’بیروت میں بموں پر بم گرتے ہیں جیسے دوزخ کے دروازے ہم پر کھول دیئے گئے ہوں۔ ایسا لگتا ہے ساری دنیا ہمارے خلاف ہو گئی ہے، ہم بےبس ہیں۔‘ یہ الفاظ یہاں امریکہ کی ریاست شمالی کیرولائینا کے شہر شارلیٹ میں بسنے والی ایک لبنانی خاتون مونا عباسی نے مجھ سے کہے۔
جاری رکھیے
کونڈی ہنستی رہتی ہے۔ پتا نہیں کیوں۔ کٹھن وقت، پیچیدہ بحران اور ہیبت ناک جنگ، جس میں اب تک صرف دو ڈھائی سو بچوں کی جانیں جا چکی ہیں اورجا رہی ہیں، کم از کم سنجیدہ یا ’سومبر‘ تو نظر آئیں!
جاری رکھیے
احمد فراز پاکستان کی آمرانہ فوجی حکومت کو ’’ہلال امتیاز‘ واپس کرکے وہ احمد فراز لگتے ہیں جو ضیا ء الحق کے دنوں میں تھے، جب مشاعروں کے پولیس محاصرے کرلیتی تھی پھر بھی ہزاروں لوگ مشاعرہ سننے کیلیے پہنچے ہوتے تھے۔ احمد فراز یا تو مشاعرہ پڑھنے کے بعد مشاعرہ گاہ سے نکلتے ہی شہر یا ضلع بدر کیے جاتے جاتے تھے، یا مشاعرہ سے پہلے ہی۔
جاری رکھیے
اسد چودھری نے سچ کہا تھا کہ ياد کا کوئی وقت نہيں ہوتا۔ رات بيٹھے بيٹھے کی ياد آئي۔
جاری رکھیے
ہے خبر آج کہ بیروت میں اک گھر ہے ایسا
جس کی چھت ہے ابھی باقی
اور اس میں سب رہنے والے
چلتے پھرتے بھی گئے ہیں دیکھے
ہے خبر رات کو قہقہے بھی اٹھے اس گھر سے
اور پھر دور بھی چلتا رہا باتوں کا
’کیسی دنیا ہے کہ اس میں
غم مٹتا ہی نہیں اور خوشی ہے نایاب‘
ایک مکیں بچے کی آواز میں حیرانی تھی
وہ کہ ممبئی تھا، غزہ تھا یا گرمی تھی
ہر اک بات پر عیاں اس کی پریشانی تھی
جاری رکھیے
زوئی نے ایک روز سکول سے واپس آ کر اعلان کیا کہ وہ صرف سبزی کھائے گی کیونکہ چِکن برگر حرام ہوتا ہے۔ اس کی ماں کو حیرت ہوئی کہ یہ سات سال کی بچی کو کیا ہوگیا۔ اس کے بعد زوئی نے اپنے پسندیدہ 'چِکن نگٹس' کے بارے میں بھی ایسی ہی بات کر دی۔
جاری رکھیے
نجانے کیوں جب بھی بیروت کا نام آتا ہے تو مجھے صرف ایک نام خلیل جبران کا ہی یاد آتا ہے اور اسکا ’‘ یا ’النبی‘۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ خلیل جبران کہیں خود بھی پیغمبر تو نہیں تھا۔ خلیل جبران کہ بچپن میں جسکی کتابیں میں نے ’عمران سیریز‘ پڑھ چکنے کے فوراً بعد شروع کی تھیں۔ خلیل جبران کا بیروت پھر جلنے لگا ہے۔
جاری رکھیے
آج کل کے حالات کو دیکھتے ہوئے میرا آزادی اور جمہوریت سے ایمان اٹھتا جا رہا ہے۔
جاری رکھیے
ورلڈ کپ فائنل میں زیدان کی حرکت، اس کو ریڈ کارڈ دیا جانا اور اس کی وہ تصویر جس میں وہ اپنے کیرئیر کے اختتام پر گرآؤنڈ سے خاموشی سے جا رہا ہے۔۔۔ یہ ساری تصاویر اب تک دماغ میں گھوم رہی ہیں اور مجھے پریشان کر رہی ہیں۔
جاری رکھیے
