ہنسنا منع ہے
گزشتہ دنوں کچھ لطیفے سنے۔ ان میں سے زیادہ تر مولویوں کے متعلق تھے اور سب کے سب ہی پنجابی میں تھے۔
مجھے ہمیشہ لگتا ہے کہ پنجابی میں لطیفے شاید ان میں کچھ زیادہ ہی جان ڈال دیتے ہیں۔ ان لطیفوں میں سے دو پیشِ خدمت ہیں۔
ایک مولوی صاحب مسجد میں صفیں سیدھی کروا رہے ہوتے۔ اور اسی دوران لوگوں کو کہتے ہیں کہ کسی کا پاؤں آگے نہ نکلے۔ ایک شخص فوراً مولوی صاحب سے دریافت کرتا ہے کہ ’مولوی صاحب اگر پیر آگے نکل گیا تو کیا نو بال ہو جائے گا‘۔
اسی طرح مولوی صاحب سب کو تلقین کر رہے ہوتے ہیں کہ نماز کے لیئے اگلی صفوں میں چلے جائیں کہ معصومیت سے ایک شخص پوچھتا ہے کہ ’کیا پیچھے جھٹکے پڑتے ہیں‘۔ لطیفے اور بھی ہیں لیکن ابھی یہیں سہی۔
اسی طرح بچپن میں ایک گاؤں کی شادی میں شرکت بھی یاد آ گئی اور اس میں بھانڈوں کی جگتیں بھی۔ انہوں نے دلہا دلہن اور ان کے بھائی بندوں سے لے کر کسی کو بھی نہیں چھوڑا۔ کئی جگتیں وہاں بیٹھے داڑھیوں والے مولویوں اور بزرگوں پر بھی تھیں۔ بھانڈ ایک ایک کو چن چن کر جگت لگاتے رہے اور سب ہنستے رہے۔ کسی نے بھی برا نہ منایا۔ نہ بھانڈ نے اور نہ ہی مولوی نے۔
ابھی بھی پنجاب کے کئی دیہات میں بھانڈوں اور میراثی ایک ادارہ کی طرح کام کرتے ہیں، ان کے ذمہ ایک کام ہے اور وہ وہی کرتے ہے۔ وہی ان کی روزی روٹی ہے۔ پنجاب اس لیئے کہہ رہا ہوں کہ میں نے اپنے دوسرے صوبوں بلکہ ہندی سروس میں اپنے دوستوں سے اس کے بارے میں پوچھا ہے کہ کیا وہاں بھی بھانڈ جیسا کوئی ادارہ ہوتا ہے۔ پتہ یہ چلا ہے کہ شادی بیاہوں پر ناچنے گانے والے تو آتے ہیں لیکن ہنسنے ہنسانے کے لیئے کوئی مخصوص ادارہ یا پیشہ نہیں ہیں۔
ہمارے دوست آفریدی نے یہ بھی بتایا کہ صوبہ سرحد میں اگر شادی بیاہ میں کوئی ہنسنے ہنسانے والا آ بھی جاتا ہے تو وہ ادھر ادھر کا مذاق تو کرتا ہے محفل میں بیٹھے خانوں پر کوئی جگت نہیں لگاتا۔
کیا ہنسنا اتنی بری چیز ہے۔ کیا مولوی یا خان پر جگت لگانے سے ان کی بے عزتی ہو جاتی ہے۔ کیا وہ خود پر ہنس بھی نہیں سکتے۔ اگر خود پر ہنسیں گے نہیں یا ہنسی برداشت نہیں کریں گے تو اپنی گھٹن کیسے کم ہو گی۔
کہتے ہیں کہ قہقہہ دو انسانوں کے درمیان سب سے کم فاصلہ ہوتا ہے۔ اگر ایک دوسرے پر اور ان کے ساتھ، ہنسیں گے نہیں تو فاصلہ کیسے کم ہو گا۔ اور اگر فاصلہ نہیں کم ہو گا تو قربتیں کیسے بڑھیں گی۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر ہنسنے کے لیئے کچھ بھی نہیں ہے تو کریڈٹ پر ہنس لیں ۔ اس کی بات مان لیں، یقین کیجیئے کچھ نقصان نہیں بلکہ الٹا افاقہ ہو گا۔ تنے رہنے سے دماغی مسائل ہی بڑھتے ہیں۔ میری بات پر یقین نہیں تو ان کی طرف دیکھیئے جو تنے رہتے ہیں۔
میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ ’وہ میرے خواب پر ہنستی رہتی ہے اور میں اس کی ہنسی کے خواب دیکھتا رہتا ہوں‘۔
