہ جب سفر کرنے کے دوران درپيش مشکلات اور پھر اُن سے عہدہ برآہ ہونا بجائے خود مہم کے اندر مہم ہوا کرتيں تھيں- آج کے مشينی دور ميں لوگ سياحت کے نام پہ لندن، پيرس، نيويارک يا دوبئی وغيرہ کے رنگين قصے تو نمک مرچ لگا کر چھاپ ديتے ہيں جس سے سفر کی کوئی ايسی صورت نہيں بنتی جس کی تصوير کشی آپ نے اپنی اس تحرير ميں کی ہے۔ جس سفر کا بيان آپ نے کيا ہے اُس ميں مہم جوئی کا لطف بھی ہوتا اور حيرت ہوتی ہے کہ اردو ميں معياری سفر نامے نہ ہونے کے برابر ہيں -
چودھری صاحب آ پکے اس آئيڈيا کو مزيد آگے بڑھايا جاسکتا ہے۔ ايڈونچر کے نام پہ ايسی تنظيميں اور کلب قائم کيے جانے چاہئيں جو ايڈونچر سمجھ کر سفر کو پرانے مگر دلچسپ طريقے سے انجام ديں اور اس ميں چونکہ نام نہاد اسلامی دہشت گردی کا بھی کوئی پہلو نہيں نکلتا جس پہ بش، بلئير اور کمپنی کو اعتراض ہو-
لکھتے رہئيے ،
دعا گو
جاويد گوندل
اسد صاحب آپ کے اس بلاگ کو پڑھ کر مجھے جو بات سمجھ ميں آئی ہے وہ صرف اور صرف يہ ہے کہ انسان بہت نا شکرا ہے۔ جو کچھ حاصل نہيں ہوتا اُس کے لیئے ترستا تڑپتا رہتا ہے اور جو حاصل ہو جائے اُس کی کوئی قدر نہيں ہوتی۔ بندہ پوچھے ٹيکنالوجی کی ترقی سے فائدہ اُٹھا رہے ہيں تو خوشی خوشی اُٹھائيں نا منہ بسور کر اور احسان چڑھا کر کيوں کر رہے ہيں ، بھئی شکر کريں مہينوں اور دنوں کے سفر اب گھنٹوں ميں طے ہو جاتے ہيں آپ کو اس زمانے ميں پيدا ہو کر يہ سہولت ملی ہے تو اللہ کا انتہائی شکر ہے جبکہ انسانوں کی بہت بڑی تعداد اب تک ايسی آسانيوں سے محروم ہے ، بہر حال پھر بھی جس مزے کا آ پ نے ذکر کيا ہے وہ آپ حاصل کرسکتے ہيں ابھی بھی جب پاکستان جاتے ہيں تو يہ شوق پورا کر ليا کريں بسوں، کوچز پر سفر کيا کريں ہر شہر ميں اُترا کريں ہوٹلوں ميں ٹھہرا کريں اور يہ سب مزے جن کا اوپر ذکر کيا ہے ان سب سے دل کھول کر لُطف اندوز ہواکريں ان سب باتوں سے ،يورپ ميں بھی اندرون ملک اور ذرا باہر نکل کر سفر کيا کريں ليکن دونوں جگہ کے نماياں فرق پر بھی بلاگ ضرور لکھيۓ گا کيو نکہ جس طرح يورپ اور ہمارے ملک کی معاشرت ميں فرق ہے حالات اور اکانومی ميں بھی جو فرق ہے وہ بھی نماياں ہو جائے گا اورصرف دو شہروں کے جس سفر کا ذکر کر کے آپ دُکھی ہو رہے ہيں وہ دُکھ کا احساس بھی جاتا رہے گا تو پھر اُميد ہے اگلا سفر ٹکڑوں ميں بٹا ہوا ہوگا اور ہم وہ بلاگ پڑھيں گے، انشاءاللہ العزيز،جاتے جاتے ايک نصيحت کہ اللہ کي سب نعمتوں کا شکر واجب ہے،ہےنا
دعاگو
شاہدہ اکرم
واقعي زمينی سفر ہي اصل سياحت ہے بشرطيکہ وقت کی کوئي قيد نہ ہو اور اس کے لیئے روزگار اور عملی زندگی کے دُوسرے جھميلوں ميں گرفتار ہونے سے قبل، زمانہء طالبعلمي سے بہتر کوئي دُوسرا وقت نہيں ہے- آپ کو فورا اس کي پلاننگ کرنا چاہيۓ-
رہا لندن سے لاہور کا زميني سفر، تو پُر امن اور بھلےزمانوں ميں لوگ لندن سے بذريعہ کار وسطي يورپ سےگُزر کر براستہ تُرکي ، شاہ کے ايران اور ظاہر شاہ کے کابل سے ہوتے ہُوئے بلوچستان وارد ہُوا کرتے تھے- آج آپ سوچ بھي نہيں سکتے ان راستوں پر سفر کرنے کے بارے ميں-
ميری مانیئے تو لندن تا لاہور زميني سفر، آنے والے کسي مُمکنہ بھلے وقت تک موخر کرکے اپنا يہ شوق ، يُونيورسٹي کے موسم بہار يا گرما کے وقفہ کےدوران ، ڈوور سے رُودبار عبور کرکے براستہ فرانس، وسطي يُورپ کے مُمالک کے بيچ سڑک يا ريل کے سفر ہي سے پُورا کر ليجیئے-