میری امّی کی خوبصورت ترین یادوں میں گرمیوں کے وہ دن بھی شامل ہیں جو انہوں نے اپنے گاؤں میں گزارے تھے۔ ہر سال گرمیوں کی دوپہر میں وہ گاؤں میں گزرے ان دنوں کے بارے میں ایک کہانی ضرور دہراتی ہیں۔
جاری رکھیے
یہ پاکستان کی گلیوں سے اٹھائے ہوئے ’سٹریٹ رومیوز‘ جو سکول اور کالج کے راستوں پر لڑکیوں کو تنگ کیا کرتے تھے، اب سندھ اسمبلی کے رکن ہیں اور ساتھی خاتون پارلیامیٹیرینز کو ہراس کیا کرتے ہیں۔
جاری رکھیے
میں اور میرے کئی دوست احمد ندیم قاسمی کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ اس لیے نہیں کہ وہ اچھا نہیں لکھتے تھے، اس لیے کہ ضیاء الحق کے دور میں جوان ہونے والے بدقسمتوں کو ہر وہ وضع دار شخصیت بری لگتی تھی جس سے ذرا سا بھی پرو ایسٹیبلشمینٹ ہونے کی جھلک آتی ہو۔
جاری رکھیے
ایک ذمہ دار قومی انگریزی اخبار کے مطابق پانی و بجلی کے وفاقی ادارے واپڈا کے جنرل مینجرز اور ڈائریکٹر لیول کے پانچ حاضر سروس اہلکاروں نے واپڈا ھاؤسنگ فاؤنڈیشن کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور اسکا سرپرستِ اعلی واپڈا کے چیرمین طارق حمید کو تجویز کیا۔فاؤنڈیشن کے تحت واپڈا فارم ہاؤسنگ اسکیم کا اعلان کردیا گیا اور اس اسکیم میں چار کنال سے لے کر سولہ کنال کے پلاٹوں کے لئے درخواستیں طلب کی گئیں۔
جاری رکھیے
ایک باپ نے تین بیٹیاں ذبح کر دیں، دوسرے نے اپنی بیٹی کی گردن قینچی سے کاٹ دی، تیسرے نے اپنی بیٹی ونی میں دے دی۔ مثالیں ہزاروں ہیں۔
جاری رکھیے
’ہم جہالت پسند مسلمان‘ کے عنوان سے میرے پچھلے بلاگ پر جو جوابات آئے ان سے میری یہ بات کافی حد تک ثابت ہو گئی کہ ہم لوگ بہت مشکل سے اپنے خیالات و حرکات پر غور یا ’انیلاسِس‘ کر سکتے ہیں۔
جاری رکھیے
یہ بابا راجہ کی کہانی ہے۔ وہ ضلع گجرات میں لالہ موسیٰ کے قریب گاؤں گورسیاں میں شاید موچیوں کے گھر میں پیدا ہوئے۔ وہ سرونٹ کوارٹر میں رہے، ہر چھوٹے بڑے کو انہوں نے صاحب کہہ کر بلایا، زیادہ تر نیچے ہی بیٹھے اور اکثر خوش اور مطمئن ہی نظر آئے۔
جاری رکھیے
ان دونوں سي آئی ی ڈی والوں، ’چاچا پیڈل‘ اور ’چاچا کھڑکھڑا ' اور پنڈی کی پتلی گلیوں میں رہنے والے ان نوجوانوں کے درمیان ایک رشتہ تھا - وہ رشتہ تھا بھٹو سے محبت اور ضیاءالحق سے دشمنی کا۔
جاری رکھیے
کراچی میں ان دنوں آپ کسی بھی بینک، سرکاری اور نجی ادارے کا رخ کرلیں آپ کو یوں محسوس ہوگا جیسے اچانک سارے ملازمین فرض شناس سے ہوگئے ہوں۔جو اہلکار دس گیارہ بجے تک دفتر آتے تھے اور دوپہر ڈھلتے ہی غائب ہوجاتے تھے۔اب وہ دفتری اوقات کے بعد بھی اپنی اپنی نشستوں پر نظر آتے ہیں۔
جاری رکھیے
بیڈ کی حد تک ٹھیک تھا، کتابوں کی الماری بھی چلو قبول ہے لیکن پوری کی پوری سائیکل۔ یہ ذرا کم ہضم ہونے والی بات لگی۔
جاری رکھیے