تبصرےتبصرہ کریں
کسی قوم کی عظمت کی پہلی نشانی يہی ہے کہ وہ اپنے اوپر ہنسنا سيکھ لے ہم لوگوں کی يہی بہت بڑی کمزوری ہے کہ ہم خود پر نہيں ہنستے اور اس طرح اپنی کجرويوں سے اپنا منہ چھپاتے ہيں تا وقتيکہ وہ ناسور بن کر ہمارے ذاتی اور قومی کردار ميں سرايت کر جاتی ہيں ہاں اگر دوسروں پر ہنسنے کا موقع ملے تو خوب جوہر کھلتے ہيں۔
مجھے انگريزوں کی اپنے آپ پر قہقہہ لگانے کی ادا نہايت پسند ہے اور دعا گو ہوں کہ يہ بالغ نظری ہم ميں پيدا ہو ورنہ ڈر ہے کہ
کسی پہ ہنس ليئے اتنا کہ پھر ہنسا نہ گيا۔
ہنسنا ہنسانا اچھی بات ہے مگر مذہبی پيشواؤں کا مذاق اڑا نا ہر مذہب ميں برا سمجھا جاتا ہے اور خصوصاً اسلام ميں تو دوسرے مذاھب کے مذھبی پيشواؤں تک کا احترام سکھايا گيا ہے۔ مسلمان اپنے ہی مذھبی پيشواؤں (علماء اور مولوي) کا مذاق اڑائیں اور اُن کا ٹھٹھا لگائيں يہ قابلِ ستائش بات نہيں کہ اس پہ فخر کيا جائے پھر بھی اگر آپ اس بارے ميں اپنا کوئی مخصوص نقطہ نظر رکھتے ہيں تو اُس کو بلا وجہ سرِعام کرنےسےدوسروں کو ايسا کرنے کی ترغيب ملتی ہے۔ اب يہ الگ بحث ہے کہ آپ نے ارادتاً يوں لکھا ہو کہ بی بی سی کی پاليسی يہی ہے - غير مسلم اسلام اور اسلام ليواؤں کا مذاق اڑائيں تو اسکي وجوہات سمجھ ميں آتي ہيں مگرپڑھے لکھے با شعور مسلمان اپنے شعائر کي تضحيک کريں سمجھ سے باہر ہے- تناؤ کم کرنےاور قربتيں بڑھانےکے ، آپس ميں ذہني روابط قائم کرنے کے ُاسے‘ ہنسانے کے لئيے اور ُاُس، کی ہنسی کے خواب ديکھنے کے اور بھي بہت سے طريقے ہوں گے۔ اورمولويوں کے علاوہ اور لطيفے بھی ہونگے۔ ممکن ہے آپ ميرا يہ مراسلہ نا چھاپيں کہ کچھ عرصے سے بی بی سی اپنی درپردہ پاليسز کی وجہ سے ذيادہ تر وہی تبصرے چھاپنا پسند کرتا ہے جو اسکی پاليسيوں کی حمايت کريں يا جو تبصرے صاحبِ مضمون کی مدح سرائی ميں ہوں مگر ہم نے اپنا فرض پورا کر ديا ہے آپ کريں يا نا کريں۔
جناب عارف شميم صاحب ، آداب
بہت سچی باتيں لکھيں آپ نے، بس اگر لطيفے بھی پنجابی ميں تحرير کرديتے تو سواد آ جاتا ۔۔۔۔
ميں سمجھتا ہوں کہ جو آدمی خود پر نہيں ہنس پاتا وہ کسی پر ہنس نہيں سکتا۔
ہم اپنے حالِ پريشاں پہ مسکرائے تھے
زمانہ ہو گيا يوں بھی تو مسکرائے ہوئے
ہنسنے کے لیئے ضروری ہے کہ تہذيب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے ۔ اور مقصد کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ ہنسنا تو علامتِ زندگی ہے مگر رونا بھی پيغامِ حيات ہے اور جب اس نئی زندگی کے رونے کی آواز ہمارے کانوں سے ٹکراتی ہے تو پھر خوشی و مسکراہٹ ہمارے چہروں پر نمودار ہوجاتی ہے ۔۔ وہ لمحہ کيسا عجيب امتزاج بن جاتا ہے رونے اور خوشی کا ۔۔
بس ايسے ہی ھنستے، مسکراتے رہيۓ اور ہميں بھی ہنساتے رہيں۔