شايد ايسا ہی ہوتا جيسا آپ کہہ رہے ہيں ليکن دنيا کے لکیروں ميں بٹنے کا الزام ہوائی جہاز کو دينا کچھ ٹھيک بات نہيں لگ رہي- نہ ہی يہ الزام جانوروں يا پرندوں پہ لگايا جاسکتا ہے- زمين پہ فرضی لکيريں کھينچنے کے الزام بلکہ جرم کا اگر کوئی صحيح قصوروار ہے تو وہ ہم اور آپ ہيں يعنی حضرت انسان- لہذا اگر ہوائی جہاز نہ ہوتے کہنے کی بجائے يوں کہيں تو کيسا رہے گا
ڈبويا مجھ کو ہونے نے
نہ ہوتا ميں تو کيا ہوتا
ويسے ہوائی جہاز کے سفر نے ميرے ان لکيروں ميں بٹنے کے احساس کو ہميشہ ختم کرنے کی کوشش کی ہے جو زمين کے اوپر ہميشہ ذہن پہ سوار رہتا ہے۔
اسد بھائی مجھے لگتا ہے کہ آپ موجودہ ترقی سے حسد کرتے ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ ہم پتھر کے دور میں چلے جائیں۔ اگر جہاز نہ ہوتے تو ہم اتنے طویل سفرکیسے کرتے؟ کیا جرنل مشرف چار دنوں میں چار ممالک کا سفر کر سکتے؟
ڈیئر اسد حقیقت کی دنیا میں لوٹ آؤ۔ یہ خیال کہانی تو ہو سکتا ہے لیکن اس کا حقیقیت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔
کیا زبردست آئڈیا ہے۔ میں پوری طرح آپ سے متفق ہوں۔
ڈیئر میں آپ کی بات سے اتفاق نہیں کرتا۔ اگر جہاز نہ ہوتے تو بہت کم لوگ اپنے ملک سے باہر جاتے اور اگر جاتے بھی تو آدھی زندگی سفر میں ہی گزر جاتی۔
میں آپ سے متفق ہوں۔ اس طرح ہم زیادہ لوگوں اور ان کی ثاقفت کے بارے میں جان سکیں گے۔
جاويدگوندل صاحب نےاگر مُستنصرحُسين تارڑ کا سفرنامہ ' نکلےتيري تلاش ميں ' نہيں پڑھا توضرور مُلاحظہ کريں- غالبا” ساٹھ کي دہائي ميں کۓگۓ پاکستان سےيورپ کے زمينی سفرکی يہ روداد بےحدمقبول ہوئي تھی اور ماسکو يونيورسٹی کےشعبہ اردو کے نصاب ميں شامل تھي-
باقی شائد آپ متفق ہوں کہ مسافر کے مزاج اور ميسر وقت پر مُنحصر ہے کہ کس نوعيت کا سفر اختيار کرتا ہے-
اتناتوحق ہوناچاہيۓ اُسے !
”جاويدگوندل صاحب نےاگر مُستنصرحُسين تارڑ کا سفرنامہ ’نکلےتيري تلاش ميں‘ نہيں پڑھا توضرور مُلاحظہ کريں-ُ،،
محترم جناب اے رضا صاحب! آپکی تجويز سر آنکھوں پہ مگر پتہ نہيں کيوں مُستنصرحُسين تارڑکے سفر نامے پڑھ کر کچہ يوں سا لگتا ہے کہ موصوف يا تو ميموں کا تعاقب کر رہے ہوتے ہيں يا بڑے بڑے قد کی ميميں اُنکا تعاقب کر رہی ہوتی ہيں - ان کے سفر ناموں ميں رومان اور ہيجان ذيادہ اور سفر کم نظر آتا ہے- مُستنصرحُسين تارڑ کا سفرنامہ ' نکلےتيري تلاش ميں ' کا ماسکو يونيورسٹی کےشعبہ اردو کے نصاب ميں شامل ہونے کی ايک وجہ تب کے ’ترقی پسندووں‘ کو دانشور ثابت کرنا بھی تھا اور اس ضمن ميں کئی ايک اونے، پونے اور پورے دانشوروں کے نام گنائے جاسکتے ہيں جنھيں تيسری دنيا اور پاکستان ميں اشتراکي نظام اور سويت يونين سے ہمدردي پيدا کرنے کے ليئے انعامات اور مالی ايوارڈ دئيے گئے اور کئی طريقوں سے ان کی مدد کی گئی جس ميں ادبيات کے نام پہ مفت پبلسٹی اور مدد کا ذريعہ يہ بھی تھا- بہر صورت رضا صاحب آپکی تجويز اور کرم فرمائی کا نہايت مشکور ہوں -
دعا گو- جاويد گوندل - بآرسيلونا، اسپين
آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آجکل جو سفر ہم ہوائی جہاز کے ذریعے چند گھنٹوں میں کرتے ہیں ہوائی جہاز کے بغیر کتنی مدت میں وہ سفر کرتہ خاص کر ایمرجنسی میں۔