دعا ہے کہ ہمارا ہر دن ہنستے مسکراتے گزرے کيونکہ سب سے خراب دن وہ ہوتا ہے جب ہم ہنستے يا مسکراتے نہيں ۔ اس لیئے ’ہنسنا ضروری ہے‘۔
بہت جاندار بلاگ ہے ہان جناب ہنستے ہنساتے رہنا چاھيے۔ جو معاشرہ طنز و مزاح برداشت نہيں کر سکتا وہان سانس لينا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔ ہمارا صوبہ بلاشبہ دنيا کا حسين طرين خطہ ہے مگر جب سے طالبانائزيشن کی زد ميں آيا سب تباہ ہو گيا ہے۔ ميرا کافی عرصہ پہلے تحصيل الائی کے گاؤں پوکل ميں قيام رہا شايد دنيا مين کہيں جنت ہے تو اسی علاقے ميں ہے۔ اُس زمانے ميں بھی گھٹن کا احساس ہوتا تھا مگر اتنا نہيں مگر جب سے وہان کی ثقافت کوطالبانائزيشن کا تڑکا لگاہے وہان جاتے بھی ڈر سا لگتا ہے۔
یار گوندل، ہر بات میں اسلام کو کیوں لے آتے ہو۔ تھوڑا سا جی بھی لینے دو۔ آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ اسلام میں کھل کر ہنسنا بھی منع ہے۔ ویسے مولوی بھی انسان ہی ہوتے ہیں کیا ان میں کوئی خامی نہیں ہو سکتی۔
شميم بھائی آپ کا آج کابلاگ پڑھ کر ميں يہ سوچنے پر مجبور ہو گئی ہوں کہ ہم کيوں ہنسنے ميں اتنا تکلف کرتے ہيں، جب کہ ہنسی بجائے خود علاج غم ہے، کچھ ملکوں ميں تو باقاعدہ لافٹر کلب بھی بنائے گئے ہيں اور مقابلے بھی کروائے جاتے ہيں۔ سائنسی نقطۂ نگاہ سے بھی ہنسنا بہت مفيد ہے اور يہ بات سبھی جانتے ہيں۔ پھر بھی پتہ نہيں کيوں ہم کنجوسی سے کام ليتے ہيں يا شايد اندر سے کوئی ہے جو ايسا کرنے سے روکتا ہے۔
رہی شميم بھائی آ پ کے لطيفوں والی بات تو يہ بات ضرور سچ ہے کہ پنجاب کے لوگ ہر معاملے ميں پُر جوش ہوتے ہيں خواہ موقع خوشی کا ہو يا غم کا يا دشمنی کا ہر موقع گج وج (زورشور)کے ساتھ مناتے ہيں اسی لیئے شايد ہر شوخا سا لطيفہ يا پنجابيوں يا سردار صاحبان سے منسوب کر ديا جاتا ہے اور جو کچھ آپ نے شادی بياہ کے مواقع کے متعلق بات کی ہے تو پنجاب کے لوگ کہيں بھی رہائش پزير رہے ہوں اور خواہ کتنے عرصے سے وہاں رہائش پزير کيوں نا ہوں اپنی روايات کو اپنے ساتھ لے کر پھرتے ہيں۔ جگتيں اگر گاؤں ميں ہوتی تھيں تو اب بھی ہوتی ہوں گی ليکن شہروں ميں شادی بياہ کے مواقع پر جسے عُرف عام ميں بھگو بھگو کر سنانا کہتے ہيں خوب سنايا جاتا ہے اور دُولہا والے بہت خوشی خوشی يہ سب برداشت کرتے ہيں۔ مجھے اپنے بھائی کی شادی کا موقع ياد آتا ہے کہ ہمارے سامنے بيٹھ کر بھابھی کی دوستوں نے ميری امی کی اجازت سے ہماری بہت دُرگت بنائی۔ بقول امی کے مائيں تو بيٹے کی پيدائش کے دن سے ہی ان سٹھنيوں کے بولوں کا انتظار شروع کر ديتی ہيں سو برا ماننے کا تو سوال ہی پيدا نہيں ہوتا۔ سو ہنسنا برا کيسے ہو سکتا ہے بس ہنسی اور پھکڑ پن ميں فرق ہونا چاہيۓ۔ اور يہ جو اعصاب کے تنے ہونے کی بات ہے تو کيا کيجيۓ کہ دنيا کے غم لے ڈوبے، آگاہی جہاں ايک خوبصورت حقيقت ہے وہيں يہ ايک ايسا عذاب بھی ہے کہ اس کی وجہ سے ہی شايد آج ہم جی بھر کر خوش ہونا بھی چاہيں تو نہيں ہو پاتے پھر بھی حضور والا فکر نا کريں کوشش کريں گے آپ کے مشوروں پر عمل کرنے کی ليکن جاتے جاتے اپنے راز سے پردہ بھی تو اُٹھا ديتے نا کہ کون ہے وہ شميم بھائی جو آپ کے خوابوں پر ہنستی ہے اور خود نہيں ہنستی۔ يہ سب کچھ آ پ نے بھابھی کے متعلق ہی فرمايا ہے نا يا يہ کوئی اور ہے ۔ خوش رہيئے، خوشياں بانٹيئے ہاں حقيقت ہے کہ ميرے تنے ہوئے اعصاب تھوڑی دير کو ريليکس ہوئے ہيں کمر کا درد بھی محسوس نہيں ہو رہا، دعائيں ڈھيروں خوشيوں کی مسکراہٹوں سے بھر پور زندگيوں کے لیئے۔ پوری دنيا کے لوگوں کے تنے ہوئے اعصاب کو پُر سکون کرنے کے کے لیئے۔
مع السلام
شاہدہ اکرم
اسلام علیكم
مذاق كرنا كوئی گناہ نہیں ہے مگر طریقے سے كیا جاے تو۔ كیونكہ اسلام نے ہر چیز كا ایك طریقہ دیا ہے۔ اگر مذاق كا مقصد كسی كی طبیعت كو خوش كرنا ہے تو ٹھیك ہے مگر اس سے كسی كے دل كو تكلیف ہو تو یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ اور
جھوٹی بات سے كسی كو ہنسانا بھی ٹھیك نہیں ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے كہ آپ نے جو لطیفے بیان كیے وہ كسی بھی طرح صحیح نہیں ہو سكتے۔
اسلام كے احكام پر مذاق كرنا یہ عمل نواقض اسلام میں سے ہے۔ جو انسان كو دائرہ اسلام سے خارج كر دیتا ہے۔ پوری اُمت كا اس چیز پر اتفاق ہے۔ اس لیے اپ كو اللہ سے ڈر جانا چاہئیے۔
عارف بہت خوبصورت بلاگ رہا يہ تو آپ کا۔
آخری جملہ شاعرانہ اور شاعر تو آپ ہيں۔
يار، مولويوں کے لطيفے دو چار اور لکھ دو۔ معلوم ہوتا ہے آپ کے پڑھنے والے کچھ زيادہ ہی حساس ہو رہے ہيں۔ مولويوں کے ان مکتب زدہ بچوں کی تعليم بھی تو آپ ہی کا فرض ہے نا۔
لکھتے رہو عارف اب بھی رات کی رات پڑی ہے۔
بھائی شاھد لودھی صاحب! ميں دينی اسکالر نہيں ہوں اس موضوع پہ کوئی دينی عالم ہی بہتر طريقے سے روشنی ڈال سکتا ہے مگر ميری رائے ميں اسلام ميں ہنسنے اور ہنسانے پہ کوئی پابندی نہيں اور لطيف مذاق کی بھی اجازت ہے - اور ھنسنا ، مسکرانا يا قہقہ لگانا بھی انسانی مزاج کا لازمی حصہ ہے اور انسان کی بنيادی فطری کيفيتوں ميں سے ايک مزاجی کيفيت کا اظہار ہے اور اسلام ايک فطری مذہب ہے- ميں نے ايک روزنامے ميں پڑھا تھا کہ ’انسان کے چہرے پر ایسے دو سو زاوئیے یا پوائنٹس ہوتے ہیں جو اس کے چہرے پر تاثرات پیدا کرتے ہیں ہمارے چہرے کا ہر تاثر ان چند پوائنٹس کا مرہون منت ہوتا ہے مسکراہٹ ہمارا واحد عمل ہے جس میں چہرے کے تمام پوائنٹس حرکت میں آتے ہیں جو شخص دن میں دس بیس مرتبہ مسکراتا ہے اس کے چہرے کے تاثرات ہمیشہ زندہ رہتے ہيں- جو لوگ کم مسکراتے ہیں وہ لوگ ’ایکسپریشن لیس‘ ہو جاتے ہيں، ہماری مسکراہٹ سے ہمارے جسم میں ایک کیمیکل پیدا ہوتا ہے یہ کیمیکل ہمارے تنے ہوئے اعصاب ہمارے سلگتے ہوئے احساسات اور ہمارے ابلتے ہوئے جذبات کو سکون پہنچاتا ہے یہ ہمیں سچی خوشی دیتا ہے اس کی وجہ سے ہم خود کو ہلکا پھلکا اور مطمئن محسوس کرتے ہیں اور یہ ہماری کام کرنے کی صلاحیت اور استعداد میں اضافہ کرتا ہے۔
اسلئيے ميری دعا ہے کہ آللہ آپکو ، عارف شميم صاحب کو ھم سب کو تمام قارئين اکرم کو ہميشہ ہنستا مسکراتا رکھے آمين
جناب عارف صاحب
آپ نے جس لطيفے کے ذريعےروشن خيال بننے کی کوشش کی ھے وہ مولوی پر نہيں بلکہ مولوی کی اس بات پر ہے جس ميں وہ ہميں نماز کا درست طريقہ بتا رھا ھے۔ ہنسيں ضرور مگر مذہب مزاح پر۔ ويسے ذيادہ ہنسنے پر ايک شعر عرض کيا ہے
يہ روز روز کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں ميں کبھی رو بھی ليا کر
مذاق کرنا بری بات نھیں لیکن کسی کا مذاق اڑاناگناہ ھے اور وہ بھی اسلام کا۔
’وہ میرے خواب پر ہنستی رہتی ہے اور میں اس کی ہنسی کے خواب دیکھتا رہتا ہوں‘۔
آپ کا اشارہ غالبآ کسی مولوی کی طرف ہے؟
ضرور کبھی کبھی ہنسنا بھی چاہیئے اور اگر موقعہ ہو تو قہقہہ بھی لگانا چاہئے۔ لیکن ذرا یہ بھی بتائیے کہ کس پر ہنسا جائے۔ ہر انسان سے متعلق کوئی نہ کوئی ایسی چیزیں ہوتی ہے جس کے بارے میں وہ حساس ہوتا ہے۔ اور مسلمانوں کے لئیے دین کے شعائر اس کیٹگری میں آتے ہیں۔ رہی مغرب کی بات، تو انہوں نے اپنے دین اور دین کے متعلقات کب کا پس پشت ڈال دیا ہے، تو آپ کیوں مصر ہے کہ ہم بھی یہی کریں۔ رہی مولویوں کی بات، تو یہ آپ کی تنگ نظری کے سوا کچھ بھی نہیں کہ وہ ہنستے ہنساتے نہیں ہے۔ مسئلہ آپ کا ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ وہ اللہ اور اسکے رسول کا بھی مذاق اڑائیں یا اسے برداشت کریں۔ اب یہی دیکھئے کہ یہاں پر نماز میں صفبندی کا مذاق اڑایا ہے، حالانکہ یہ اسلام کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ آج چودہ سو سال کے بعد بھی سب مسلمان چھوٹے بڑے ایک صف میں سیدھے کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔ کبھی اس پر مثبت انداز میں بھی تذکرہ کریں۔
عارف صاحب!
طنز و مزاح اور ٹھٹھول میں فرق ہے۔ طنز برائے اصلاح پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔ طنز برائے تضحیک تو مغرب میں بھی قابلِ ہرجانہ جرم ہے۔
مزاح تو غیر جانبدار ہوتا ہے۔ جب جانبدار ہو جاتا ہے تو طنز ہو جاتا ہے۔
ٹھٹھول سے تو سختی سے منع کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ آج تم ہنس رہے ہو تو کل اگر میں ہنسا تو پھر کیا ہوگا۔ یہ ٹھٹھول کے بارے میں ہی کہا جاتا ہے۔
مذاق یا مزاح تو یہ بھی ہے ۔
دروغ بہ گردن راوی
ایک بڑھیا حضور کے پاس آئی اور کہا کہ کیا میں بھی جنت میں جاؤں گی تو آپ نے فرمایا کہ جنت میں بوڑھے نہیں ہوں گے۔ خاتون نے پریشان ہو کر رونا شروع کردیا۔
تو آپ نے تسلی دیتے ہوے فرمایا کہ بوڑھے جوان ہو کر جائیں گے۔
مجھے سمجھ نہيں آتی کہ مولوی زندگی سے اتنے عاری کيوں ہيں اور يہ دوسروں کو کمتر کيوں سمجھتے ہيں۔ ہمارے آفس ميں بھی کچھ عرصے سے ايک مولوی کا اضافہ ہوا ہے جو نہ خود ہنستا ہے نہ دوسروں کو ہنسنے ديتا ہے اور ہر وقت تناؤ کا شکار رہتا ہے۔ پنجابی بہت زندہ دل اور آزاد خيال لوگ ہيں۔ ہمارے يہاں تومولوی کا مذاق اڑانا اسلام کی توہين سمجھی جاتی ہے جسکی سزا قتل ہے۔ حالانکہ سب کو پتہ ہے کہ جہالت کا جيثا جاگتا نمونہ ہیں۔
آپ کا بلاگ پڑھا ، آپ نے اپنی سوچ کے مطابق ٹھيک ہی لکھا ہو گا اور واقعتاً مجھے بھی ہنسنے ہنسانے سے تو اعتراض نہيں ہے۔ اس عمل سے انسان کچھ دير کيليئے اپنے غم بھول جاتا ہے، کسی قدر ريلکس يا سکون محسوس کرتا ہے۔ مگر آپ نے جس لاہوری انداز ميں جگت بازی کا ذکر کيا ہے اور وہ بھی اسلام پر اس پر يقيناً دکھ پہنچا ہے اور حقيقت تو يہ ہے کہ ہم لوگوں نے خود ہی اپنے مذ ہب کے حوالے سے بہت کچھ غلط ملط گھڑ ليا ہے۔ ہم نے اپنے مذہب اسلام کو مذاق بنا ديا ہے جبکہ اگر گہرائی ميں مطالعہ کريں تو صفيں سيدھے کرنے اور صفوں ميں خالی جگہ نہ چھوڑنے کا حکم اللہ نے ديا ہے۔ اس سے محبت بڑھتی ہے - اب افسوس کا مقام تو يہ ہے کہ ہم نے داڑھی کو بھی مذاق بنا ديا ہے۔
بڑا اچھا کيا جو قوم کو ہنستے رہنےکا کہا۔ بے چاری مری جا رہی ہے گھر گھر ماتم ہے رونا اور آہ وفغان ہے جيسے پاکستان نہيں بلکہ افغانستان ہو۔ ہاں مگراپنی رگ ظرافت سے ہی پنجاب زندہ دلان لاہور ہے۔ يہاں کی ذہانت کا جواب کہاں؟ کہتے ہيں ايک لاہوری افغانستان ميں امريکي آمد کے بعد ہزاروں نئی پرانی سائکليں برآمد کرنے کابل پہنچا اور درآمد کندگان سے سودا طے کرنےلگا۔ ايک کابلی نےبتايا کہ وہ روس کی افغانستان آمد پر دس سال لاہور ميں مہاجر رہاہے اس پر بات بزنس کي جانب موڑنے کے واسطے لاہوری نے پوچھا ’کيا پاکستان ميں سائيکل چلائي تھي‘؟ کابلی بولا ’اتنا ياد نہيں پر وہ آم والا ياد ہے جو شاہی مسجد کے پاس گدھے پرلادے آم بيچتا تھا۔ ايک روز ميں نےبھی آم خريدنے کےواسطے پول ( پيسے) ذخيرہ (بچاۓ) کیئے اور ايک دانہ بيدانہ (ميٹھا) آم خريد ليا‘۔ ’اچھا پھر؟‘ لاہوري نے پوچھا تو کابلي بولا ’پھر ميں نے راستے ميں ايک آدمی سے پوچھا کہ برادر يہ ميوہ کيسے کھاتے ہيں؟ اس پر آدمی نے آم ميرے ہاتھ سےاچک کر ہنستے ہوئے کھانا شروع کيا اور کہا کہ يوں کھاتے ہيں‘۔
ابھي کل ہی واشنگٹن ميں صدر بش کے ہاں مشرف اور کرزئی کےڈنر کے دوران افغان صدر نے پاکستان پر طالبان کی مدد کرنے کا الزام لگاتے ہوئے پختونستان کي آزادی کا مطالبہ کياجس پر صدر بش نے انہيں يقين دلايا کہ نيٹو کي افواج سارے ہی ستان طالبان سے آزاد کرا کے دم لے گي۔
جاويد گوندل نے بلکل صحیح فرمايا۔
بلاگ کی طرح تمام دوستوں کے تبصرے بھی کافی دلچسپ ہيں۔ ميرا خيال ہے کہ اگر آپ کو کسی بات پہ ہنسی آئے تو بہتر ہے کہ پہلے فتویٰ ليں اگر گناہ نہ ہو تو ہنس ليں۔ ويسے تو ہنسی بے ساختہ آئے تو مزہ ہی کچھ اور ہے۔ ليکن بعد ميں بھی ہنسنے ميں مذائقہ نہيں۔ خواب کيا ہيں يہ بھی تو بتائيں ناں- اندازہ يہ ہے کہ آپ اسکو ڈھير ساری شاپنگ کروانے کا خواب ديکھتے ہيں۔ اسکو سن کر وہ ہنستی ہے۔
مولويوں کے لطيفوں پہ خفاحضرات براہ مہربانی کچھ مذہبی لحاظ سے قابل قبول لطيفے ہی درج کرديں- ليکن شرط يہ کہ ہنسی ضرور آئے- اگر نہيں تو حس مزاح سے محرومی کو مذہب کی ڈھال نہ دي جائے۔
محترم عارف شميم صاحب، آداب
تمام کے تمام تبصرے انتہائی فکر انگيز ہيں اور تمام افراد اس بات پر متفق ہيں کہ ’ہنسنا ضروری ہے‘۔۔۔اور يقيناً بہت قہقہے مارنا، ٹھٹھے لگانا بھی درست نہيں کہ دامنِ تہذيب ہاتھ سے چُھوڑ ديا جاۓ ۔ کيونکہ اس طرح کا رويہ ، ميں نے کہيں پڑھا ہے کہ عقل کو زائل کرتا ہے۔
جيسا کہ ميرے کرم فرما جناب جاويد گوندل صاحب نے فرمايا کہ اسلام دينِ فطرت ہے اور ہنسنا بھی فطرتِ انسانی ہے مگر اسلام کسی کی تضحيک کی اجازت ہر گز نہيں ديتا وہ چاہيۓ عالمِ دين يا ايک ادنيٰ غلام۔
دوسرے يہاں آپ کے لکھے لطيفوں پر مولوی اور شعائرِاسلام کی بات ہوئی ۔ ميں بےہنر اس کو اس طرح سے ديکھتا ہوں کہ نہ اس ميں مولوی کا مذاق اڑايا ہے نہ شعائرِ اسلام سے گستاخی کی گئ ہے بلکہ جہاں اس ميں اس شخص کی معصوميت پر ہنسی آتی ہے تو اسلام بنيادی رکن سے متعلق سمجھ بوجھ نہ رکھنے پر افسوس بھی ہوتا ہے اور آپ اور ديگر افراد اس بات سے اتفاق کريں گے کہ ہمارے اردگرد کتنے ہی افراد ہيں جو چھوٹے ، چھوٹے مسائلِ شرعيہ سے ناواقف ہيں ۔ مگر اسلام اور شريعت پر ايسے گفتگو کرتے ہيں جيسے کہ اصلِ دين صرف يہ جانتے ہيں ۔’نيم مُلا ، خطرۂ ايمان‘ ۔
بس يہی دعا ہے ؛
تری بخششوں ميں ہے سروری ، ہو عطا مجھے بھی قلندری
جو اٹھے تو دستِ دعا لگے ، مجھے ايسا دستِ سوال دے
يہ مسلہ جتنا دلچسپ اتنا اہم بھی ہے اور جو حضرات ترقی يافتہ مالک ميں انسانی حقوق کے عالمی قوانين کے تحت ملٹی کلچرل سماج ميں بس رہے ہيں ان کے لیئے لمحہ فکريہ بھي کہ جس سوسائٹی ميں ہر رنگ مذہب نسل فرقےاور سياست کے لوگ قانون کی ايک چھتری تلے بستے ہوں وہ ايک دوسرے کی باہمی پرکھ قريب سے کرتے ہيں ايک دوسرے کے کمزور اور غير منطقی پہلوں کو اجاگر کۓ جاتے ہيں جس سے بانت بانت کے لطيفے بھی سامنے اتے رہتے ہيں اور جيسا کہ سچ کڑوا ہوتا ہے سو کچھ لوگوں کے واسطے افسوسناک کچھ واسطے باعث شرم ہوتاہے ہم لوگ سرداروں سے منسوب لطيفے سنتے سناتے ہيں يا يہوديوں اور کالوں کےمگر انسانی حقوق کے جملہ قوانين کے تحت يہ طرز عمل ايک کميونٹی کی مشترکہ دل ازاری کے زمرے ميں آتا ہے اور موجب سزا ہے۔ مگر انسانی سماج ميں طبقاتی نسلی مزہبی وغيرہ لطيفے يکلخت نہيں بنے انسانی ذہانت تسلسل سے مشاہدے کے بعد ہی اسے زبان زد عام کرتی ہے سو ايسے ميں کيا ہوت؟مجھے اس سوال کاجواب کچھ يوں ملا ہے کہ جو انسانی ذہن ايسے لطيفے جنم ديتا آيا وہ ابھی تک 20 ويں صدی سے پہلے کے ادوار پر محيط ہے جس ميں غلامی نسلی قباہلی مذہبی جاگيرداری اور سرمايہ داری ادوار کا نچوڑ تو ہے مگر جمہوری اور انسانی حقوق کے ادوار کو شامل نہيں کیا گیا اسليۓ وقت اور انسان دوست تحريکيں ہی موجودہ شعوری قوانين کےاز بس ہونے کا ادراک انسانی لا شعور کو بخشيں گے جو انسانی ضمير ميں ايسی لطيفہ سازی کا تدارک کرےگا۔
آپ کا کہنا بجا ہے ہنسنا بری بات نہیں
ليکن ہنسنے کے ليے مذہب کا مذاق اُڑانا صحيح بات نہیں۔
آپ نے جن دو لطيفوں کا ذکر کيا ہے دونوں ميں اسلامی احکامات کا مذاق اُڑايا گيا ہےـ کيونکہ صف سيدھی کرنا اور اگلی صف پہلے مکمل کرنے کا حکم اسلام کا ہےـ کسی مولوی کی ذاتی رآئے نہيں۔
لطيفے در حقيقيت مختلف معاشرتی کرداروں کے رويوں کو لطيف انداز ميں معاشرے کے سامنے رکھنا ہے۔ مولوی بھی ان ميں سے ايک ہے۔ کسی بھی لطيفے کا بنيادی مقصد تضحيک نہيں۔ جو لوگ اس ميں سے تضحيک کا پہلو نکالتے ہيں تو اس کے پيچھے ان کا اپنا کوئی نہ کوئی تعصب کام کر رہا ہوتا ہے۔ رضا صاحب کا تجزيہ کافی حد تک درست ہے۔ جيسے يہ لطيفہ ايک مولوی سائيکل ايک عورت کو دے مارتا ہے۔ وہ غصے ميں کہتی ہے شرم نہيں آتی اتنی بڑھی داڑھی ہے اور ٹکر مار رہے ہو۔ مولوی صاحب کہتے ہيں ’داڑھی ہے کوئی بريکيں تو نہيں‘۔ اب آپ تضحيک کا پہلو بھی نکال سکتے ہيں ليکن مقصد اس معاشرتی رويے کی نشاندہی ہے جس کے تحت داڑھی والے شخص سے کسی غلطی کی اميد نہيں رکھی جاتي۔
ہر قسم کے معاشرتی کرداروں اور انسانی رشتوں کے رويوں پر لا تعداد لطيفے ہيں جن کا مقصد اصلاح بذريعہ مزاح ہے۔ جس سے کسی کی دل آزاری ہو وہ لطيفہ کيونکر ہو سکتا ہے۔ ليکن بات پھر وہی برداشت کی ہے۔
اسلام نے کبھی ہنسی مذاق سے منع نہيں کيا۔ آُپ کی تحرير کم علمی پر مبنی ہے۔ آئندہ ايک بلين سے زيادہ مسلمانوں کے مذہبی احکامات و احساسات کا مذاق اڑانے سے پہلے اس سے ابھرنے والے ردعمل کے بارے ميں ٹھنڈےدماغ سے اچھی طرح سوچ ليں۔
منا بھائی فلم تو سب نے ديکھی ہوگی نہ ڈاکٹر استانہ غصے ميں بھی ہنستا رہتا ہے تو سب کو ہسنا چاہيۓ۔ ہنسی نہ بھی آۓ تو خود کو آئنے ميں ديکھ کر ہنسنا چاہيۓ اتنے شريفانہ و معصومانہ مولوی والے لطيفے ہی تو ہيں۔ کيا مولوی انسان نہيں ہوتے ان سے غلطياں نہيں ہوتي؟ جنہيں خود پر ہنسنا آتا ہے وہ لوگ بڑے خوش اخلاق ہوتے ہيں ميری طرح ويسے ہم پٹھان لوگ کافی ريجڈ ہوتے ہيں ليکن دوسروں پر ہسنے کا کوئی موقع ضائع بھی نہيں کرتے ۔اسلام کو نقلی مذہبی لوگوں اور مولويوں نے تو فٹ بال بنا ديا ہے ان کی مرضی کے بغير لطيفے بھی نامنظور نامنظور!